ملٹی میڈیا کے کرشمے

انٹرنیٹ کا دور ہے، دل لگی بھی انٹرنیٹ پر ہورہی ہے، ایک طرف دل شاد کام رہتا ہے، دوسری طرف نظریں دوچار رہتی ہیں ۔ رابطوں کے ذرائع ایسے زبردست ہیں کہ آن کی آن میں محبوب قدموں میں تو نہیں ہاتھوں میں پکڑے فون کی سکرین پر جلوہ گر ہوتے رہتے ہیں۔ انسٹا سٹوری پر نہیں تو وٹس ایپ سٹیٹس پر، نہیں تو انباکس بھی موجود ہے ۔ اور اگر کوئی کھلا ڈلا محبوب مل جائے تو ٹک ٹاک تو ہے ہی ۔

اس نئے دور میں مسائل بھی ٹرینڈ ہیں اور محبت بھی، دل ٹوٹا بھی اداکاری ہے، اور اداکاری بھی محبت، لیکن ثانوی سے جذبے ہیں اور رشتوں میں بھی ٹیگ موجود ہے، ٹیگ ہے تو تعلق نہیں تو بلاک کا آپشن ہمیشہ کھلا ہی رہتا ہے، جہاں رشتے سٹوری کی طرح چل چل کر کچھ دیر کے بعد بوریت کا افسانہ بن جاتے ہیں، اور ایک پر ایک خوبرو چہرہ بے پردہ سکرین پر نمودار ہوتے رہتے ہیں، ٹرینڈ بدلتا ہے تو محبوب، مسائل کا ادراک ٹرینڈ سے ہوتا ہے، اور ٹرینڈ کے ساتھ ہی دم توڑ دیتا ہے ۔

ہر چیز پیدا ہوتی ہے یا کی جاتی ہے، اور پھر اپنے آپ مر جاتی ہے ۔ مرنے سے پہلے جیسے تھوڑا سا زندہ رہتے ہیں، ویسے ٹک ٹاک پر بڑے سے بڑا مسئلہ چھوٹا، ٹویٹر پر چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ بڑا محسوس ہوتا ہے، ہر طرف مارا ماری ہے اور ہر طرف تصویروں کی قلم کاری ہے، خبر سے زیادہ کیپشن بکتے ہیں، اور کیپشن سے زیادہ تصویر، سوشل میڈیا پر ہر طرف تخلیق کاروں کی جھڑی ہے، پرانے تخلیق کار پرانے جو ٹہرے، دم بہ دم بیٹھے حالات سینک رہے ہیں، اشفاق احمد، مستنصر حسین تارڑ کو ان کی جوانی اور بڑھاپے میں نظر انداز کرنے والے اب دھڑا دھڑ ان کی باتیں بتا رہے ہیں اور جو ابھی اشفاق ہیں اور بانو قدسیہ ہیں وہ نظر انداز ہیں، کسی کے احساس کو، کسی کی پیاس کو، کسی کے دکھ، کسی کی آس کو مرنا ضروری ہے، اور موت آتی ہے مگر نہیں آتی۔

جہاں سے گزریں تصویریں لیتے چلیں، چلتے چلتے تصویریں بنیں اور بنتے بنتے قافلے چلیں ۔ ایسے میں لفظوں کی مارا ماری کون پڑھے، لہجے بھی احساس سے عاری ہیں ۔ عورت کے حقوق کے نعرے آج سے پہلے اتنے بلند نہ تھے، یہ بھی اسی سوشل میڈیا کی فیاضی ہے، لیکن پردے کی عورت آج اداکاری ہے ۔ ایسے میں عورت کے مسائل کون سنتا کون سناتا، مسکارے کا غبار، لپ سٹک کی بیوپاری ہے۔

مرد سب کا دشمن یہی مارا ماری ہے، لیکن معاشرے سے اعتدال کھو گیا، کہتے ہیں کہ برداشت گئی، اعتماد بھی نہیں رہا، صبح کے دوست شام کے دشمن اور شام کے دوست صبح دشمن ہوئے جاتے ہیں۔ کمپنیوں کی بولیاں ہیں، واعظوں کی ٹولیاں ہیں، علم ناپید ہورہا ہے، اور عوام کو شعور دینے والا مکتب کہیں پہ رورہا ہے ۔ ایسا اعلیٰ تعلیم کا حصول انگلینڈ جیسا، ہمارے محلے میں کھل گیا ہے ، سکول ایسا کہ تعلیم بھی موئے سوشل میڈیا سے مل رہی ہے ۔۔ اور گھڑی کو دیکھو اب بھی ہل رہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے