ہمارا تعلیمی نظام۔۔۔مسائل اور حل

(امید ہے یہ تحریر وزیر تعلیم اور بورڈ ڈائریکٹر تک پہنچے گی)

تعلیمی سسٹم میں موجود خرافات پر تفصیلا گفتگو کیے دیتا ہوں۔

[pullquote]1)Scheme of Study[/pullquote]

بورڈ کا پہلا پرابلم سکیم آف اسٹڈی کا اجراء ہے جہاں کچھ سلیکٹیو چیپٹرز بتا دیے جاتے ہیں کہ کس چیپٹر سے کتنے سوالات آنے ہیں کتنی weightage ہے اس چیپٹر کی ۔۔۔لانگ سوال آۓ گا یا نہیں ستم تو یہ کہ یہاں تک defineکر دیا جاتا ہے کہ کس چیپٹر کو کس چیپٹر سے ملائیں تو ایک مکمل تفصیلی سوال بنے گا۔یوں بچے to the point تیاری کرتے ہیں اور کتاب کا کافی حصہ چوائس پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔جس کی بدولت اتنے مارکس کا حصول ممکن ہو جاتا ہے۔

[pullquote]2)Paper Pattern[/pullquote]

پیپر پیٹرن کچھ اس طرح کا ہے کہ قریبا 70 تا 80 فیصد weightage معروضی طرز سوالات اور شارٹ سوالات کی ہے جن میں 100 فیصد نمبر باآسانی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔اس پیٹرن کو اگر تبدیل نہیں بھی کیا جاتا تو پھر سوالات کا معیار بدل دیا جاۓ اور conceptual سوالات دیے جائیں بجاۓ definitions یا cramming کی طرز پر سوالات دینے کے ۔

نمیریکل ٹائپ سوالات۔۔جنرل آئیڈیاز جن سے بچے کی personal thinking اور creativity کا اندازہ ہو۔۔۔جو concepts بچہ learn کرنا ہے ان کا پریکٹیکل لائف میں استعمال وغیرہ ایسے سوالات ہی بچے کو excelence تک لے جائیں گے اور بچے کو judge کرنا آسان ہو جاۓ گا کہ اس کا interest کہاں ہے۔

[pullquote]3)Repetition of Questions[/pullquote]

میری اپنی تحقیق کے مطابق پنجاب کے 9 بورڈز کے ایک مضمون کے on average کل 300 تا 400 سوال بنتے ہیں جو بار بار repeat ہوتے ہیں اور 90 فیصد تک ہر پیپر کا حصہ ہوتے ہیں یعنی بچہ ایک مضمون کا روز کا ایک یا 2 سوال تیار کرے اور 97فیصد مارکس لے۔۔اس چیز کو سرے سے ختم کرنا ہو گا اور craming کی بجاۓ Slos اور conceptual اسٹڈی کو اپنانا ہو گا۔

اس سلسلہ میں میرے پاس مکمل پلان موجود ہے اسی نصاب سے ایسے سوالات تیار کیے جا سکتے ہیں کہ بچہ 90 فیصد تک بمشکل پہنچ پاۓ گا اور نتیجتا learning level بھی up ہو گا۔

[pullquote]4)Curriculum update[/pullquote]

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارا نصاب updated نہیں اور دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں آ نہیں سکتا نصاب annualy base پر اپڈیٹ کیا جاۓ جس سے اوپر mention تمام مسائل 80 فیصد درست ہو جائیں گے۔

[pullquote]5)Passing Marks[/pullquote]

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاسنگ مارکس 33 سے بڑھا کر 40 فیصد یا 50 فیصد کر دیے جائیں جس سے بچہ mentaly زیادہ کوشش کرے گا learn کرنے کی

[pullquote]6)Practicals[/pullquote]

ہمارے امتحانی نظام کا سب سے گھٹیا نظام پریکٹیکل پیپرز کا ہے کوئی proper نظام موجودنہیں ہے۔پچھلے 2 سالوں میں صرف لاہور بورڈ کے 10 ہزار ایسے طلباء کی نشاندہی کر سکتا ہوں جو مضمون تھیوری میں فیل مگر پریکٹیکل میں 90 تا 100 فیصد مارکس حاصل کیے ہوۓ ہیں۔
مکمل سفارش سسٹم ،کرپشن انتہا پر ۔۔۔ہزاروں طلباء کے ساتھ زیادتی اور سفارشی لوگ نمبر لے جاتے ہیں دکھ تو اس بات کا ہے کہ بورڈ ڈائریکٹر اس حقیقت سے واقف ہے مگر اس سلسلہ میں کوئی نئی پالیسی سامنے نہیں آئی۔ اس کا solution بہت آسان ہے

[pullquote]2 طریقے اپناۓ جا سکتے ہیں[/pullquote]

پہلا یہ کہ پریکٹیکل سوالات امتحانی پرچہ کا حصہ ہوں اور گریڈنگ(انٹرنل)ہو یعنی سکول خود کرے۔
دوسرا انٹرنل گریڈنگ سکول کرے اور بچے کے مضمون میں مارکس کی بنیاد پر پریکٹیکل میں نمبر لگاۓ جائیں۔

[pullquote]6)Govt.Schools performance[/pullquote]

گورنمنٹ سکولز اور پرائیویٹ سکولز میں ایک بڑا gap پلاننگ اور ٹیسٹ سسٹم کا ہے۔پرائیویٹ اداروں میں ماہانہ اور روزانہ کی بنیاد پر ٹیسٹ کا نظام موجود ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ گورنمنٹ سکولز کے infrastructure کے ساتھ ساتھ اس پلان کو بھی شامل کیا جاۓ۔گورنمنٹ اساتذہ کسی سے کم نہیں۔وہ بچوں کےلیےکچھ کرنا چاہتے ہیں مگر ان کی بد قسمتی کہ انہیں سازگار ماحول ہی نہیں دیا جاتا، کوالٹی اور conceptual لرننگ سے یہ معیار بلند ہوسکتا ہے اور گورنمنٹ سکولز کے طلباء کا احساس محرومی ختم ہو سکتا ہے۔

مجھے امید ہے اگر چند اصلاحات کر لی جائیں تو پورا سسٹم تبدیل ہو سکتا ہے۔بس بارش کا پہلا قطرہ بن کر قربانی دینے کی ضرورت ہے۔اگر conceptual environment میں ہمارا بچہ اچھے نمبر لے گا تو ہمیں دلی خوشی ہو گی۔
ہو میرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے