اصل مسئلہ کہاں :سکول بیگ کا وزن یا ہمار ا نظام تعلیم

کے پی کے نے بچوں کے سکول بیگز کا وزن متعین کیا ہے، جو کہ دسمبر کے پہلے ہفتے میں ایک بل کی صورت میں صوبائی اسمبلی میں نا صرف پیش ہوا بلکہ منظور بھی ہو گیا ۔ یہ وزن بچوں کی عمر ،کلاس اور وزن کو دیکھتے ہوئے تجویز کیا گیا ہے ۔ ہر درجے کے لئے علیحدہ وزن متعین کیا گیا۔جو کہ آپکو گوگل سے پتہ چل سکتا ہے۔

یہ ایک اچھا تاثر ہے اور اچھا پہلو ہے تعلیم کے حوالے سے جو اٹھایا گیا۔کیونکہ کافی عرصے سے نا صرف کے پی کے بلکہ پورے ملک کے والدین اس وجہ سے پریشان تھے۔کے پی کے گورنمنٹ نے تو اس پر عمل درآمد کر لیا۔

بعض اوقات بھاری بستے بچے یا تو ایک کاندھے پر اٹھا کر لے کر جاتے یا پھر والدین میں سے کوئی انکے ہمراہ جاتے ۔ یہ بچوں اور والدین دونوں کے لئے پریشانی کا سبب تھے۔

بھاری بستے بچوں میں جسمانی طور پر چند مسائل پیدا کرتے ہیں ۔ جو کہ زندگی بھر کے لئے ان کا طرز عمل بدل دینے کا باعث بن سکتے ہیں ۔
1۔جیسے کمر کا درد
2۔کمر کا جھکاؤ
3۔کندھے کا درد
4۔گردن کا درد
5۔پستہ قد

اکثر اساتزہ بچوں کو تاکیدی طور پر روزانہ کی بنیاد پر تمام کتابیں، کاپیاں اور ڈائری لانے کا کہتے ہیں ۔ جسکی وجہ سے وزن میں ناگہانی طور پر اضافہ رہتا ہے۔اور جس کسی استاد کی کتاب یا کاپی گھر رہ جائے تو سزا آپ کا مقدر بنتی ہے۔

ڈاکٹرز نے بھی بسا اوقات گورنمنٹ کی توجہ اس امر کی طرف دلوائی ہے۔ کے۔پی۔کے گورنمنٹ کا یہ عمل خوش آئیند ہے ، کہ انہوں نے اس پر عمل درآمد کیا۔

یہ بوری نما وزن ہم پر اگر کم کر دیا جائے تو کیا بچوں کے سیکھنے کے عمل میں بہتری آئے گی؟
سوچنے کی بات یہ ہے کہ بستے کے اندر کا وزن کم کرنے سے بچوں میں تخلیقی کاوشیں بڑھیں گئی ؟
کیا بچے خوشی خوشی سکول جائیں گے؟
کیا چھ مہینے سکول بند رہنے کے بعد دوبارہ سکول کا بند ہو جانا اور بچوں کی خوشی تاحال موجود ہونا ہمارے اندر کچھ سوالوں کو جنم نہیں دیتا؟
کیا یہ تعلیمی اداروں، اور گورنمنٹ کے اعلی تعلیمی عہدے داروں کے لئے لمحہ فکریہ نہیں!
کیا ہمارا نظام تعلیم بنیادی طور پر بچوں کے لئے خوشی کا باعث ہے ؟

مجھے یاد ہے کہ یہ بوری نما وزن جب بچوں کو اٹھانا پڑتا تھا تو وہ سکول کو سکون اور خوشی کے ذریعے کے بجائے اذیت خانہ سمجھتے تھے ۔ نہ اپنے لئے وقت ہوتا اور نا ہی رشتہ داروں کے لئے ۔زندگی ایک جہد مسلسل کا سماں پیش کرنے لگی۔کزنز کی شادیاں ہوتی رہتی اور ہم امتحانات پر امتحانات دیتے رہے ،جب فراغت نصیب ہوئی تو حالات بالکل سازگار نہ رہے۔

کیونکہ مجھے اپنے بچپن میں یہ ظلم نہیں سہنا پڑا۔ میرے بچپن کے دن ایک خواب کی طرح لگتا ہیں ۔ہمیں کبھی اپنی کتابیں گھر نہیں لانی پڑی ،سکول میں جو روزانہ پڑھایا جاتا ، وہیں پر اس کو اتنا اچھی طرح سمجھا دیا جاتا کہ اسکو دہرانا نہ پڑتا۔
میری تعلیم اس طرح کے روایتی سسٹم کی طرح نہیں تھی۔
سکول ہم بہت خوشی سے جاتے۔
بستے تو ہوتے نہیں تھے۔
صرف لنچ باکس لے کر جاتے اور کتابیں اور کاپیاں وہیں پڑھ کر چھوڑ آتے۔
ہمیں سکول جانے کی جتنی خوشی ہوتی واپسی پر اتنی نہ ہوتی جبکہ یہاں الٹ ہے۔
وہاں ہمیں سنا جاتا،ہمیں بولنے دیا جاتا۔اپنی بات کہنے اور لکھنے کی اجازت تھی۔
مگر یہاں آکر ہمارا زیادہ وقت کلاس سے باہر ہی گزرتا تاکہ ہمیں اس طرح کے تعلیم سے چھٹکارا حاصل ہو جائے اور استاد بھی ایسے تھے کہ انکو پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہم کہاں ہیں!!

ہمارا سسٹم ایسا ہے جہاں صرف کاپی پیسٹ کا عمل جاری ہے ۔ پہلے سب کچھ کتاب سے کاپی کر کے کاپی پر لکھیں، اسکے بعد اسکو ویسے کا ویسا امتحان میں کاپی پر اتار دیں۔

اس میں تخلیق کی بجائے مہارت اور رٹے کی ضرورت رہی۔اب سوشل میڈیا پر بھی دیکھ کر اندازہ ہوا ،اچھا تو اس وقت کے لئے ہم سب کو تیار کیا جاتا ہے ، جہاں ایک کی پوسٹ دوسرے کاپی کر کے بس اپنے نام لگانی ہوتی ہے۔

مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم جب پاکستان میں تعلیمی پالیسی بناتے ہوئے ، آگے پیچھے ،دائیں بائیں نہیں دیکھتے، ہمارے ملک میں حکم دینا اور اس پر ماننا ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے میں ذہن کا عمل دخل اتنا نہیں جتنا مرضی ،پسند ناپسند کا عمل ہے۔کیونکہ تعلیمی پالیسیاں ماہر تعلیم نہیں بنا رہے ۔جس کے بارے میں پالیسی بنائی جاتی ہے، وہی اس میں شامل نہیں ہوتا ،کچھ پالیسیاں سیاسی جماعتوں اور کچھ سیاسی پسندیدگی کی نظر ہو جاتی ہیں ۔ اور جو رہی سہی کسر رہ جاتی ہے وہ اسکو نافذ کرنے کا اپنا طرز عمل ہے اور افرادی قوت ہے ۔ یہ بہت گہرا اور اوپری درجے کا راز ہے جو میری عقل سے بالاتر ہے۔!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے