جو دیکھتی تھی خواب وہ پورا ہو گیا

’بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی کو بے شمار مسائل درپیش ہیں مگر میں نے ہمیشہ اپنی کمیونٹی کو حالات سے لڑتے ہوئے دیکھا ہے اور حالات چاہے جتنے بھی خراب ہوں ہمیشہ ہماری نوجوان نسل اپنے لیے راستہ تلاش کر لیتی ہے۔‘

یہ الفاظ ہیں پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی فروا بتول کے جنھوں نے اس برس سنٹرل سپیرئیر سروس یعنی سی ایس ایس کے امتحان میں بلوچستان میں پہلی اور پاکستان میں نویں پوزیشن حاصل کی ہے۔

فروا کا اپنی اس کامیابی پر بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ‘سی ایس ایس امتحان کا آخری رزلٹ 17 جون کی شام پانچ بجے آیا تھا، جس میں میری بلوچستان سے پہلی اور پاکستان سے نویں پوزیشن آئی تھی۔ رزلٹ آنے کے تھوڑی دیر بعد مجھے سوشل میڈیا پر اپنی تصویر نظر آئی جس پر بہت ساری مبارکبادیں اور میرے لیے دعائیں تھیں، میں ان سب کے لیے بہت شکر گزار ہوں۔’

فروا اپنے والدین کی سب سے بڑی اولاد ہیں اور ان سے چھوٹے دو بھائی ہیں۔ اپنے بچپن سے متعلق فروا بتاتی ہیں کہ ان کے والدین کی شروع سے ہی خواہش تھی کہ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ان کی والدہ گھر کے کام کاج سے وقت نکال کر انھیں پڑھانے بیٹھ جاتی تھیں اور شاید اسی وجہ سے چھوٹی عمر سے ہی ان کی تعلیمی بنیاد اچھی پڑتی گئی اور اپنے سکول میں بھی وہ زیادہ تر پوزیشن ہولڈر رہیں۔

جبکہ اپنے والد کے بارے میں بات کرتے ہوئے فروا کا کہنا تھا کہ ان کے والد ہمیشہ چاہتے تھے کہ ان کے بچے ہزارہ برادری کا نام روشن کریں اور اسی لیے انھوں نے ہمیشہ اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کے بچوں کو ہمیشہ اچھے مواقع حاصل ہوں اور وہ بہترین تعلیمی اداروں میں پڑھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘میں اپنی کامیابی کا سارا کریڈٹ اپنے والدین کو دوں گی جنھوں نے مجھے پڑھایا لکھایا اور اس قابل بنایا کہ حالات چاہے کتنے بھی مشکل ہوں میں ان کا سامنا کر سکوں۔’

فروا نے اپنے بچپن اور تعلیمی سفر کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ‘میں نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ کی گیریژن اکیڈمی سے حاصل کی۔ سنہ 2007 میں ہمارا خاندان کراچی منتقل ہوگیا جہاں میں نے بیکن ہاؤس سکول سے او لیول کیا اور پھر اے لیول لائزم سکول سے کیا۔ سنہ 2018 میں لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز ( لمز) سے اکاؤنٹنگ اینڈ فنانس میں گریجویشن مکمل کی جس کے بعد بینکنگ سیکٹر جوائن کیا۔’

فروا کا کہنا ہے کہ ان کے لیے دوسرے شہر جا کر پڑھنا آسان نہیں تھا، تاہم یہاں بھی والدین نے ساتھ دیا اور اس مشکل مرحلے کو ان کے لیے آسان بنایا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ‘میرے والدین نے شروع سے یہ فیصلہ مجھ پر چھوڑا ہوا تھا کہ میں اپنے کیرئیر کے لیے کس شعبے کا انتخاب کرتی ہوں۔ اولیول کرتے وقت مجھے بس اتنا پتہ تھا کہ مجھے اکاؤنٹنگ اچھی لگتی ہے اور میں آگے بھی یہی پڑھوں گی۔’

فروا کہتی ہیں کہ ‘لمز یونیورسٹی میں پڑھنا آسان نہ تھا کیونکہ وہاں کے اخراجات بہت زیادہ تھے اور اس دوران ایک بار گھریلو معاشی حالات ایسے ہوئے کہ امی نے کہا اپنے آپ کو تیار کر لو شاید پڑھائی چھوڑنا پڑے تاہم پھر میں نے یونیورسٹی میں معاشی مدد کے لیے درخواست دی اور اس طرح دو سال تک مزید پڑھائی کی۔’

فروا کا کہنا ہے کہ سول سروس جوائن کرنے کا ارادہ گریجویشن کے بعد بنا۔ ‘سول سروس کے بارے میں مجھے پہلے زیادہ علم نہیں تھا اور نہ ہی میری فیملی میں پہلے کوئی سول سروس میں ہے، میرے اساتذہ مجھے کہتے تھے کہ ہمیں تم میں یہ صلاحیت نظر آتی ہے تم یہ امتحان دو۔’

فروا نے گریجوئشن مکمل کرنے کے بعد سی ایس ایس کے امتحان کے متعلق جاننا شروع کیا اور آس پاس کے لوگوں سے اس کے بارے میں معلومات لینے کے بعد ان میں مقابلے کا امتحان دینے کا شوق ہوا۔

فروا کے مطابق ’اگست 2018 میں، میں نے اس امتحان کے لیے پڑھائی شروع کی۔’فروا کا کہنا ہے کہ سی ایس ایس کی تیاری کے لیے وہ نو گھنٹے لائیبریری میں جا کر پڑھتی تھیں۔اس طرح انھوں نے سات ماہ مسلسل محنت کر کے سی ایس ایس کے امتحان تیاری کی۔ جبکہ انٹرویو کی تیاری کے لیے اسلام آباد جا کر اکیڈمی جوائن کی۔

فروا کا کہنا ہے کہ ان کو کبھی کبھی ڈر بھی لگتا تھا کہ نہ جانے وہ اس امتحان میں کامیاب بھی ہو پائیں گی یا نہیں۔

‘میں نے اپنے لیے اس امتحان کو جینے مرنے کا معاملے بنا لیا تھا اور خود سے عہد کیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو یہ امتحان پاس کرنا ہے۔’

وہ کہتی ہیں کہ سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری کے دوران وہ کئی بار ذہنی دباؤ سے گزریں ہیں۔
‘ کچھ لوگ ڈراتے بھی تھے کہ اس کو پاس کرنا اتنا آسان نہیں۔ مجھے کبھی کبھی لگتا تھا کہ میں یہ سب کر کے اپنا وقت ہی ضائع نہ کر رہی ہوں۔’

ان کا کہنا ہے کہ ایسے میں ہمیشہ ان کے والدین نے ان کا حوصلہ بڑھایا اور زندگی کے اتار چڑھاؤکے متعلق سمجھاتے ہوئے کہا کہ ناکامی اور کامیابی دونوں زندگی کا حصہ ہیں۔

انھوں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بتایا کہ ‘مجھ سے میرے سی ایس ایس انٹرویو میں ایک سوال پوچھا گیا تھا کہ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اور میں نے وہاں بھی یہی جواب دیا تھا کہ زندگی میں آگے جانے کے لیے میرے والدین ہی میری طاقت ہیں، اس کے علاوہ اگر زندگی میں مجھے کسی نے متاثر کیا ہے تو وہ ہزارہ کمیونٹی کی سول سرونٹس خواتین ہیں جو مشکل حالات کے باوجود بہترین کام کر رہی ہیں، جن کو دیکھ کر حوصلہ ملتا ہے کہ ان جیسا بنا جائے۔’

فروا بتول کا اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے کہنا ہے کہ ‘مستقبل کے لیے میرا مقصد یہی ہے کہ پبلک آفس کی جو ذمہ داری مجھے دی جائے گی، میں اس کے ساتھ انصاف کر سکوں، یقینی طور پر ہمارے معاشرے میں فیلڈ میں جا کر کام کرنا آج بھی آسان نہیں لیکن سول سروسز میں موجود خواتین ان مشکلات کے باوجود اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان باہمت خواتین نے ثابت کیا ہے کہ مرد یا عورت ہونا اس بات کی ضمانت نہیں کہ کام اچھا ہوگا بلکہ آپ کے اندر کی صلاحیت آپ کو کامیاب بناتی ہے ۔’

وہ کہتی ہیں کہ زندگی میں انسان کو کچھ بھی حاصل کرنا ہو تو اس کے لیے ایمانداری بہت ضروری ہے۔

‘انسان کو نہ خود کو دھوکا دینا چاہئے نہ دوسروں کو، آپ اپنا جو مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے ساتھ ایماندار رہیں، اپنی غلطیوں کو پہچانیں اور انھیں درست کریں، اپنی صلاحیتوں کو خود جانچیں اور ان کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کریں۔’

فروا بتول اب سول سروسز اکیڈمی میں ٹریننگ کے بعد پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس جوائن کریں گی۔

بشکریہ بی بی سی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے