میری والدہ ماجدہ کا انتقال ہوگیا ہے ۔۔کرونا کے مریض متوجہ ہوں

سفر آخرت میں ان کی آسانی کے لئے دعا کی طلب ہے۔ ان کے ایصال ثواب کے لئے کچھ ایسا لکھنے کا ارادہ کیا ہے جس سے عوام الناس کو فائدہ پہنچے، لہذا موقع محل کے لحاظ سے کورونا سے متعلق صورت حال سے آگاہی فراہم کرنے کے لئے تحریر لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ممکن ہو تو اسے زیادہ سے زیادہ عام کیجئے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے مستفیذ ہوسکیں اور والدہ ماجدہ کے لئے زیادہ سے زیادہ ایصال ثواب کا بندوبست ہوسکے۔ یہ تمام تجاویز ذاتی تجربات و مشاہدات پر مبنی ہیں۔

• ملک میں کرونا کیسز میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے جس کے سبب سرکاری و نجی ہر قسم کے ہسپتالوں میں بے پناہ رش ہے۔ اگر خدانخواستہ کسی کو ہسپتال کی ضرورت پڑتی ہے تو اسے جان رکھنا چاہئے کہ اس وقت ہسپتال میں مریض کے لئے بیڈ کا حصول کسی آفت سے کم نہیں، ایجنٹوں کو پیسے کھلا کر یا کوئی واقفیت چلا کر ہی بات بن پاتی ہے۔ ہر وہ شے جس کا تعلق کرونا سے ہے، چاہے وہ کوئی دو اہو یا انجکشن، آکسیجن گیس اور اس کا سیلنڈر ہو یا جسم میں آکسیجن چیک کرنے کا آلہ (جسے Pulse oximeter کہتے ہیں)، ہر شے کی قیمت میں دو سے تین گنا تک اضافہ ہوچکا ہے۔

لوگ اس بلا کی گرمی میں اپنا مریض لے کر سرکاری ہسپتالوں کے باہر 6 سے 8 گھنٹے تک لمبی قطاروں میں انتظار کرتے ہیں کہ شاید ان کے مریض کو داخلہ مل جائے لیکن انہیں خبر نہیں کہ داخلہ انتظار نہیں بلکہ دیگر واسطوں سے میسر آرہا ہے۔ بہت سے لوگ اس انتظار میں جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ نجی ہسپتال والے کرونا مریض کے علاج کے لئے یومیہ پچاس ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک وصول رہے ہیں۔ الغرض کورونا نامی شے اس ملک کی میڈیکل انڈسٹری کے لئے ایک لاٹری بن چکی ہے اور صورت حال کو ریگولیٹ کرنے والا کوئی نہیں۔ پچھلے چھ ماہ میں ملک کے کسی صوبے میں کسی سرکار نے ہسپتالوں کی کیپیسٹی بڑھانے یا کرونا کیسز کو مینیج کرنے کے لئے نئے ہسپتال بنانے کی طرف توجہ نہیں دی جو کرنے کا اصل کام تھا، ممکن ہے پریس کانفرنسوں سے فرصت کے بعد اس کی طرف توجہ کا سوچیں۔ یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ احتیاط ہی میں بہتری ہے تاکہ آپ اس بیماری سے بچ رہیں۔

• اگلی بات یہ سمجھانا ہے کہ اگر کوئی شخص کورونا کی علامات (مثلا کھانسی، گلہ خراب، بخار وغیرہ) کا شکا رہو تو اپنے معالج سے رابطہ کرکے دوا لیجئے۔ اگر تین چار روز تک علامات برقرار رہیں تو سینے کا ایکسرے اور خون کی بنیادی رپورٹ کروائیں (جسے CBC کہتے ہیں، اس کے ساتھ ESR بھی شامل کرلیں)۔ یہ رپورٹس اپنے معالج کو دکھائیں اور مشورہ کیجئے کہ اگر جسم میں وائرس کے اثرات ہیں تو کورونا کا ٹیسٹ کرا دیکھئے اور ساتھ ہی ساتھ اس کی دوا بھی لیتے رہئے۔ رپورٹ آنے میں ایک سے دو دن لگ جاتے ہیں، اس دوران خود کو گھر میں ذرا تنہا رکھئے اور ماسک لگائیے۔

رپورٹ کروانا اس لئے اہم ہے کہ طبعیت زیادہ خراب ہونے پر جب آپ داخلے کے لئے ہسپتال جائیں گے تو وہ آپ سے کرونا کی رپورٹ طلب کریں گے۔ اگر آپ کے پاس رپورٹ نہ ہوئی تو نہ آپ کو عام وارڈ میں داخلہ ملے گا (کیونکہ آپ مشتبہ مریض ہیں جسے صحت مندوں کے ساتھ نہیں رکھا جاسکتا) اور نہ ہی کرونا کے وارڈ میں (کیونکہ آپ صرف مشتبہ مریض ہیں جسے یقینی کرونا مریضوں کے ساتھ رکھنے میں کرونا لگنے کا خطرہ ہے)۔ یوں آپ نہ ادھر کے رہیں گے اور نہ ادھر کے۔ اس موقع پر جب آپ ٹیسٹ کروانے جائیں گے تو ایک طرف آپ کے دو دن ضائع ہوجائیں گےاور دوسری طرف جو بیڈ ابھی میسر تھا دو دن بعد وہ قطعا میسر نہ رہے گا کیونکہ ایک بیڈ کے لئے متعدد مریض تیار ہوتے ہیں۔

• کرونا ٹیسٹ نہ کروانے کی ایک وجہ لوگوں کی یہ غلط فہمی ہے کہ اگر ٹیسٹ مثبت آگیا تو سرکار ہمارے گھر کو سیل کردے گی۔ پاکستان میں ہر روز تقریبا 4000 سے 5000 نئے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں، بھلا کیسے ممکن ہے کہ ہر روز سرکار اتنی تعداد میں نئے پولیس والے بھرتی کرکے ہر گھر کے آگے ایک پولیس والا بٹھا دے؟ تو اس بلا وجہ کے خوف سے باہر نکلئے اور اپنے معالج کے مشورے سے ضرورت کی صورت میں ٹیسٹ کروائیے تاکہ علاج کی اگلی منزلوں میں آپ کو آسانی رہے۔

• اگر مریض کی طبعیت زیادہ خراب ہونے لگتی ہے ( جس کی بڑی علامت سانس کا اکھڑنا ہے) اور آپ کو ھسپتال میں داخلہ نہیں مل پارہا تو فورا Pulse oximeter خریدیئے (عام حالات میں اس کی قیمت دو ہزار سے پچیس سو روپے تک ہوا کرتی تھی، آج کل ساڑھے پانچ ہزار سے لے کر نو ہزار روپے تک مل رہا ہے)۔ یہ آلہ آپ کو سرجیکل کے سامان کی دکان سے میسر ہوگا یا پھر کسی بڑے میڈیکل سٹور سے۔ اس آلے کی مدد سے آپ مریض کے جسم میں آکسیجن کی مقدار معلوم کرسکیں گے۔

ڈاکٹروں کے مطابق یہ آلہ اگر 94 یا اس سے زیادہ سطح کی آکسیجن لیول ظاہر کرے تو یہ صحت مند ہونے کی علامت ہے، اگر اس پر آنے والی سطح 90 سے لے کر 94 کے درمیان ہو تو یہ گزارے لائق تو ہے لیکن مسئلے کی نشاندہی کررہی ہے کہ جسم کو مطلوبہ مقدار سے کم آکسیجن میسر ہے، اور اگر آکسیجن کی سطح 90 سے کم ہو تو یہ خطرے کی علامت ہے۔ آکسیجن کم ہونے کی صورت میں آپ کو گھر پر آکسیجن سیلینڈر کا بندوبست کرلینا چاہئے، تاوقتیکہ آپ کو ہسپتال میں داخلہ مل جائے یا مریض کی حالت بہتری کی طرف جانا شروع ہوجائے۔ مریض کو مسلسل کم آکسیجن پر رکھنا جسم میں متعدد اقسام کے امراض پھیلنے کا باعث بنتا ہے، جس سے ابتداء پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں اور پھر گردے اور دل وغیرہ۔

لہذا گھر پر بھی مریض کی آکسیجن پوری رکھنے کا بندوبست ضرور کیجئے ۔ آکسیجن سیلنڈرز کہاں سے دستیاب ہوسکتے ہیں اس کا انحصار آپ کے رھائشی علاقے سے ہے لہذا کوئی عمومی جواب دینا ممکن نہیں البتہ یہ بات جان لیجئے کہ بڑے سائز کا سیلنڈر اس وقت بیس سے پچیس ہزار روپے میں مل رہا ہے جس میں دو ہزار سے پچیس سو کی آکسیجن ڈلتی ہے اور اس پر گیس کی سطح کنٹرول کرنے کے لئے ایک میٹر لگتا ہے جو تقریبا ساڑہے چار سے پانچ ہزار روپے تک مل رہاہے۔ یہ سوال کہ یہ سیلنڈر کتنی دیر چلتا ہے اس کا انحصار اس پر ہے کہ کتنی رفتار کے ساتھ آکسیجن دی جارہی ہے (ایک اندازے کے مطابق دو سے تین لیٹر مسلسل سپلائی پر یہ سلینڈر تقریبا چودہ سے سولہ گھنٹے تک کام کرسکتا ہے) ۔

• اگر مریض ہسپتال میں داخل ہوجاتا ہے تو عین ممکن ہے ڈاکٹروں کی طرف سے دی جانے والی ادویات ہی سے وہ صحت مند ہوجائے لیکن طبعیت نہ سنبھلنے پر ڈاکٹرز Actemra نامی ایک انجکشن کا استعمال کررہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کرونا کے بعض مریضوں پر اس انجکشن کے اثرات مثبت آئے ہیں (لیکن یاد رہے کہ میڈیکل سائنس کی رو سے یہ انجکشن اس بیماری کا کوئی تشخیص کردہ علاج نہیں، بس چند معالجوں کے ذاتی تجربات کا معاملہ ہے اور بس،بہت سے مریضوں کو اس سے فائدہ نہیں بھی ہورہا جس کا میں خود چشم دید گواہ ہوں)۔

اس انجکشن کی اصلی قیمت شاید بیس ہزار روپے تک تھی لیکن کرونا میں کچھ کامیابیوں کے بعد یہ مارکیٹ میں ایک لاکھ سے لے کر دو لاکھ روپے میں بلیک ہونے لگا ہے۔ البتہ جس کسی کو ڈاکٹرز یہ انجکشن تجویز کریں اسے چاہئے کہ Rosh Pakistan کمپنی سے براہ راست رابطہ کرے (ان کا نمبر03041111085ہے) جو پاکستان میں اس انجکشن کی آفیشل ڈسٹری بیوٹر ہے۔ کنٹرول ریٹ پر 400 ایم ایل کا انجکشن چھپن ہزار روپے میں مل جاتا ہے۔

کمپنی سے رابطہ کرنے پر وہ آپ سے مریض کے شناختی کارڈ، اس کی مثبت کرونا رپورٹ، ہسپتال کی مہر لگی ہوئی انجکشن سے متعلق ڈاکٹر کی تشخیص اور چند دیگر ٹیسٹ رپورٹس مانگیں گے (یہ رپورٹس آپ کو مریض کی ہسپتال فائل سے مل جائی گی)، ان سب کی تصاویر کھینچ کر ان کے دئیے گئے نمبر پر وٹس ایپ کردیں جس کے بعد وہ اپنے پروسیجر سے آپ کو آگاہ کردیں گے (کراچی میں کمپنی کا آفس گورا قبرستان کے قریب ہے، دیگر شہروں کا مجھے علم نہیں، البتہ وہ آپ کو آفس نہیں بلاتے)۔ اگر سب رپورٹس اور رقم میسر ہوں اور آپ بھاگ دوڑ کرسکتے ہیں تو انجکشن کے حصول میں تقریبا ایک دن لگ جاتا ہے۔

• بعض اوقات ڈاکٹرز کرونا سے صحت یافتہ کسی انسان کا خون بھی کرونا کے مریض کو لگاتے ہیں (اسے پلازمہ کا طریقہ کہتے ہیں)۔ پلازمہ حاصل کرنے کے لئے بھی چند رپورٹس درکار ہوتی ہیں (جیسے مریض کے خون کا گروپ وغیرہ، عموما انہیں الگ سے کروانا پڑتا ہے جس میں کچھ وقت لگتا ہے)۔ کراچی میں پلازمہ کے حصول کے لئے NIBD یا حسینی بلڈ بینک سے رابطہ کیا جاسکتا ہے (دیگر شہروں کا مجھے علم نہیں)۔ یہ پلازمہ چونکہ عطیہ کیا جاتا ہے لہذا مفت میں میسر ہوجاتا ہے (یاد رہے کہ پلازمہ کا طریقہ بھی صرف ایک چانس ہوتا ہے نہ کہ کرونا کا کوئی معین علاج)

• اگر مریض کی طبعیت ان سے بھی نہ سنبھلے تو ڈاکٹرز اسے وینٹی لیٹر پر ڈالنے کا بھی سوچتے ہیں۔ مریض کو ایسا کرنے کا کوئی فائدہ ہوگا یا نہیں یہ فیصلہ اس کے معالج سے مشورہ کرکے کیجئے کیونکہ بیماری کی آخری سٹیج پر جن مریضوں کو وینٹی لیٹر پر ڈالا جاتا ہے وہ عموما بچ نہیں پاتے، بالخصوص کہ جب وہ بزرگ اور کمزور ہوں۔

• تمام صورت حال سے آگاہ کرنے کا مقصد خبردار کرنا ہے کہ بچاؤ ہی میں بہتری ہے ورنہ علاج کے حالات اور قیمت کا انداز ہ آپ کو ہو گیا ہوگا۔

• آخری بات یہ کہ اپنا، اپنے گھر والوں اور بالخصوص اپنے بزرگوں کا خیال رکھئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے