جنگلی حیات کا خاتمہ اور دنیا میں پھیلتی وبائیں

یہ تصویرضلع مردان میں کرونا وائرس کی وجہ سے پہلی ہلاکت سے ٹھیک 29 دن پہلے لی گئی ہے۔ ویلج کونسل چاربانڈہ میں فروری کے مہینے میں جب کھیت میں پڑے کٹی دُم کے اس مردہ گیدڑ کو دیکھا تو بہت سے سوال زہن میں گردش کرنے لگے۔ میں نے اس پہلے اپنے کھیتوں میں گیدڑ کو تیز بھاگتے ہوئے تو دیکھا ہے لیکن اس حالت میں پہلی بار دیکھا۔

میں اس کے قاتل تک تو نہیں پہنچ سکا البتہ بہت کوشیشوں کے بعد مردان کے یونین کونسل فاطمہ میں ایک شکاری سے رابطہ ہوا جس نے 2 سال پہلے شکار کو خیرباد کہا ہے۔ 30 سالہ طارق نے خرگوش اور گیدڑوں کی شکار کیلئے کتے پالے ہوئے تھے، اور وہ ہر سال 3 سے 4 گیدڑوں کا شکار اپنا درینہ شوق پورا کرنے کیلئے کرتا تھا۔ طارق نے بتایا کہ گیدڑ کی دُم کوئی بھی شکاری بیچنے کیلئے نہیں کاٹتا البتہ یہ ایک یاد گار کے طور پر ہر شکاری کے پاس ہوتا ہے۔ جو وہ اکثر اپنے دوستوں کو تحفے میں دیتا ہے۔ طارق کے مطابق مردان کے مختلف علاقوں سے ہر سال شکاری گروپوں کی شکل میں اپنے شکاری کتوں کے کیساتھ جنوبی پنجاب خرگوش کا شکار کرنے کیلئے جاتےہیں، اورجب خرگوش کا شکار نہیں ہوتا تب دسمبر سے مارچ تک گیدڑوں کا شکار کرتے ہیں۔ طارق نے انکشاف کیا کہ اسکے جاننے والے شکاری ہر سال تقریبا 20 گیدڑوں کا شکار کرتے ہیں۔

جنگلی حیات اور بائیو ڈاورسٹی کو تحفظ دینے کے حوالے سے خیبر پختونخوا وایلڈ لایف اینڈ بائیو ڈاورسٹی پروٹیکشن، پریزرویشن اینڈ مینجمنٹ ایکٹ 2015 موجود ہے جسکے تحت جنگلی حیات کا شکار جرم قرار دیا گیا ہے۔ مردان ڈویژنل وائلڈ لائف دفتر سے جب اس حوالے سے رابطہ ہوا تو سب ڈویژنل والڈ لائف آفسر(ایس ڈی ایف او) عثمان کمال نے بتایا کہ مردان ڈویژن کے اُن علاقوں میں گیدڑ موجود ہے جہاں آبادی نسبتا کم ہے۔ اُنہوں نے مزید بتایا کہ محکمے کے پاس گیدڑوں کے حوالے سے کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے البتہ انکا شمار انڈینجر سپیشی یعنی معدوم ہونے والے جنگلی حیات میں ہوتا ہے۔ ایس ڈی ایف او نے بتا یا کہ ابھی تک گیدڑکے شکارپر کسی کو گرفتار یا جرمانہ نہیں کیا گیا۔

گیدڑ کے حوالے سے پاکستان میں اگر ایک بات مشہور ہے تووہ ٹیپو سلطان کا قول ہے۔ ” گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے” یعنی گیدڑ بزدل ہوتا ہے۔ لیکن اگر گیدڑ بزدل ہے تو پھراسکا شکار کیوں کیا جاتا ہے؟ اس سوال کا جواب نہ تو شکاری طارق کے پاس تھا اور نہ محکمہ وایلڈ لائف کے اہلکار کے پاس، البتہ جنگلی حیات کے بے دردی سے خاتمے اور اسکے انسانی صحت پر گہرے اثرات کی حقیقت اسوقت پوری دنیا خونی کرونا وبا کی شکل میں دیکھ رہی ہے۔

انسانوں میں حیوانات سے منتقل ہونے والی مختلف بیماریوں کے سائنسی شواہد موجود ہے۔ بیشترسائنس سٹڈیز میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ گزرے چند عشروں سے بائیوڈاورسٹی بحران کا شکار ہے جسکی وجہ سے انسانوں کے صحت کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کی ماحول کیلئے مختص یو این اینوارمنٹ پروگرام نے حال ہی میں معلومات شائع کیے جسکے تحت انسانوں میں 60 فیصد اینفیکشن بیماریاں حیوانات سے منتقل ہوئی ہے۔ ادارے کے مطابق حیوانوں سے انسانوں میں منتقل ہونے والی جتنی بھی ذونوٹک بیماریاں موجود ہیں یا دوبارہ نمودار ہو رہی ہے ان میں نیپا وائرس، ایبولہ، برڈ فلو،میڈل ایسٹ ریسپریٹری سینڈروم (ایم ایی ار ایس)، سڈن ایکویٹ ریسپریٹری سینڈروم (ایس اے ار ایس)، اویان، انفلویزا، زیکا اور کرونا وائرس شامل ہیں۔

یاد رہے کہ کویڈ 19 چمگادڑ سے پنگولین اور پھر انسانوں کو منتقل ہوا یا نہیں اس حوالے سے اب بھی تحقیق جاری ہے اور ختمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ ساینسدان اس بات پر متفق ہیں کہ کرونا وائرس چمگادڑ میں پایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق دنیا میں جتنی بھی زونوٹک بیماریاں موجود ہے اسکی بنیادی وجہ حیاتیاتی تنوع کا ضیاع ہے جوانسانی سرگرمیوں کی بدولت ہے۔ دنیا میں بیشتر سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ جنگلات کی کٹائی، جدید مشینری سے زرعی صنعت کا فروغ، جنگلی حیات کاغیر قانونی شکار اور تجارت، ماحولیاتی تنزل اور آب ہوا میں تبدیلی مستقبل میں وبائی امراض میں اضافہ کر سکتا ہے۔

ذونوٹک بیماریوں کے حوالے سے فرانس کی مانٹ پیلیئر یونیورسٹی میں انفیکشن ڈیزیز پر رسیرچ کرنے والے پروفیسر راجر فروٹس نے ایک امریکی خبر رسا ادارے (سی این بی سی) کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ ہم جب درختوں کو کاٹتے ہیں تو بینادی طور پر ہم بہت سے سپیشیز کے مسکن کو ختم کرتے ہیں۔ ہمیں یہ خیال نہیں ہوتا کہ ہم انواع کے پیٹرن کو متاثر کرتے ہیں جو سالوں سے وہاں مقیم تھے۔ حیوانوں اورحشرات کے مسکن ختم ہونے کے بعد وہ ختم نہیں ہوتے بلکہ ہمارے ساتھ رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان میں موجود وائرس انسانوں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔

پروفیسر نے چمگادڑ سے کورونا وائرس کی منتقلی کے بارے بتایا کہ اس نوع سے انسانوں میں وائرس کی منتقلی مشکل سے ہوتی ہے کیونکہ چمگادڑ زیادہ تر ویران جگہوں اور جنگلات میں پائے جاتے۔ لیکن انسانی سرگرمیوں نے اسے اسان بنا دیا ہے۔ پروفیسر نے مزید بتایا کہ بعض ریسرچ سے ثابت ہوچکا ہے کہ چمگادڑ میں تقریبا 3000 کرونا وائرس کی اقسام موجود ہو سکتی ہیں۔ اور اگر اسی طرح اس نوع کے مسکن کو ختم کیا جاتا رہا تو یہ ممکن ہے کہ آئیندہ بھی چمگادڑ سے وائرس انسانوں میں منتقل ہوسکتا ہے جو اسی طرح وبا کی شکل اختیار کریگا۔

آزاد بین لحکومتی ادارے انٹرگورمنٹل سائنس پالیسی پلیٹ فام آن بائیوڈاورسٹی اینڈ ایکو سیسٹم سروسز (آئی پی بی ایی ایس) کی پچھلے سال شائع ہونے والی رپورٹ میں تنبیح دی گئی تھی کہ انسانی صحت کوذونوٹک بیماریوں سے خطرہ ہے۔ اگربائیو ڈاورسٹی کو تحفظ نہیں دیا گیا تو یہ بیماریاں شدت اختیار کر جائینگی۔ (آئی پی بی ایی ایس) 2019 کی شائع رپورٹ کے مطابق دنیا میں 10 لاکھ سپیسز کے معدوم ہو نے کا خطرہ ہے جسکا اثر بھی انسانوں کے خوراک اور صحت پر پڑیگا۔

یاد رہے کہ بائیو ڈاورسٹی کو تحفظ دینے کیلئے عالمی معاہدہ کنونشن برائے بائیو لوجیکل ڈائیورسٹی (سی بی ڈٰی) موجود ہے۔ معاہدے کے تحت پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک نے بائیوڈاورسٹی کو تحفظ دینے کیلئے اہداف مقرر کئے ہیں۔ کنونشن برائے بائیو لوجیکل ڈائیورسٹی (سی بی ڈٰی) کے مطابق حیاتیاتی تنوع زندگی ہے۔

انسان کو زندہ رہنے کیلئے اکسیجن اورخوارک ضروری ہے لیکن یہ ایک عمل کے زریعہ انسان تک پہنچتا ہے۔ اکسیجن پودے،پانی، ہوا،روشنی، بارش، ندیاں، حیوانات اور چھوٹی سی نوع سے لیکر سمندر تک کرہ ارض پر موجود تمام شکلیں ایک مخصوص عمل سے گزرتی ہے۔ بائیوڈاورسٹی اس عمل کو برقرا رکھتی ہے، یعنی کرہ ارض پر موجود انگنت انواع کے درمیان ربط بائیوڈاورسٹی ہے۔ لیکن چند عشروں سے انسان بائیوڈاورسٹی کو تباہ کر رہا ہے جسکا براہ راست اثرانسانی صحت پر پڑ رہا ہے۔

اس کرہ ارض کا ماحولیاتی نظام صرف انسان کی وجہ سے قائم نہیں ہے بلکہ اس کو قائم رکھنے کیلئے حیاتیاتی تنوع کا تحفظ ایک لازمی جز ہے۔ اگرماحولیاتی نظام میں کوئی بھی نوع اپنی حد اورتعداد سے تجاوز کرتی ہے تو وہ اس نظام کیلئے خطرہ بن جاتی ہےخوا وہ ٹڈی دل ہو یا اشرفلمخلوقات۔

پاکستان نے سی بی ڈی کے تحت بائیوڈاورسٹی کو تحفظ دینے کے حوالے سے اہداف تو مقرر کیے ہیں لیکن حکومت کی سنجیدیگی کا یہ عالم ہے، کہ اب بھی جنگلی حیات کے شکار سے روینیو جنریٹ ہوتی ہے۔ اورکمزور پالیسیوں اورناقص اقدامات کی بدولت نچلی سطح پر ابھی تک بائیوڈاورسٹی کو تحفظ دینے کے حوالے سے لوگوں میں شعور اجاگر نہیں ہوا، اگر شعوراجاگر ہوتا تویقینا جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت نہ ہوتی، درختوں کی بے دریغ کٹائی نہ ہوتی، سانپوں کو نہیں مارا جاتا، پرندوں کا شکار نہیں ہوتا،روائتی جڑی بوٹیاں ختم نا ہوتی، اور نہ ہی ضلع مردان میں کوئی بزدل گیدڑ کسی شکاری کے شکاری کتوں کا نشانہ نہ بنتا۔

[pullquote]آصف مہمند فری لانس صحافی ہیں اور خیبر پختونخوا میں ماحول سے متعلق موضوعات پر لکھتے ہیں۔[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے