مریم نواز، بلاول بھٹو اور ایک غریب کی سوچ

کہتے ہیں کہ بندے کے اپنے حالات بہتر ہوں تو وہ معاشرتی مسائل سے بیگانہ ہونے لگتا ہے۔ میرے ساتھ بھی شاید ایسا ہی ہوا ہے۔ جب سے معاشی حالات بہتر ہوئے ہیں تو دوسروں کا درد، دکھ اور ان کی تکالیف کا احساس کم ہوتا جا رہا ہے۔

یا ہو سکتا ہے کہ میری نفسیات کے پیچھے یہ بھی ہو کہ انہی غموں، فکروں اور مسائل سے بھاگ کر تو جرمنی آئے تھے۔ شاید لاشعوری طور پر میرے ذہن میں ہے کہ ان مسائل سے جان چھڑانی ہے۔

ایسی ہی سوچ کئی برس پہلے ایک مرتبہ بس کے ساتھ لٹکے ہوئے آئی تھی۔ نوشہرہ ورکاں سے گوجرانوالہ جانا تھا، پیسے کم تھے تو بطور سٹوڈنٹ یہی سوچا کہ بس سے لٹک کر جاتے ہیں، دو چار روپے کرایے میں گوجرانوالہ پہنچ جاوں گا۔ اس وقت ابھی ایک روز پہلے ہی میں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ بلاول بھٹو تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن چلے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی پڑھا تھا کہ بلاول مستقبل کے لیڈر ہیں اور ایک دن ملک کی قیادت کریں گے۔

ہم روایتی طور پر مسلم لیگ نون کے ووٹر تھے تو اس وقت مسائل کی جڑ ہم پیپلز پارٹی کو ہی سمجھتے تھے۔ شاید یہ بھی ایک وجہ تھی کہ تعصب بہت زیادہ تھا۔ لیکن اس دن بس سے لٹکے لٹکے جو سوچ آئی تھی، وہ یہ تھی کہ بلاول کو کیسے پتا چلے گا میرے مسائل کیا ہے، ایک غریب طالب علم کے مسائل کیا ہیں، گرمیوں میں صبح سویرے ناشتے کے بغیر گاوں سے نکلنا اور تپتی دوپہر میں بسوں کے اڈوں پر کھڑے ہونا، پینتالیس سینٹی گریڈ میں تارکول کی سڑکوں پر گردو غبار اور دھواں پھانکنا اور ہر آتی جاتی بس یا ٹیوٹے کو ہاتھ دے کر روکنا کس قدر اذیت ناک ہے؟

اس وقت سوچ محدود تھی، ٹھنڈے پانی کے حصول، ایک آئس کریم کھانے، لکھنے کے لیے ایک ڈائری خریدنے اور اس کے لیے پیسے جوڑنے تک ہی محدود تھی۔ بس کی چھت پر بیٹھے بیٹھے میں یہی سوچتا رہا کہ یہ امیر لوگ جو اسمبلیوں میں جاتے ہیں، جو ہماری قسمت کے فیصلے کرتے ہیں، جنہوں نے ہمارے دکھوں کا مداوا کرنا ہے، یہ میرے مسائل اور میرے غموں کی شدت کو کیسے سمجھ پائیں گے؟

سوچیں محدود تھیں، میں کافی دیر سوچتا رہا تھا کہ اچھا پین خریدنے کی خوشی، کتابوں کے لیے پیسے، تھک کے گھر آنے اور پھر پڑھائی نہ کر سکنے کی سکت کا مسئلہ میرے مستقبل کے لیڈر بلاول کو کیسے سمجھ آئے گا؟

جو بندہ اچھے انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھا ہو، جس کی کتابیں نوکر بازار سے خرید کر لاتے ہوں، جو اے سی والے گھر سے نکلے، اے اسی والی گاڑی میں سوار ہو، اے سی والے اسکول میں جاتا ہو، اسے ایک پرائمری اسکول سے نکلنے والے، بس یا ٹیوٹے پر دھکے کھاتے ہوئے طالب علم کے مسائل کیسے سمجھ آئیں گے ؟

آج میں شکر کرتا ہوں کہ اچھے وقت پر پاکستان سے نکل آیا ورنہ آج تک کسی بس سے لٹک کر سفر کر رہا ہوتا۔ یہ سوچیں ہی تھیں، جنہوں نے ہجرت کرنے پر مجبور کیا۔ یہ ملک کے حالات ہی تھے، جن کے وجہ سے میرے جیسا بندہ اپنے ماں باپ، خاندان اور بہن بھائیوں کو چھوڑ کر دور کسی دیس میں جا بستا ہے۔

میں اب یہ اقرار جرم کرتا ہوں کہ مجھے اب پاکستان میں اپنے خاندان کے علاوہ کسی کے مسئلے سے کوئی خاص ہمدردی نہیں رہی۔ میں شرمندہ بھی ہوں کہ یہ خود غرضی ہے کہ آپ کسی کے غم کو اپنا غم نہ سمجھیں۔ یا کم از کم ایک دیہات کے رہنے والے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ساتھیوں کے غم درد کو محسوس ہی نہ کر سکے۔

آج پاکستان میں آل پارٹیز کانفرنس ہوئی ہے۔ محترمہ مریم نواز اور جناب بلاول بھٹو کی بہت تعریف کی جا رہی ہے۔ پاکستان کی لولی لنگڑی جمہوریت کے لیے یہ بھی غنیمت ہے، مستقبل میں دونوں ہی اچھے لیڈر ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ دونوں ہی پاکستانی جمہوریت کو دوام بخشیں، پاکستان کی روایتی سیاست کو تبدیل کریں، صحرا میں بارش کا ایک قطرہ ثابت ہوں، مرتے ہوئے پرندوں کے لیے ہوا کا ایک تازہ جھونکا ثابت ہوں۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ روایتی خاندانی سیاست کے ہی امین نکلیں، صرف اپنے خاندانوں کے مفادات کو ہی تحفظ فراہم کریں یا پھر دوبارہ ملک کے وسیع مفاد میں فوج کے ہمقدم بن جائیں۔

لیکن میری سوچ وہی پرانی سوچ ہے، ہینگر سے لٹکے پرانے کوٹ کی طرح وہیں معلق ہے، آج بلاول صاحب اور محترمہ مریم نواز کو دیکھ کر وہی کئی برس پرانی سوچ دوبارہ ابھری ہے۔

چند ماہ پہلے مریم نواز خصوصی طور پر لندن میں اپنے بچوں کی گریجوایشن تقریب میں شرکت کے لیے گئی تھیں۔ وہ اچھے خوبصورت تھری پیس ولایتی سوٹ میں تھے، ثروت آنکھوں سے جھلک رہی تھی۔ رب کی تقسیم ہے، انسان کو خوش ہونا چاہیے، ہو سکتا ہے آج سے بیس برس بعد وہ بھی سیاست میں قدم رکھیں اور اس ملک کی جمہوریت کو مزید مضبوط بنائیں۔

لیکن سوال وہی پندرہ برس پرانے والا ہے کہ یہ ایک غریب طالب علم کے مسائل کو کیسے سمجھیں گے؟ ہماری تمام تر جمہوریت ملک کے تقریبا چار سو خاندانوں سے کیوں جڑ کر رہ گئی ہے؟ آج جرمنی میں بیٹھا میں سوچ رہا ہوں کہ شاید کوئی امتیاز احمد آج بھی نوشہرہ ورکاں کی بس سے لٹک کر گوجرانوالہ گیا ہو اور یہ سوچ رہا ہو کہ کیوں بسوں پر لٹکنے والے بچے پارلیمان تک نہیں پہنچ پاتے؟ کیوں ایک کسان، ایک موچی، ایک حجام کا بیٹا پارلیمان میں نہیں پہنچ پاتا۔ کیوں ہماری قسمت کے فیصلے، ان جرنیلوں، کرنیلوں اور سیاستدانوں کے بیرون ملک پڑھنے والے بچوں نے ہی کرنے ہے۔

بیرون ملک تعلیم بری چیز نہیں لیکن بہتر تعلیم کی سہولتیں بائیس کروڑ عوام کے بچوں کے لیے کیوں نہیں ہیں؟ یہ جمہوریت دن رات محنت کرنے والے بچوں کے لیے کیوں نہیں ہے؟ جو بچے اسٹال لگا کر، محنت مزدوری کر کے، اتنا پڑھ لکھ رہے ہیں، وہ میٹرک پاس ایم پی ایز اور ایم این ایز کے سامنے کیوں ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہونے پر مجبور ہیں؟

یہ بڑے بڑے ٹھیکے، رقبوں کی تقسیم، کاروبار اور وسائل کی بندر بانٹ فوج اور جاگیردار سیاستدانوں کے ہی درمیان کیوں ہو رہی ہے؟ یہ پاکستان کی اشرافیہ کب تک اپنی جنگ میں غریب عوام کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے رہیں گے؟ کب تک؟

پتا نہیں مجھے کیوں لگتا ہے کہ پاکستان میں آج جو غریب طالب علم بھی ایسا سوچ رہے ہیں، شاید وہ بھی چند برس بعد کسی یورپی ملک میں بیٹھے، خود غرضی کا لبادہ اوڑھے، یہی سوچ رہے ہوں کہ شکر ہے پاکستان سے نکل آئے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے