جگر کو جسم سے باہر 7 دن تک محفوظ رکھنے والی مشین ایجاد

زیورخ: سوئٹزرلینڈ کے ماہرین نے ایک ایسی مشین تیار کرلی ہے جو نہ صرف زخمی انسانی جگر کی مرمت کرسکتی ہے بلکہ اسے جسم سے باہر ایک ہفتے تک زندہ حالت میں محفوظ بھی رکھ سکتی ہے۔ اس طرح یہ مشین جگر کے علاج اور پیوند کاری کے میدان میں ایک نیا انقلاب برپا کرسکتی ہے۔

واضح رہے کہ جگر ہمارے جسم کا انتہائی اہم عضو ہے جسے ’’انسانی جسم کا ویئر ہاؤس‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ بہت حساس عضو بھی ہے جو انسانی جسم سے نکالے جانے کے بعد صرف چند گھنٹوں تک ہی زندہ حالت میں محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک جگر کے عطیات اور پیوند کاری جیسے شعبہ جات میں پیش رفت بہت سست رفتاری کا شکار ہے۔

انسانی جگر کو جسم سے باہر ایک ہفتے تک زندہ اور محفوظ حالت میں رکھنے کا براہِ راست مطلب یہ ہوا کہ آنے والے برسوں میں نہ صرف جگر کے زیادہ عطیات جمع ہوسکیں گے بلکہ اس سے جگر کے امراض میں مبتلا لاکھوں مریضوں کو ہر سال فائدہ ہوگا۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال پیوند کاری یا ’’ٹرانسپلانٹ‘‘ کے مجموعی طور پر 100,800 آپریشن ہوتے ہیں جن میں سے 20200 آپریشن جگر کی پیوند کاری کے ہوتے ہیں۔ ان میں سے صرف 14.6 فیصد جگر اُن فوت شدہ افراد سے لیے جاتے ہیں جو مرنے کے بعد اپنے اعضاء عطیہ کرنے کی وصیت کرجاتے ہیں۔

عطیہ چاہے کیسا ہی کیوں نہ ہو، ڈاکٹروں کے پاس جگر کی منتقلی اور پیوند کاری کےلیے صرف چند گھنٹے کا وقت ہوتا ہے۔

یہ مشین زیورخ یونیورسٹی، سوئٹزرلینڈ کے ماہرین کی ایک وسیع ٹیم نے ایجاد کی ہے۔ بنیادی طور پر یہ مشین ایک ایسا پیچیدہ نظام ہے جو (جسم سے نکالے جانے کے بعد) جگر میں خون کی گردش تقریباً اسی طرح سے جاری رکھتا ہے جیسے حقیقی انسانی جسم میں ہو۔

نتیجتاً جگر کو انسانی جسم کے باہر ایک ہفتے تک زندہ رہنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس دوران جگر کے زخموں کی مرمت کی جاسکتی ہے، جگر میں جمع ہوجانے والی اضافی چربی صاف کی جاسکتی ہے، اور جگر کی جزوی طور افزائش بھی کی جاسکتی ہے۔

مشین کی آزمائش کےلیے ایسے 10 انسانی جگر حاصل کیے گئے جنہیں یورپ میں ہر پیوند کاری اسپتال نے یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ یہ بالکل خراب ہوچکے ہیں۔ مشین کے ذریعے ان 10 میں سے 6 جگر صرف ایک ہفتے کے اندر اندر مکمل طور پر صحت مند حالت میں بحال کردیئے گئے۔ تاہم انہیں انسانوں میں پیوند نہیں کیا گیا۔

اگلے مرحلے میں اس مشین سے صاف اور مرمت شدہ جگر انسانی جسم میں پیوند کرنے کے تجربات کیے جائیں گے۔ البتہ یہ ایک حساس مرحلہ ہوگا اس لیے سوئٹزرلینڈ اور یورپ کے طبّی تحقیقی ادارے ہر پہلو سے سابقہ تجربات کا جائزہ لینے کے بعد ہی محدود پیمانے پر انسانی تجربات کی اجازت دیں گے۔

اس ایجاد کی تفصیلات ’’نیچر بایوٹیکنالوجی‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں اور استفادہ عام کےلیے مفت دستیاب ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے