اسلام آباد میں بنی گالا کی ایک پہاڑی پر واقع وزیراعظم عمران خان کی رہائش گاہ کے کشادہ لان میں کناتیں لگا کر ایک عارضی ٹی وی اسٹوڈیو قائم کیا گیا تھا۔ یہاں سے شوکت خانم میموریل ہاسپٹل کیلئے عطیات اکٹھے کرنے کی خاطر ایک لائیو ٹرانسمیشن کا اہتمام اے آر وائی ڈیجیٹل نے کیا تھا۔ مجھے اس ٹرانسمیشن میں شرکت کی دعوت شوکت خانم ہاسپٹل کی طرف سے خواجہ نذیر احمد نے دی تھی۔
دسمبر کی کڑکڑاتی سردی میں رات نو بجے کے قریب اس فنڈ ریزنگ ٹرانسمیشن میں شرکت کیلئے بنی گالا پہنچا تو وہاں جاوید میانداد، علی ظفر، شعیب اختر، جہانگیر خان، اداکارہ ریما اور کچھ دیگر اہم شخصیات پہلے سے موجود تھیں۔ ریما نے پوچھا کہ آپ تو ہر حکومت پر سخت تنقید کرتے ہیں، آج وزیراعظم کے گھر کیسے آ گئے؟
اِس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا شوکت خانم ہاسپٹل کے سی ای او ڈاکٹر فیصل سلطان نے اُنہیں میرے بارے میں بتایا کہ جب عمران خان وزیراعظم نہیں تھے یہ تب سے ہمارے ساتھ فنڈ ریزنگ کر رہے ہیں اور آج ہم نے اِنہیں سیاست پر گفتگو کے لئے نہیں بلکہ ایک نیک کام میں حصہ لینے کے لئے بلایا ہے۔
اِس دوران ٹرانسمیشن شروع ہو گئی تو میزبان فخر عالم نے بھی پہلا سوال یہی پوچھا کہ آپ شوکت خانم ہاسپٹل اور عمران خان کی سیاست کو الگ الگ سمجھتے ہیں یا نہیں؟ میں نے انہیں بتایا کہ آج عمران خان کی مخالفت کرنے والے بہت سے سیاستدان ماضی میں شوکت خانم ہاسپٹل کی مدد کر چکے ہیں کیونکہ یہ ہاسپٹل اور سیاست الگ الگ ہیں۔
پھر میں نے اُنہیں شوکت خانم ہاسپٹل کے بارے میں حبیب جالب کی ایک نظم سنائی۔ غیر متوقع طور پر یہ نظم وہاں موجود سب مہمانوں کیلئے ایک سرپرائز تھی حالانکہ یہ نظم حبیب جالب کی سوانح ’’جالب بیتی‘‘ میں بھی شامل ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ عمران خان کے والد اکرام اللہ خان نیازی کے ساتھ جالب صاحب کی بڑی دوستی تھی۔
جب عمران خان نے اپنی والدہ کے نام پر کینسر ہاسپٹل بنانے کا آغاز کیا تو جالب صاحب نے ایک نظم لکھ کر مجھے دی جو میں نے روزنامہ جنگ میں شائع کرائی۔ اسی زمانے میں نثار عثمانی صاحب نے ہماری ڈیوٹی لگائی کہ حبیب جالب کی آپ بیتی مرتب کی جائے اور اس مقصد کیلئے انہوں نے لاہور میں اپنے گھر کا ایک کمرہ مخصوص کر دیا۔ میں نے اور مظفر محمد علی نے جالب صاحب کو راضی کر لیا اور عثمانی صاحب کے گھر میں طاہر اصغر نے ’’جالب بیتی‘‘ کو ایک کتاب کی شکل دی۔
یہ کتاب 1993میں شائع ہوئی اور جالب صاحب نے بطورِ خاص اس میں شوکت خانم ہاسپٹل کے بارے میں اپنی نظم شامل کرائی۔ اسی سال جالب صاحب کا انتقال ہو گیا۔
29دسمبر 1994کو شوکت خانم ہاسپٹل کا افتتاح ہوا تو جالب صاحب دنیا میں موجود نہ تھے لیکن ان کی نیک خواہشات ان کی نظم کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔
شوکت خانم ہاسپٹل کے 25سال پورے ہونے پر 29دسمبر 2019کو میں نے یہ نظم لائیو ٹرانسمیشن میں سنائی تو وزیراعظم عمران خان نے مجھے کہا کہ وہ اس نظم سے بےخبر تھے۔
شوکت خانم ہاسپٹل کیلئے اس ٹرانسمیشن میں عمران خان بتا رہے تھے کہ اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانےکیلئے 25سال قبل انہیں 70کروڑ روپے کی ضرورت تھی جو بہت مشکل کام تھا۔ پہلا ایک کروڑ بڑی مشکل سے اکٹھا ہوا لیکن بعد میں پاکستانی قوم نے اُن پر اعتماد کیا اور وہ ہاسپٹل بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کامیابی کے چند سال کے بعد انہیں ایک بہت بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ ناکامی 1997کے انتخابات تھے جس میں عمران خان ایک نشست بھی حاصل نہ کرپائے اور ہاسپٹل کے لئے عطیات میں بھی کمی واقع ہو گئی۔ عمران خان نے کہا کہ انہوں نے ہمت نہ ہاری۔
سیاست اور ہاسپٹل کو علیحدہ رکھا اور آخر کار پہلے خیبرپختونخوا اور پھر مرکز میں حکومت بنالی۔ لاہور کے بعد وہ پشاور میں بھی کینسر ہاسپٹل بنا چکے ہیں اور اب کراچی اور پھر کوئٹہ میں کینسر ہاسپٹل بنانے کیلئے پُرعزم ہیں۔
اسی گفتگو میں عمران خان نے کہا کہ آج کل حبیب جالب ہندوستان میں بڑے پاپولر ہیں۔ ہندوستان میں نریندر مودی کے خلاف جلوسوں میں جالب صاحب کی ایک نظم کے یہ اشعار بڑے مقبول ہیں۔
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
یہ اشعار اُن کی مشہور نظم ’’دستور‘‘ کا حصہ ہیں۔ اس نظم کے ذریعہ حبیب جالب نے ایوب خان کی طرف سے 1962میں نافذ کیا جانے والا دستور مسترد کیا تھا۔
عمران خان اکثر اپنی تقریروں میں ایوب خان کے دور کو بڑا مثالی قرار دیتے ہیں کیونکہ ایوب خان کا پوتا عمر ایوب ان کی حکومت کا وزیر توانائی بھی ہے۔
جب جالب نے ایوب خان کے دستور کو صبح بےنور قرار دیکر کہا کہ میں نہیں مانتا تو ان پر اقدامِ قتل اور شراب نوشی کے جھوٹے مقدمات درج کئے گئے تاکہ وہ محترمہ فاطمہ جناح کے جلسوں میں جاکر یہ نظم نہ سنا سکیں۔
پولیس نے ناصرف ان سے ایک چاقو برآمد کیا بلکہ ایک زخمی بھی پیدا کر لیا اور اس کی خون آلود قمیص کے ساتھ ساتھ دو بوتلیں شراب بھی برآمدگی میں ڈال دیں۔
یہ مقدمہ قائم ہوا تو ایوب خان کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ ان کے سیکرٹری اطلاعات نے گورنر نواب کالا باغ سے کہا کہ جالب تو آدھی بوتل نہیں خرید سکتا، آپ نے اس پر دو بوتلیں ڈال دیں پھر بھی جالب کی ضمانت نہ ہوئی۔ مقدمہ ہائیکورٹ میں پہنچا تو جالب کے وکیل میاں محمود علی قصوری نے عدالت میں کہا کہ جالب کسی کو آنکھ نہیں مار سکتا،وہ چاقو کیا مارے گا اور یوں جالب کی ضمانت ہوگئی۔
آج کل عمران خان کی حکومت کے سیاسی مخالفین پر بھی کچھ اسی قسم کے مقدمات بن رہے ہیں جن پر حکومت کو لینے کے بجائے دینے پڑے ہوئے ہیں۔ بہرحال عمران خان کی سیاست اور شوکت خانم ہاسپٹل دو مختلف چیزیں ہیں لہٰذا حبیب جالب کی وہ نظم پیش ہے جو اس نیک کام کے بارے میں ان کی نیک خواہش تھی۔
اس نیک کام میں آپ بھی اپنا بھرپور حصہ ڈالیے۔ جالب نے کہا تھا؎
یہ کارِ نیک ہے عمران، ہسپتال بنا
نہ حاسدوں کا بُرا مان، ہسپتال بنا
معاملات نہ رکھ صرف اہلِ ایماں سے
تو کافروں سے بھی لے دان، ہسپتال بنا
مثال مہرِ درخشاں ہے گنگا رام
نہ ہندو بن نہ مسلمان، ہسپتال بنا
تو والدہ کی دعائوں سے، سعیٔ پیہم سے
بنا ہے دیس کی پہچان، ہسپتال بنا
ترے خیال کی پاکیزگی پر اہلِ جہاں
ہزار جاں سے ہیں قربان، ہسپتال بنا