میکسیکو / بارسلونا: وزن بڑھنا اور موٹاپا آج عالمی مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ اب میکسیکو اور اسپین کے سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ وزن بڑھنے کی ایک وجہ چھٹی کے روز دیر سے ناشتہ کرنا بھی ہے۔
یہ مطالعہ، جس کے نتائج ریسرچ جرنل ’’نیوٹریئنٹس‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں شائع ہوئے ہیں، اسپین اور میکسیکو میں یونیورسٹی کے 1106 طالب علموں پر کیا گیا جس میں ان کے ناشتے، دوپہر کے کھانے اور رات کے کھانے کے وقت کا جائزہ لیا گیا۔
اس پہلو پر خاص نظر رکھی گئی کہ وہ طالب علم کام کے دنوں میں اور ہفتہ وار چھٹی (ہفتہ اور اتوار) کے روز کتنے بجے ناشتہ، ظہرانہ اور عشائیہ کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، مطالعے میں یہ بھی جانچا گیا کہ وہ کتنے بجے سوتے ہیں، کتنے بجے جاگتے ہیں، کیا کھاتے ہیں، کتنی دیر تک کھاتے ہیں، عموماً کتنا پیدل چلتے ہیں، اور ورزش کرتے بھی ہیں یا نہیں۔ مطالعے میں شریک تمام طلبہ کا وزن بھی احتیاط سے نوٹ کیا گیا۔
سروے فارمز کے ذریعے عام دنوں میں اور ہفتہ وار چھٹیوں کے دوران طالب علموں کے غذائی معمولات اور اوقات کے بارے میں معلومات جمع کی گئیں۔
ان تمام معلومات کا تجزیہ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ طالب علم جو چھٹی والے روز، عام دنوں کی نسبت زیادہ دیر سے ناشتہ کرتے ہیں ان کا وزن جلدی ناشتہ کرنے والے طالب علموں کے مقابلے میں واضح طور پر زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ جو طالب علم چھٹی والے دن (دوسرے دنوں کی نسبت) تین گھنٹے تاخیر سے ناشتہ کرتے تھے، یعنی ’’بریک فاسٹ اور لنچ‘‘ کو ملا کر ’’برنچ‘‘ کرنے کے عادی تھے، ان کا باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) وقت پر ناشتہ کرنے والوں کے مقابلے میں 1.3 یونٹ زیادہ تھا۔
اسے ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کسی کا قد 5 فٹ 7 انچ ہو جبکہ وہ 70 کلوگرام وزنی ہو، اور وہ اپنا وزن تقریباً 3.75 کلوگرام (پونے چار کلوگرام) کم کرلے تو اس کا بی ایم آئی 1.3 یونٹ کم تصور کیا جائے گا۔
یہ بات واضح طور پر مشاہدے میں آئی کہ چھٹی والے دن ہر کھانا ہی معمول کے مقابلے میں کچھ دیر سے کھایا جاتا ہے لیکن صبح کا ناشتہ سب سے زیادہ تاخیر کا شکار ہوتا ہے۔
مطلب یہ کہ ہفتے میں صرف ایک سے دو دن ہونے والی یہ تاخیر اگر ’’ہفتہ وار عادت‘‘ بن جائے تو ہمارے وزن میں اضافے کی وجہ بن جاتی ہے، چاہے ہم کتنا ہی صحت بخش کھانا کھائیں، اور خوب پیدل چلنے والے یا باقاعدگی سے ورزش کرنے والے ہی کیوں نہ ہوں۔
اگرچہ بدلتی شفٹوں میں کام کرنے والے ملازمین کے مطالعے میں یہ بات پہلے ہی سامنے آچکی ہے کہ جن لوگوں کو بار بار کھانے کے اوقات میں تبدیلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ دوسروں کے مقابلے میں موٹے ہونے لگتے ہیں لیکن یہ پہلی بار ہے جب غذائی معمولات میں تھوڑے سے ردّ و بدل کے بھی نمایاں اثرات سامنے آئے ہیں۔