شام ابتداء سے علم وفن کا مرکز رہا ہے،علمی حوالے سے یہاں کی مٹی اسلامی تاریخ میں بڑی زرخیز رہی ہے، ابن عساکر کی "تاریخ دمشق” اور ابن العديم کی "بغية الطلب في تاريخ حلب” کے مطالعے سے ملک شام کے اس وقت کی علمی سرگرمیوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے.
ویسے تو دمشق تہذیب وتمدن اور تعمیراتی حسن وجمال کے لحاظ کافی قدیم شہر ہے، شاید "أم العواصم ” بھی دمشق کو کہا گیا ہے، جس وقت عربی ادب کا چسکہ لگا تھا تو شام کے صاحب طرز ادیب، وفقیہ "شیخ علی الطنطاوی” جنہیں شیخ قرضاوی اپنی خود نوشت”ابن القرية والكتاب "میں "أديب الفقهاء، وفقيه الأدباء” کے نام سے یاد کرتے ہیں، کی کتابیں بڑے شوق سے پڑھتا تھا، شیخ نے دمشق اور حلب کے جمالیاتی پہلو کا اپنی کتابوں میں نہایت دلچسپ اور دلکش تذکرہ کیا ہے، خاص کر” دمشق صور من جمالها وعبر من نضالها” "الجامع الأموي في دمشق” اور”ذكريات "میں.
کہا جاتا ہے کہ جس طرح قدرت نے شام میں حسن کی خوب تصویر گری کی ہے، ایسے ہی اہل شام کو بھی حسن وجمال کا حظ وافر عطا کیا ہے.
میں اس پر ایک چیز کا اضافہ کرتا ہوں، کہ حسن ادب، حسن اخلاق اور حسن احترام میں بھی یہ نمایاں ہوتے ہیں، ان کی کتابوں میں نہایت احترام، ادب اور اختلاف کے اصولی حدود میں رہتے ہوئے، مخالف کی رائے رد کردی جاتی ہے.
بہر حال، مجھے شام کے جن چار اہل علم سے غائبانہ محبت ہے، ان میں سے ایک دکتور نور الدين عتر تھے، شیخ ابو غدہ اور شیخ طنطاوی کا تو کیا کہنے، شیخ عوامہ بھی اس دور کے یکتا محدث ومحقق ہیں.
آج فیس بک سے پتہ چلا کہ علم حدیث کے یکتائے روزگار، کئی کتابوں کے مصنف دکتور نور الدین عتر رحمہ اللہ انتقال فرما گئے ہیں.
إِنا لله وإنا إليه راجعون
إن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى
شیخ نور الدین محمد عتر، حلب سے تعلق رکھتے ہیں، علمی خندان کے چشم وچراغ رہے ہیں، والد صاحب بچپن میں اہل علم کے دروس ومجالس میں شریک ہونے ساتھ لے جایا کرتے تھے، انٹرمیڈیٹ سطح تک کی تعلیم دمشق میں حاصل کی، پی ایچ ڈی جامعہ ازہر سے "الإمام الترمذي والموازنة بين جامعه وبين الصحيحين” کے عنوان سے درجہ اول کے ساتھ کی.
اس کے بعد کچھ عرصے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ، پھر شام کی مختلف یونیورسٹیز اور جامعات میں استاد اور جامعہ دمشق میں "کلیہ علوم القرآن والسنة” کے رئیس رہے.
درجن بھر مضبوط فنی کتابوں کے مصنف تھے، علمی مقالات اور دروس ومحاضرات اس پر مستزاد ہیں.
مجھے ان کے نام سے واقفیت سب سے پہلے درجہ سابعہ میں ان کی کتاب ” أصول الجرح والتعديل” پڑھتے ہوئے، ہوئی، پھر تو گویا ان کی کتابوں سے عشق ہونے لگی.
اہل شام کی کتابوں میں مجھے جس چیز نے زیادہ متاثر کیا ہے، وہ ہے ان کا سادہ، سہل، ہر قسم کے تکلف وتصنع سے خالی، جامع اسلوب، وہ فن کے ڈومین میں رہتے ہوئے بات کریں گے، موقف نہایت خوبصورت انداز میں پیش کریں گے، کہیں مخالف پر رد کرنے کی ضرورت پیش آئی، تو حسن ادب اور احترام کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا محسوس نہیں ہوگا.
تصنیف وتحقيق کے جدا میدان ہیں، دونوں کے رجال کار الگ ہیں، ہاں کچھ لوگوں کو قدرت نے دونوں میں کمال بخشا ہوتا ہے، دکتور نور الدین عتر رحمہ اللہ انہی میں سے تھے، ان کے ہاں جو شستگی تصنیف میں ہوتی ہے، وہی عمدگی تحقیق میں ہوتی ہے.
ان کی تحقیق کے ساتھ چھپی "شرح نخبة الفكر” اور "مقدمة ابن الصلاح” دونوں درس کے دوران ساتھ ہوتی تھیں، ابن رجب کی ” شرح علل الترمذی ” بھی پڑھی ہے، ان تینوں سے ان کے پایہ تحقیق کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے، ان کے ہاں تحقیق، تعلیق بلا وجہ، یا تخریج بلا طائل نہیں ہوتی ہے، وہ نہایت اختصار کے ساتھ ، بقدرِ ضرورت اصل متن کی تشریح وتوضيح کی حد تک خود کو پابند رکھیں گے.
ان کی تصنیف زیادہ تر علم حدیث میں ہے، مگر چونکہ وہ "قسم علوم القرآن والسنة ” کے رئیس تھے، اس لیے علوم القرآن پر بھی انہوں نے لکھا ہے، چنانچہ "علوم القرآن” ان کی بہترین تصنیفات میں سے ہے، اس کا اسلوب اور مباحث کی ترتیب بھی نہایت عمدہ ہے، وہ فنی بحثوں کے ساتھ استشراق کے شبہات ذکر کرکے ان کا ازالہ بھی کرتے ہیں.
علم الحدیث میں ان کی کتابیں بے شمار ہیں، مگر "منهح النقد في علم الحديث” اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی "بلوغ المرام” کی شرح "إعلام الأنام” زیادہ مشہور ہیں.
"منهج النقد” بنیادی طور پر اصول حدیث کی کتاب ہے، مگر ان کا پیرایہ بیان عام کتب اصول سے مختلف ہے، مباحث جدا گانہ ہیں اور اصول کے انواع کی تقسیم وتنویع میں جدت وندرت ہے، گویا اصول حدیث معاصر سطح فہم کے مطابق ترتیب کے نئے سانچے میں ڈھل کر آئے ہیں، وہ اصولی مباحث کے ساتھ انواع کے تاریخی پہلو کا دراسہ بھی کرتے ہیں، محدثین کے منہج نقد کے داخلی وخارجی عوامل واصول کو بھی زیر بحث لاتے ہیں، کتب حدیث کا تعارف وتذکرہ بھی کرتے ہیں، ساتھ ساتھ مستشرقین کے اراء ونظریات کی نشاندہی اور ان پر رد بھی کرتے ہیں.
اس کے علاوہ علل حدیث پر ان کی "علم علل الحدیث ” "أصول الحرح والتعديل وعلم الرجال” اور حدیث کے بلاغی اور جمالیاتی پہلو پر "في ظلال الحديث النبوي” لکھی ہے، جس کا نام شاید سید قطب شہید کی "في ظلال القرآن” سے مستفاد ہے، علم حدیث کے بلاغی موضوع شیخ محمد الصباغ کی کتاب” التصوير الفني في الحديث "بھی نہایت عمدہ ہے، اس کے نام ہی نہیں، منہج اخذ واستنباط نتائج میں بھی سید قطب کی شاہکار کتاب”التصوير الفني في القرآن "سے استفادے کی صراحت موجود ہے.
اس کے علاوہ دیگر عمدہ کتابیں بھی ان کی تصانیف میں شامل ہیں.
اللہ تعالیٰ ان کی کامل مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، ان کی علمی، عملی اور دعوتی خدمات قبول فرمائے ، ہمیں ان کے علوم سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے.
#اکمل_جمال