طلبہ تنظیموں کے تصادم کی اصل کہانی

2002ء میں ملک میں جنرل (ر)پرویز مشرف کا مارشل لاء سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ ایسے وقت میں جامعہ کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ نے طلباء یونین کی اہمیت کے حوالے سے ایک پروگرام منعقد کیا‘ جس میں جماعت اسلامی کراچی کے رہنما مرحوم پروفیسر عبدالغفور ‘ پیپلز پارٹی کے رہنما پروفیسر این ڈی خان ‘ مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید ہاشمی سمیت دیگر سینئر سیاسی رہنما موجود تھے۔ ان شخصیات نے طلباء یونین کی اہمیت و افادیت کے حوالے سے مفصل گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ طلباء یونین کی بھٹی سے کندن بن کر میدان سیاست میں اترنے والے سیاسی شاہ سواروں اور اچانک وارد ہونے والے ”سیاسی پیراٹروپرز‘‘ میں فرق بھی سمجھایا۔ پروگرام کے اختتام پر طلباء یونین کا شاندار ماضی سامعین کو ذہن نشین ہوچکا تھا۔ان سیاسی شخصیات کے ساتھ گفتگو پر مبنی پروگرام اختتام پذیر ہوا اور پروگرام کے آرگنائزرز عام طلباء کے ساتھ مل کر مہمانوں کو رخصت کررہے تھے کہ اچانک آل پاکستان متحدہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن(اے پی ایم ایس او) نے حملہ کردیا۔ خوش قسمتی سے جس وقت حملہ ہوا‘ مہمانوں کو رخصت کردیا گیا تھا اور ہال میں صرف عام طلباء اور پروگرام آرگنائزرز بشمول اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان موجود تھے۔ اے پی ایم ایس او کے حملے میں متعدد طلباء زخمی ہوئے۔ اس حملے کی وجہ سے ایک نقصان یہ ہوا کہ میڈیا جو پروفیسر غفور صاحب‘ پروفیسر این ڈی خان اور جاوید ہاشمی صاحب کی گفتگو کے حصے نشر کررہا تھا‘ اچانک ہی جامعہ کراچی میں تصادم کی خبریں بریکنگ نیوز کی صورت چلانے لگا۔ طلباء یونین کے حوالے سے ان سیاسی شخصیات کی گفتگو ٹی وی سکرینوں سے غائب ہوگئی ۔ اس سے ایک جانب تو تصادم کی خبروں نے طلباء یونین کے حوالے سے جنم لینے والی بحث کو ہی ختم کردیا‘ دوسری جانب طلباء یونین کی مخالفت کرنے والے عناصر کے موقف کو مزید تقویت ملی۔ اس وقت غور طلب مسئلہ یہ تھا کہ تعلیمی اداروں میں عمومی طور پر طلباء تنظیموں کے درمیان تصادم کی کوئی نہ کوئی وجہ موجود ہوتی ہے ۔ کسی نکتہ پر اختلاف ہوتا ہے ‘جس پر پہلے کشیدگی پیدا ہوتی ہے ‘جو کئی کئی دن جاری رہتی ہے اور پھر کسی بھی وقت تصادم میں بدل جاتی ہے۔

درج بالا واقعہ میں جامعہ کراچی میں موجود طلباء تنظیموں کے درمیان اور خاص طور پر اسلامی جمعیت طلبہ اور اے پی ایم ایس او کے درمیان کسی معاملہ پر کوئی کشیدگی نہیں تھی۔ خیر‘ جامعہ کراچی میں حالات معمول پر آنے کے بعد جب اے پی ایم ایس او کے ہی ایک ذمہ دار سے ہماری بات ہوئی تو انہوں نے بھی اعتراف کیا کہ کوئی کشیدگی نہیں تھی ۔ وہ نہ تو اس اچانک حملے کی وجہ بتاسکے اور نہ ہی اسلامی جمعیت طلبہ کا پروگرام خراب کرنے کا کوئی جواز دے سکے۔یہ تو ایک واقعہ تھا ‘مگر جب تک جامعہ کراچی سے تعلق رہا تو متعدد مواقع ایسے آئے کہ جہاںطلباء تنظیموں میں اچانک تصادم ہوا‘ پھر دوران صحافت مختلف جامعات میں ایسے واقعات کا چشم دید گواہ رہا ہوں‘ جہاں بغیر کسی وجہ کے اچانک ہی کوئی تنظیم کسی دوسری طلباء تنظیم پر حملہ کردے ۔ جب ان واقعات پر غور کیا تو ایک نکتہ ہماری سمجھ میں یہ آیا کہ جب بھی طلباء کو ان کے حقوق کے حوالے سے شعور دینے‘ ملکی مفاد کے لیے مثبت کام کرنے یا ملک کی باگ ڈور اہل افراد کے حوالے کرنے کے حوالے سے بات کی جائے گی‘ تو ایسے عناصر سرگرم ہوجائیں گے‘ جن کے مفادات کو طلباء میں شعورکی بیداری سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ عناصر بیرونی نہیں ہوتے‘ بلکہ جامعات کے اندر ہی طلباء‘ اساتذہ اور دیگر سٹاف کی شکل میں مصروف عمل ہوتے ہیں؛ البتہ ان کی ڈوریں بڑے دروازوں سے ہی ہلائی جارہی ہوتی ہیں۔ایسا بھی دیکھنے میں آتا رہا ہے کہ جامعات کے وائس چانسلرز اپنی ”مدت ملازمت میں توسیع‘‘ کے لیے بھی طلباء تنظیموں میں تصادم کو بطورِ حربہ استعمال کرتے رہے ہیں ‘بلکہ کوچھ ”چھٹے ہوئے طلباء‘‘ کو مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے داخلہ دیا جاتا ہے اور ان کے اخراجات یا تو عام طلباء کا حق مار کر سکالرشپس سے پورا کیا جاتا ہے یا جامعات کے ”خفیہ فنڈ‘‘ سے ان کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔

اب ‘ذرا موجودہ صورتحال کا اندازہ کریں ‘ گزشتہ چند ماہ کے دوران طلباء یونین کی بحالی کے نعرے نے زور پکڑا ‘ دائیں اور بائیں بازو کے طلباء یونین کی بحالی کے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق نظر آئے۔ طلباء پھر ایک قوت بننے کی جانب گامزن ہیں۔ طلباء کا دبائو اس قدر بڑھا کہ سندھ حکومت نے طلباء یونین کی بحالی کا اعلان کردیا‘ جبکہ قومی اسمبلی میں اس حوالے سے بل پیش کردیا گیا۔35سال بعد طلباء یونین کی بحالی کی جانب مثبت پیش رفت ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور اس کامیابی سے صرف موروثی سیاست کی پیداوار سخت خائف ہے۔ طلباء یونین کی بحالی‘ چونکہ موروثی سیاست کی موت ہے اور اس پلیٹ فارم سے ملک کی باگ ڈور باشعور قیادت کے ہاتھ میں آجاتی ہے‘ اس لیے وہ عناصر سرگرم ہوگئے‘ جن کے مفادات کو اس بحالی سے نقصان پہنچتا ہے۔طلباء یونین کی بحالی کے اعلان کے ساتھ چند روز کے دوران ہی اسلامک یونیورسٹی میں بھی ”اچانک حملہ‘‘ کا ایک ایسا واقعہ پیش آیا‘ جو ایسے موقعوں پر پیش آتا ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا ”تین روزہ تعلیمی ایکسپو‘‘ جاری تھا۔ پروگرام میں سیاسی شخصیات‘ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین‘ ادبی شخصیات بطورِ مہمان پروگرام میں شامل تھیں۔ طلباء تنظیموں اور طلباء یونین کے خلاف پروپیگنڈا ایسے پروگرامات کے ذریعے اپنی موت آپ مررہا تھا۔ میڈیا پر اس تعلیمی ایکسپو کی کوریج دو روز سے جاری تھی ۔ تعلیمی ایکسپو کے تیسرے روز جب میڈیا پروگرام کی کوریج کررہا تھا اور اسلامک یونیورسٹی میں کسی طرح کی کوئی کشیدگی نہیں تھی۔ اچانک ہی ایک لسانی گروہوں کے شرپسند عناصر نے پروگرام پر حملہ اور اندھا دھند فائرنگ شروع کردی ایک طالبعلم سید طفیل موقع پر ہی جاں بحق‘ جبکہ 31طلبہ شدید زخمی ہوگئے۔یہاں ایک بار پھر وہی ہوا ‘جو ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ طلباء کی قوت کو منتشر کرنے کے لیے طلباء تصادم کی شکل دینے کی کوشش کی گئی۔ اب‘ اگر اس واقعہ پر غور کیا جائے تو کئی باتیں پریشان کن ہیں۔ مخصوص مسلح شرپسند عناصر جامعہ میں داخلے کے لیے اس دروازے کا استعمال کرتے ہیں۔ (ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے) جو صرف طالبات اور خواتین کے لیے مخصوص ہے اور وہاں سے مرد پروفیسر حضرات کو بھی گزرنے کی اجازت نہیں ہے۔ مبینہ طور پریہ مسلح افراد ایک گھنٹے تک اسلامک یونیورسٹی میں گھومتے رہے۔ اسلامک یونیورسٹی کی سخت ترین سکیورٹی میں ایسا ہونا ماورائے عقل ہے۔ تعلیمی ایکسپو پر فائرنگ ہوئی‘ حملہ ہوا‘ مگر سکیورٹی ٹیم حرکت میں نہیں آئی یا انہیں حرکت میں آنے نہیں دیا گیا۔ اس حملے میں جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ فائرنگ میں بال بال بچ گئے۔اس حملے کے بعد پولیس نے ویڈیو فوٹیجز اور انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹس کی بنیاد پر گرفتاریاں کی تو انکشاف ہوا کہ مسلح جتھے میں تین افراد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات کا سامنے کررہے ہیں اور ضمانت پر ہیں۔ان پر چند ماہ قبل پی ٹی ایم کے سربراہ کو یونیورسٹی بلانے اور ریاست مخالف ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرنے کے الزامات ہیں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان عناصر پر مقدمات ہونے کے باوجود انہیں جامعہ میں داخلہ کس بنیاد پر دیا گیا‘ جبکہ داخلے سے قبل مقدمات میں نامزد نہ ہونے کے حوالے سے حلف نامہ لیا جاتا ہے۔

دوسری جانب اسلامک یونیورسٹی کے موجودہ ریکٹر معصوم زئی صاحب پہلے قائد اعظم یونیورسٹی سنبھال رہے تھے ۔قائد اعظم یونیورسٹی میں طلباء تنظیموں کی بجائے طلباء کونسلز موجود ہیں۔ مبینہ طور پر معصوم زئی صاحب کے دور میں جامعہ میں یہ کونسلز اختلافات اور تقسیم در تقسیم کا شکار ہوئیں ‘جس کے باعث ایک جانب تو ان کونسلز کی تعداد میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب کونسلز کے درمیان تصادم اور جامعہ کا کئی کئی روز تک بند رہنا معمول بن گیا۔ اب‘ معصوم زئی صاحب کے بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی کے ریکٹر بننے کے بعد اسلامک یونیورسٹی میں پہلی بار ایسی صورتحال پیدا ہوئی کہ جامعہ میں آتشیں اسلحہ استعمال کیا گیا‘ جس سے ایک طالبعلم جاں بحق ہوا۔اس واقعہ کے فوری بعد پشتون ملی عوامی پارٹی کی اہم شخصیات نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال لیے اور قاتلوں کو بچانے کے لیے سرگرم ہوگئے۔ اس دوران انکشاف ہوا کہ دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث تین حملہ آوروں کا نا صرف اس پارٹی سے تعلق ہے ‘بلکہ ایک حملہ آور مبینہ طور پر محمود خان اچکزئی صاحب کا قریبی رشتہ دار ہے۔

تین دن تک بند رہنے کے بعد یونیورسٹی میں نصابی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں ‘مگر خوف کی فضا بدستور قائم ہیں۔ اب‘ یہ حکومت کا امتحان ہے کہ سانحہ اسلامک یونیورسٹی کی تحقیقات کرکے ملزمان اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچائے ‘تاکہ آئندہ ایسا واقعہ پیش نہ آئے اور اسلامک یونیورسٹی ‘قائد اعظم یونیورسٹی کی طرح عصبیت‘لسانیت اور تعصب کا شکار نہ ہوجائے‘ اگرسانحہ ساہیوال اور رائو انوار کی طرح جامعہ کے طالبعلم کے قاتل بھی رہا ہوگئے تو طلباء کا بھی قانون و انصاف سے اعتماد ختم ہوجائے گا۔ ہاں ‘ اسلامک یونیورسٹی کے ریکٹر کے حوالے سے بھی طلباء میں پائے جانے والے خدشات کو بھی حکومت کو مدنظر رکھنا ہوگا‘ تاکہ تعلیمی اداروں کا ماحول پرامن رہ سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے