یونیورسٹی، تحقیقی عمل اور سپروائزرز

پاکستان کی یونیورسٹیوں "چاہے وہ سرکاری ہوں ،نیم سرکاری یا غیر سرکاری ہوں” میں چند ایسے مسائل ہیں جن کے اوپر ایچ۔ای۔سی کو نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔اسکے لئے ان اداروں کو بھی ایسے شکایت سیل بنانے چاہیے جو کہ طالبعلم کی شکایات کو صیغہ راز میں رکھتے ہوئے ایکشن لیں سکیں۔

طالبعلم کی ذہنی پریشانیوں کو دور کریں تاکہ وہ سکون سے اپنا تحقیقی سفر مکمل کر سکیں۔ تحقیق اور ذہنی سکون کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔اس لئے طالبعلم اپنے ان تعلیمی پروگرام کو مکمل کر کے اپنے روزگار کے حصول کے لئے پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔

جب طالبعلم ہماری یونیورسٹیوں میں ایم۔فل اور پی۔ایچ۔ڈی کرتے ہیں تو ادارہ انکو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنے سپروائز کا انتخاب کر سکے، مگر ساتھ ہی ادارے کو کچھ قوانین سپروائز کے لئے وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ تاکہ ان جیسے واقعات سے بچا جا سکے۔

پچھلے دنوں اپنے پرانی کلاس فیلو سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ ہماری یونیورسٹیوں میں چند ایسے استاد ہیں، جنکو اسٹوڈنٹس کے ریسرچ سپروائز ہونے کا شرف حاصل ہوا تو وہ اس ریسرچ کو بھی اپنا سمجھنے لگتے ہیں ۔

کیونکہ ریسرچ کا سارا ڈیٹا طالب علم استاد سے اسکی اصلاح کے لئے شئیر کرتا ہے۔اور بعض ایسے بھی طالب علم ہیں، جن کے پاس اپنا لیپ ٹاپ نہیں ہوتا تو وہ کسی سے مانگ کر گزارہ کرتے ہیں ۔اس لیپ ٹاپ کی واپسی کے بعد ریسرچ ڈیٹا صرف استاد کے پاس ہی ہوتا ہے۔ جب بات آتی ہے تحقیقی مقالہ کی تو اس ڈیٹا کا محتاج وہ طالب علم ہوتا ہے یعنی اپنی ہی ریسرچ کا۔ کیونکہ بعض اوقات طالبعلم اپنا لیپ ٹاپ افورڈ نہیں کر پاتا۔

بعض سپروائز خود طالبعلم کو کہتے ہیں کہ وہ انکے ساتھ تحقیقی مقالہ پر کام کریں، مگر جب وہ تحقیقی مقالہ مکمل ہو جاتا ہے اور طالب علم کو یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے کہ اسکا نام پرنسپل آتھر کی بجائے سیکنڈ آتھر کا ہے اور جب وہ اس بارے سپروائز سےکہتا ہے کہ پرنسپل آرتھر میں اسکا نام نہیں ہے؟؟؟
استاد کہتا ہے کہ اچھا کانفرس میں آپ بھیجو بعد میں اصلاح کر لیں گے ۔اس کانفرس میں مقالہ پڑھنے کا وقت آجاتا ہے ۔پھر پینل کے چئیرمین جب کہتےہیں کہ یہ آپ کی ریسرچ ہے؟ اگر ہے تو سپروائز کا نام پرنسپل آرتھر میں کیوں ہے؟؟؟ اگر پینل کے چئیرمین کو علم ہو جاتا ہے تو وہ نوٹس کیوں نہیں لیتا۔اس سپروائز کے خلاف۔

طالب علم کے علم میں یہ اضافہ ایک ذہنی اذیت اور تعلیمی رکاوٹ بن جاتی ہے۔

جب اس بات کو سپروائز کے علم میں لایا جاتا ہے تو ان کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی، الٹا وہ طالبعلم پر ناراض ہوتے ہیں ۔اصل پریشانی تو طالب علم کے لئے ہے کیونکہ وہ مقالہ کسی بین القوامی ریسرچ جنرل میں بھیجنا چاہتا ہے اور اپنے مستقل کے لئے فکر مند ہوتا ہے ۔ پھروہ اپنی دلچسپی ظاہر کرتا ہے کہ اسکو ایک بین الاقوامی جرنل میں شائع ہونا چاہیے اور اسکے لئے وہ تمام مقالہ کو اسکے مطابق مکمل کر لیتا ہے اور سپروائز کو چیک کرنے کے لئے کہتا ہے ۔ وہ سپروائز بغیر اسکو فائنل کاپی آگے فارورڈ کر ڈیٹا ہے۔اسکو ایک ای-میل آتی ہے کہ یہ ریسرچ پیپر ہمیں مل گیا ہے۔

جب وہ اسکو دیکھتا ہے تو اس میں بھی وہ پرنسپل آرتھر نہیں ہوتا۔جب اس نے سپروائز سے پوچھا کہ آپ نے مجھے یہ کیوں نہیں بتایا اور وہ پھر کیوں پرنسپل آرتھر نہیں؟؟؟ پھر اس طالب علم کو اسکا صرف ایک ہی حل نظر آیاکہ وہ یہ سارا کام گوگل پراپ لوڈ کر دے ۔ یہی بات جب وہ سپروائز کے علم میں لاتا ہے تو وہ حیران رہ جاتا ہے، سپروائز کی زبان پر۔۔۔ان کے لہجے پر۔۔انکی گالیوں پر۔اس پر سپروائز نے نہ صرف وہ ڈیٹا ڈیلیٹ کر دیا بلکہ اسکو
ساتھ ہی اس کو یہ کہا کہ وہ اس اپنےریسرچ ورک میں سے کوئی مقالہ نہ نکالے۔کیونکہ محنت اسکی ہے۔۔۔لیکن کیسے۔۔۔! جب اس طالب علم نے سارا ڈیٹا خود جمع کیا، SPSS کے ذریعے رن کیا ہے اور سارا ریسرچ ورک خود کیا، تو وہ اپنی محنت کو دوسرے کو کیسے سونپ دے۔۔؟؟؟؟خدارا کوئی طالب علم اپنے ریسرچ ڈیٹا کو کسی کے پاس نہ چھوڑیں ۔

[pullquote]ایچ۔ای۔سی کو طابعلم کے ان مسائل کی طرف ایکشن کی ضرورت ہے۔ [/pullquote]

1۔یونیورسٹیوں میں لیپ ٹاپ کرائے پر دستیاب ہونے چاہیے۔۔

2۔یونیورسٹیوں کو ان سپروائز کے خلاف ایکشن لینا چاہیے ،جو خود کو پرنسپل آرتھر لکھتے ہیں ۔

3۔ پرنسپل آتھر اور کو آتھر کا فرق واضع ہے۔

4۔ یونیورسٹی کو سپروائز کے لئے کچھ قانون وضع کرنے چاہیے ، طالبعلم کی محنت کو بچانے کے لئے ۔

5۔ طالبعلموں کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہیے کہ انکو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اسکا نوٹس لینا چاہیے ۔

شکایتی سیل بنانے چاہیے جو کہ طالبعلم کی شکایات کو خفیہ طور پر فوری رفع دفع کر سکیں۔

5۔ کانفرس کے اندر بھی اس چیز کو شفاف بنایا جائےکہ پرنسپل آتھر کون ہے۔

6۔ یونیورسٹی کے جنرل میں طالبعلم کے لئے %50 کوٹہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنے تحقیقی مقالات شائع کرواسکیں۔اور اسکا طریقہ کار آسان اور قابل رسائی ہونا چاہئے ۔

7۔کانفرس کے دوران بیٹھے پینل کو اسکا ایکشن لینا چاہیے ۔

8۔ اس لیے کہ جب آپ اپلائی کرنے کے لئے درخواست طلب کرتے ہیں اور ساتھ میں شائع مقالات کی مقدار بھی متعین کرتے ہیں اور وہ بھی آپ سب اداروں کو فرسٹ آتھر میں درکار ہوں ، تو زرا ان کے حصول کا رستہ آسان کیجیے۔ تاکہ طالبعلم آسانی سے اپنا رستہ بنا سکیں۔اور یہ اداروں اور ایچ۔ای۔سی کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔

9۔دوران ریسرچ ورک طالبعلم اور سپروائز سے ہر طرح کے مسائل سے بخوبی واقف رہا جا سکے۔

10۔یونیورسٹی کو فالواپ کے عمل میں رہنا چاہیے ۔

طالب علم تو اپنا کیریئر شروع کرنے جا رہا ہوتا ہے۔اسکو روزگار کے لئے اپلائی کرنا ہوتا ہے۔اسکی اپنی محنت صرف سپروائز کی محتاج نہ رہے۔

میری ایچ۔ای۔سی سے درخواست ہے کہ ان مسائل اور انکے عوامل پر فوری توجہ دیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے