دنیا کی کشش اور زیب وزینت…

عربی زبان میں دنیایا تو دُنُوْئَ ۃْ اوردَنَائَ ۃْ سے مشتق ہے، اس کے معنی ہیں: ”خسیس ہونا، کمینہ وذلیل ہونا‘‘یا ”دَنِیْئٌ‘‘ سے یا ”دُنُوٌّ‘‘ سے ماخوذہے، اس کے معنی ہیں: کسی چیز کے قریب ہونا، کیونکہ دنیا آخرت کے مقابلے میں قریب ترین ہے، الطاف حسین حالی نے کہا ہے:
دنیائے دَنی کو نقشِ فانی سمجھو
رودادِ جہاں کو اِک کہانی سمجھو
پر جب کرو آغاز کوئی کام بڑا
ہر سانس کو عمر جاودانی سمجھو

[pullquote]احادیثِ مبارکہ میں ہے [/pullquote]

(۱)”حضرت عبداللہؓ بن عمر بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھااور فرمایا: دنیا میں اس طرح (اجنبی بن کر)رہو کہ گویا تم مسافر ہو یا راستہ عبور کرنے والے (یعنی اسے اپنی مستقل قرارگاہ نہ سمجھو)، پھر عبداللہؓ بن عمر کہا کرتے تھے: جب تم شام کرلو تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب تم صبح کرو تو شام کا انتظار نہ کرواور اپنی تندرستی کے زمانے میں اپنی (ممکنہ )بیماری کے لیے کچھ پس انداز کر کے رکھو اور اپنی حیات سے اپنی موت (یعنی عاقبت )کے لیے کچھ تیاری کر کے رکھو‘‘ (صحیح البخاری:6416)،

(۲)”حضرت عبداللہؓ بن عباس بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے ایک شخص سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جانو: بڑھاپے سے پہلے جوانی کو، بیماری سے پہلے صحت کو، تنگدستی سے پہلے خوشحالی کو، کارِ معاش کی مشغولیت سے پہلے فراغت کو اور موت سے پہلے زندگی کو‘‘ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 7846)‘‘۔ یعنی صحت کے عالَم میں وہ سب اچھے کام کر گزرو، جن کی تمہیں بیماری لاحق ہونے پر خواہش پیدا ہو اور ایسے کام کرو جن کا نفع تمہیں آخرت میں ملے۔

[pullquote]رسول اللہﷺ نے آخرت کی ابدی نعمتوں کے مقابلے میں دنیوی نعمتوں کی ناپائیداری کا احساس دلانے کے لیے فرمایا [/pullquote]

(۱)”آخرت کے مقابلے میں دنیا کی نعمتیں ایسی ہیں جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے اورپھر دیکھے کہ تمہاری انگلی کو لاحق ہونے والی تراوٹ سمندر کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتی ہے‘‘ (صحیح مسلم:2858)۔ دوسری حدیث میں دنیا کی نعمتوں کی ناپائیداری کو ایک مثال سے واضح فرمایا

(۲)”حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ کا گزربکری کے ایک مردہ کن کٹے بچے کے پاس سے ہوا، آپﷺ نے صحابہ سے فرمایا: تم میں سے کوئی اسے ایک درہم قیمت میں لے گا، انہوں نے عرض کی: ہم اسے کسی بھی قیمت پر لینا پسند نہیں کریں گے، آپﷺ نے فرمایا:اللہ کے نزدیک (آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں دنیا کی نعمتیں )اس سے بھی زیادہ بے توقیر ہیں‘‘ (صحیح مسلم:2957)،

(۳)رسول اللہﷺ نے فرمایا:تم کو بشارت ہو اور اس چیز کی توقع کرو جو تم کو خوش کرے گی، پس اللہ کی قسم! مجھے تم پر فقر کا خوف نہیں ہے، لیکن مجھے تم پر خوف یہ ہے کہ تم پر دنیا کشادہ کردی جائے گی، جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی تھی، پس تم دنیا میں اس طرح رغبت کرو گے جس طرح انہوں نے رغبت کی تھی اور دنیا تم کو اس طرح ہلاک کردے گی جس طرح اس (دنیا) نے ان کو ہلاک کردیا تھا‘‘ (صحیح البخاری:4015)،

(۴)”کعبؓ بن عیاض بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:ہر امت کے لیے ایک آزمائش ہے اور میری امت کی آزمائش مال ہے‘‘ (سنن ترمذی: 2336)،

(۵)”حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے فرمایا: بنی آدم کو قیامت کے دن لایا جائے گا، وہ بھیڑ کے بچے کی طرح بے آبرو ہوگا، اُسے اللہ کے حضور کھڑا کردیا جائے گا، اللہ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا: میں نے تجھے زندگی، صحت وسلامتی اور عافیت عطا کی اور تجھے بے پناہ مال عطا کیا، تو تم نے اُس کا کیا کیا، وہ عرض کرے گا: پروردگار! میں نے اُسے جمع کیا اور اُسے بڑھایا اور پہلے سے زیادہ چھوڑ کر آیا، پس مجھے ایک بار دنیا میں بھیج دیجیے کہ میں وہ سب کچھ لے کر حاضر ہوجائوں، لیکن چونکہ اُس بندے نے قیامت کے لیے کچھ بھی آگے نہ بھیجا تو اُس مال سمیت اُسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا‘‘ (سنن ترمذی:2427)۔

(۶)”حضرت عبداللہؓ بن مسعود بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے فرمایا: ابنِ آدم سے قیامت کے دن پانچ سوال کیے جائیں گے: یہ کہ اُس نے اپنی زندگی کیسے گزاری، اپنے عالَم شباب کو کیسے ضائع کیا، اپنا مال کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیااور اپنے علم کے تقاضوں کے مطابق کس حد تک عمل کیا‘‘ (سنن ترمذی:2416)،

(۷)”حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے ایمان کے لیے خالص کردیا تو وہ فلاح پاگیا، اُس کے قلب کو اللہ نے (حسد، کینہ، بغض اور اخلاقِ ذمیمہ سے) محفوظ فرمادیااور اس کی زبان کو (اپنے قول وقرار میں ) صدق پر قائم رکھا اور اس کے نفس کو نفسِ مُطْمَئِنَّہْ بنایا(جس کی شان قرآنِ کریم میں یہ بیان کی گئی کہ وہ رب سے راضی ہوا اور رب اُس سے راضی ہوا)اور اُس کی فطرت کو(اِفراط وتفریط سے بچاکر) مستقیم بنایااور اس کے کانوں کو (پیغامِ حق کوتوجہ کے ساتھ) سننے والا بنایا اور اس کی آنکھوں کو (اَنفس و آفاق میں) اللہ کی قدرت کے دلائل کو دیکھنے والا بنایا‘‘ (شعب الایمان:108)۔

عام انسانی فطرت یہ ہے کہ جس چیز کی کثرت اور فراوانی ہوجائے، اُس سے طبیعت اُچاٹ ہوجاتی ہے، اُس کی خواہش ماند پڑنے لگتی ہے، لیکن دنیا کے مال وزر اور متاع واسباب کی، اس میں نعمتِ اقتدار بھی شامل ہے، جتنی کثرت ہوتی ہے، اتنی ہی اُس کی طلب بڑھ جاتی ہے اور حرص وہوس میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ ہم میں سے ہر ایک کا مشاہدہ ہے۔

[pullquote]اسی حقیقت کو احادیثِ مبارکہ میں بیان فرمایا: [/pullquote]

(۱)”حضرت عباس بن سہل بیان کرتے ہیں: میں نے عبداللہؓ بن زبیر کو مکۂ مکرمہ میں منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہے تھے: لوگو! نبیﷺ فرمایا کرتے تھے: اگر ابنِ آدم کو سونے سے بھری ہوئی ایک وادی دے دی جائے تو وہ دوسری وادی کی تمنا کرے گا اور اگر اسے دوسری وادی بھی دے دی جائے تو وہ تیسری وادی کی تمنا کرے گااور ابن آدم کے پیٹ کو کوئی چیز نہیں بھرے گی سوائے قبر کی مٹی کے اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے جو اس سے توبہ کرتا ہے‘‘ (صحیح البخاری:6438)،

(۲)”کعب بن مالک اپنے والد سے بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: دوبھوکے بھیڑیے بکریوں کے ایک ریوڑ میں چھوڑ دیے جائیں تو وہ اتنی بربادی نہیں کرتے، جتنا مال کی حرص وہوس اور جاہ کی طلب اُس کے دین کو برباد کرتی ہے‘‘ (سنن ترمذی: 2376)۔

ہمارے نظام میں، خواہ گزشتہ حکمران ہوں یا موجودہ، لوٹ مار کی داستانیں میڈیا پر آتی رہتی ہیں، ملک کو جاہل اور نادار لوگوں نے نہیں لوٹا، بلکہ اُن لوگوں نے لوٹا، جن کے پاس پہلے سے دولت کے انبار تھے اور آج اُن سے حساب طلب کیا جارہا ہے، مگر وہ دولت اُن کے کس کام کی جو نہ اُن کی عزت کی حفاظت کرسکے اور نہ نجات کا سامان بن سکے، اسی لیے احادیثِ مبارکہ میں اس کی طرف بار بار متوجہ فرمایا، رسول اللہﷺنے فرمایا:

(۱)”بندہ کہتا ہے میرا مال، میرا مال، اُس کے جمع کردہ مال میں اُس کا حصہ تو فقط تین چیزیں ہیں:ایک جو اُس نے کھالیا اور فنا ہوگیا، دوسرا جو اُس نے پہن لیا اور بوسیدہ ہوگیا یا وہ جو اُس نے اللہ کی راہ میں دیدیا اور وہ اس کے لیے ذخیرۂ آخرت بن گیااور جو کچھ اس کے سوا ہے، سو وہ سفرِ آخرت پر رواں دواں ہے اور آخر میں لوگوں (وارثوں) کے لیے چھوڑ جائے گا‘‘ (صحیح مسلم:2959)،

(۲) ”حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے فرمایا: بنی آدم کا صرف تین چیزوں میں حق ہے : رہنے کے لیے گھر، بدن چھپانے کے لیے لباس اور سامانِ خوراک‘‘ (سنن ترمذی:2341)،

(۳)حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں: آپﷺ نے فرمایا: ”میت کے ساتھ (قبر تک) تین چیزیں جاتی ہیں، اُن میں سے دو چیزیں قبر سے لوٹ آتی ہیں اور ایک چیز باقی رہ جاتی ہے، قبر تک ساتھ جانے والی یہ تین چیزیں اُس کے اہل، اس کا مال اور اس کا عمل ہیں، سو قبر کے کنارے سے اُس کے رشتے دار اورمال لوٹ آتے ہیں اور اس کا عمل باقی رہ جاتا ہے‘‘ (صحیح البخاری:6514)،

(۴)”حضرت عبداللہؓ بن مسعود بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کون ہے جس کے نزدیک اُس کے وارث کا مال اُس کے اپنے مال سے زیادہ محبوب ہے، صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک کو وارث کے مال کے مقابلے میں اپنا مال زیادہ محبوب ہے، تو آپﷺ نے فرمایا: پس تمہارا مال تو وہ ہے جو تم نے (آخرت کے لیے )آگے بھیجا اور جو کچھ پیچھے چھوڑا، وہ تو اس کے وارث کا مال ہے‘‘ (صحیح البخاری:6442)،

(۵)”حضرت سہلؓ بن سعد بیان کرتے ہیں: ایک شخص نبیﷺ کے پاس حاضر ہوااور عرض کی: یارسول اللہ! مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جب میں کروں تو اللہ بھی مجھ سے محبت فرمائے اور لوگ بھی مجھ سے محبت کریں، آپﷺ نے فرمایا:دنیا سے بے رغبتی اختیار کرو، اللہ تجھے محبوب بنالے گااور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے، اُس سے لاتعلق ہوجائو، لوگ تجھ سے محبت کریں گے‘‘ (سنن ابن ماجہ: 4102)۔

رسول اللہﷺ کا فقر اضطراری نہیں تھا، بلکہ اختیاری تھا، آپﷺ نے فرمایا: ”میرے رب نے مجھے اختیار دیا کہ وادیِ مکہ کو میرے لیے سونے کا بنادیا جائے، تو میں نے عرض کی: پروردگارِ عالَم! میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ایک دن میں سیر ہوکر کھائوں اور ایک دن بھوکا رہوں، پس جب میں بھوکا رہوں تو میں تیری بارگاہ میں گڑگڑا کردعائیں مانگوں اور تجھے یاد کرتا رہوں اور جب میں سیر ہوکر کھائوں تو تیری حمد بیان کروں اور تیرا شکر ادا کروں‘‘ (سنن ترمذی:2347)۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (۱) ”رہا جھاگ تو وہ (بے فیض ہونے کے سبب) بھَک سے اڑجاتا ہے اور جو چیز انسانوں کو نفع پہنچائے، تو اُسے زمین میں قرار ملتا ہے، اللہ تعالیٰ اسی طرح (چشمِ بصیرت کھولنے کے لیے) مثالیں بیان فرماتا ہے‘‘ (الرعد:17)، (۲) ”مال اوربیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں آپ کے رب کے پاس ازروئے ثواب اور امید کے بہت بہتر ہیں‘‘ (الکہف:46)، (۳) ”اے اہلِ ایمان! اللہ سے ڈرتے رہا کرو اورہر شخص سوچ لے کہ کل (صبحِ قیامت) کے لیے وہ کیا آگے بھیج رہا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تمہارے کرتوتوں سے خوب باخبر ہے‘‘ (الحشر:18)، (۴) ”جب آسمان پھٹ پڑے گااورجب ستارے جھڑجائیں گے اور جب سمندر بہادیے جائیں گے اور جب قبریں کھول دی جائیں گی (یعنی قیامت قائم ہوجائے گی) تو ہر شخص کو معلوم ہوجائے گا کہ اُس نے آگے (آخرت کے لیے) کیا بھیجا اور پیچھے (دنیا میں) کیا چھوڑا‘‘ (الانفطار:1تا5)۔

دنیا کی زیب وزینت کی کشش انسان کی کمزوری ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

(۵) ”لوگوں کے لیے دل پسند چیزوں یعنی عورتوں،بیٹوں، سونے چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانوں،نشان زدہ گھوڑوں، چوپایوں اور کھیتی کی محبت دلکش بنادی گئی ہے، یہ سب دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور اللہ کے پاس ہی بہترین ٹھکانا ہے‘‘(آل عمران:14)۔

(۶) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اورتلاوت کرو جو تمہارے رب کی کتاب تمہیں وحی ہوئی، اس کے کلمات کو کوئی تبدیل کرنے والا نہیں ہے اور آپ اس کے سوا ہرگز کوئی پناہ کی جگہ نہیں پائیں گے اور آپ اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ لازم رکھیں جو صبح اور شام اپنے رب کی رضا چاہتے ہوئے اس کی عبادت کرتے ہیں اور اپنی آنکھیں ان سے نہ ہٹائیں کہ آپ دنیاکی زندگی کی زینت کا ارادہ کرتے ہوں اور آپ اس شخص کا کہا نہ مانیں جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے، اس نے اپنی خواہش کی پیروی کی اور اس کا معاملہ حد سے بڑھ گیا اور آپ کہیے:حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، سو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے، بے شک ہم نے ظالموں کے لیے ایسی دوزخ تیار کی ہے جس (کے شعلوں) کی چار دیواری ان کا احاطہ کرے گی،اگر وہ فریاد کریں گے تو ان کی فریاد اس پانی سے پوری ہوگی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا، جو ان کے چہروں کو جلادے گا، وہ کیسا برا مشروب ہے اور وہ دوزخ کیساہی برا ٹھکانا ہے، بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے، یقینا ہم ان لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتے جنہوں نے نیک کام کیے ہوں، ان کے لیے دائمی جنتیں ہیں جن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں، انہیں وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے،وہ وہاں ریشم کے ہلکے اور دبیز سبز کپڑے پہنیں گے (اور) وہ وہاں مسندوں پر تکیے لگائے ہوئے ہوں گے، کیسا اچھا اجر ہے اور وہ جنت کیسی اچھی آرام کی جگہ ہے‘‘ (الکہف:27 تا31)۔

انسان کی ایک بشری کمزوری یہ ہے کہ وہ دنیا کی ناپائیدار چیزوں کو ابدی اور دائمی سمجھ لیتا ہے اور آخرت کی دائمی نعمتوں کو فراموش کردیتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور آپ انہیں دو مردوں کا قصہ سنائیے جن میں سے ایک شخص کو ہم نے انگوروں کے دو باغ عطا فرمائے تھے،جن کے چاروں طرف ہم نے کھجور کے درختوں کی باڑ لگادی تھی اور ان دونوں کے درمیان ہم نے کھیت پیدا کیے تھے، دونوں باغ خوب پھل لائے اور پیداوار میں کوئی کمی نہیں کی اور ہم نے ان کے درمیان دریا رواں کردیے تھے، جس شخص کے پاس پھل تھے، اس نے اپنے ساتھی سے بحث کرتے ہوئے کہا:”میں تم سے زیادہ مال دار ہوں اور میری افراد ی قوت بھی زیادہ ہے‘‘، وہ اپنی جان پر ظلم کرتا ہوا باغ میں داخل ہوا اور کہنے لگا: ”مجھے گمان نہیں کہ یہ باغ کبھی برباد ہوگا اور نہ مجھے اس پر یقین ہے کہ کبھی قیامت قائم ہوگی اور اگر(بالفرض) میں اپنے رب کی طرف لوٹایا بھی گیا تو میں ضرور ان باغوں سے بہتر پلٹنے کی جگہ پائوں گا، اس کے ساتھی نے اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا:”کیا تم اس ذات کا انکار کر رہے ہو جس نے تم کو مٹی سے بنایا، پھر نطفہ سے، پھر تمہیں مکمل مردبنایا، لیکن وہ اللہ ہی میرا رب ہے اور میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائوں گا اور ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم باغ میں داخل ہوئے تھے تو کہتے:

”جو اللہ نے چاہا وہ ہوا اور اللہ کی مدد کے بغیر کسی کی کوئی طاقت نہیں‘‘، اگر تم یہ گمان کرتے ہو کہ میں مال اور اولاد کے لحاظ سے تم سے کم ہوں، تو وہ دن دور نہیں کہ میرا رب مجھے تمہارے باغ سے بہتر عطا فرمائے اور تمہارے باغ پر آسمان سے کوئی عذاب بھیج دے تو وہ چٹیل چکنا میدان بن جائے یا اس کا پانی زمین میں دھنس جائے،پھر تم اس کو ہرگز تلاش نہ کرسکو اور اس شخص کے پھل (عذاب میں) گھیر لیے گئے اور اس نے اس باغ میں جو خرچ کیا تھا، وہ اس پر ہاتھ ملتا رہ گیا،وہ باغ اپنی چھپریوں پر گرا پڑا تھا اور وہ شخص کہہ رہا تھا:”کاش !میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہوتا‘‘اور اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی جو اللہ کے مقابلہ میں اس کی مدد کرتی اور وہ بدلہ لینے کے قابل نہ تھا، یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام اختیارات اللہ ہی کے پاس ہیں جو سچا ہے، وہی سب سے اچھا ثواب دینے والا ہے اور اسی کے پاس بہترین انجام ہے اور آپ ان کے سامنے کی زندگی کی مثال بیان کیجیے جو اس پانی کی مثل ہے، جس کو ہم نے آسمان سے نازل کیا تو اس کے سبب سے زمین کا ملا جلا سبزہ نکلا، پھر وہ سوکھ کر چورا چورا ہوگیا جس کو ہوا اڑا دیتی ہے اور اللہ ہرچیز پر قدرت رکھنے والا ہے، مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں آپ کے رب کے پاس ازروئے ثواب اور امید کے بہت بہتر ہیں‘‘ (الکہف28 تا 46)۔

ان آیات سے معلوم ہواکہ انسان دولت وجاہ کو اپنے لیے اللہ کی بارگاہ میں مقبولیت ومحبوبیت کا سبب سمجھ لیتا ہے اورکہتا ہے کہ اگر بالفرض قیامت قائم بھی ہوگئی، تو وہاں بھی میرے وارے نیارے ہوں گے، کیونکہ میں اللہ کا محبوب ہوں،لیکن انسان اس حقیقت کو فراموش کردیتا ہے کہ دولت وجاہ کبھی اللہ کا انعام ہوتا ہے اور کبھی اللہ کی طرف سے امتحان ہوتا ہے، سورۂ کہف کی ان آیات نے اس حقیقت کو واضح کردیا۔

نیز کوئی یہ بھی نہ سمجھے کہ دنیا میں کسی کا نادار ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے،ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے حبیبِ مکرّمﷺ کو فرمایاکہ آپﷺ اپنی نگاہِ عنایت کو غریبوں سے کبھی دور نہ کریں، ارشاد ہوا: ”اوران (نادار مسلمانوں) کو (اپنے سے) دور نہ کیجیے جو صبح وشام اپنے رب کی رضا چاہتے ہوئے اس کی عبادت کرتے رہتے ہیں، ان کا حساب بالکل آپ کے ذمہ نہیں ہے اور آپ کا حساب سرِ مو ان کے ذمہ نہیں ہے، پس اگر (بالفرض) آپ نے ان کو دور کردیا تویہ کام انصاف سے بعید ہوگا‘‘(الانعام:52)۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے: (۱) ”حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: بہت سے افراد پراگندہ حال نظر آئیں گے، لوگ انہیں اپنے دروازوں سے دھتکار دیں گے، (لیکن اللہ کی بارگاہ میں اُن کی مقبولیت کا عالَم یہ ہے کہ) اگر وہ اللہ کی قسم کھاکر کوئی بات کہہ دیں تو اللہ تعالیٰ انہیں قسم میں سچا ثابت فرماتا ہے‘‘ (صحیح مسلم: 2622)، (۲) ”مصعب بن سعد بیان کرتے ہیں: اُن کے والد سعد نے گمان کیا کہ انہیں (شجاعت اور سخاوت کی وجہ سے) اپنے سے کم تر لوگوں پر فضیلت حاصل ہے، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہیں جو نصرتِ الٰہی اور رزق کی کشادگی ملتی ہے، یہ کمزوروں کی دعائوں کی برکت سے ملتی ہے‘‘ (صحیح البخاری: 2896)۔

بعض اوقات انسان اپنے سے برتر لوگوں کو دیکھ کر احساسِ محرومی میں مبتلا ہوتا ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:(۱) ”تم میں سے جب کوئی مال اور صورت وشکل میں اپنے سے بہتر کو دیکھے، تو وہ اپنے سے کم تر لوگوں پر نظر ڈالے (تاکہ وہ اللہ کا شکر گزار بندہ بن سکے)‘‘(صحیح البخاری: 6490)، (۲) آپﷺ نے فرمایا: ”اپنے سے کمتر لوگوں کو نظر میں رکھو، اپنے سے برتر لوگوں کو للچائی ہوئی نظروں سے نہ دیکھو، اس شِعار سے تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی بے قدری سے محفوظ رہو گے‘‘ (صحیح مسلم:2963)، (۳) ”حضرت سہلؓ بن سعد بیان کرتے ہیں:رسول اللہﷺ کے پاس سے ایک شخص کا گزرہوا، آپﷺ نے صحابہ سے پوچھا:تم اس شخص کے متعلق کیا کہتے ہو، صحابہ نے عرض کی:یہ شخص اس لائق ہے کہ اگر یہ نکاح کا پیغام دے تو اسے قبول کیا جائے، اگر یہ کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش مانی جائے، اگر یہ کوئی بات کرے تو اس کی بات توجہ سے سنی جائے، حضرت سہل نے کہا:پھر آپ خاموش ہوگئے، پھر فقرائے مسلمین میں سے ایک شخص کا وہاں سے گزرہوا تو آپﷺ نے صحابہ سے پوچھا:تم اس شخص کے متعلق کیا کہتے ہو، صحابہ نے عرض کی:یہ شخص اس لائق ہے کہ اگر یہ نکاح کا پیغام دے تو اس کا نکاح نہ کیا جائے، اگر یہ کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش نہ مانی جائے، اگر یہ کوئی بات کرے تو اس کی بات نہ سنی جائے، تب رسول اللہﷺنے فرمایا:(تھوڑی دیر پہلے جس شخص کی تم تعریف کر رہے تھے) اگر اُس جیسے لوگوں سے زمین بھر جائے تو یہ ایک شخص اُن سب سے بہتر ہے‘‘ (صحیح البخاری:5091)۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”دنیا کی زندگی کی مثال محض اس پانی کی طرح ہے جس کو ہم نے آسمان سے نازل کیا تو اس کی وجہ سے زمین کی وہ پیداوار خوب گھنی ہوگئی جس کو انسان اور جانور سب کھاتے ہیں، حتیٰ کہ عین اس وقت جب کھیتیاں اپنی تروتازگی اور شادابی کے ساتھ لہلہانے لگیں اور ان کے مالکوں نے یہ گمان کرلیا کہ وہ ان پر قادر ہیں، تو اچانک رات یا دن کو ان پر ہمارا عذاب آگیا، پس ہم نے ان کھیتوں کو کٹا ہوا (ڈھیر) بنادیا جیسے کل یہاں کچھ تھا ہی نہیں، غوروفکر کرنے والوں کے لیے ہم اسی طرح آیتوں کو وضاحت سے بیان کرتے ہیں‘‘ (یونس:24)۔ (ختم)

بشکریہ دنیا نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے