بچے کو پڑھائی زہر لگتی ہے؟ اُسے بتائیں آپ اُس کا مسئلہ منٹوں میں حل کر سکتے ہیں ۔۔۔ کیسے؟

زرا سی نیت ہو، آؤٹ آف باکس تِھنکنگ ہو، سوچ ہو، شمولیت، خلوص، اور ذرا سا تردّد تو آپ اپنے بچے کا اسکول والا اکیڈیمک سفر خوشگوار بنا سکتے ہیں۔

بیشتر بچے پڑھائی میں کمزور یا اوسط درجہ چلا کرتے ہیں۔ ذہین، سمجھدار، خوبیوں والے مگر نصابی کتابیں اِنہیں زہر لگتی ہیں۔ بس اوسط درجہ ہاتھ پاؤں مار کر پاسِنگ گریڈز ہتھیا لیتے ہیں، اور کسی طور گاڑی گھسیٹتے رہتے ہیں۔

اگر آپ اِن کی نفسیات پر چھائے نادیدہ وزن یا بوجھ کا اندازہ لگائیں تو ایک دن میں اِن کے حصّے کا اصل وزن بنتا تو 5 کلو ہے مگر شومئیِ قسمت یہ اُس سے کئی گنا وزن اُٹھائے ہوتے ہیں۔

اصلی والے پانچ کلو وزن کو آپ 50 سے ضرب دے ڈالیں۔ یہ رہا 250 کلو وزن! یقین جانیں، آپ کا بچہ صبح و شام اپنے ننّھے دماغ پر ناحق 250 کلو وزن کی بوری اُٹھا ئے پھرتا ہے:

1۔ اساتذہ کی نظروں میں average اور below average طالبِ علم ہونے کا تاثر۔ بس گذارا ٹائپ ہونے کا ٹائٹل، زیادہ ذہین نہ ہونے، یا زیادہ محنتی نہ ہونے کا کربناک تاثر جو اُس کے اعتمادِ ذات کو کچلے دیتا ہے۔

2۔ والدین کی نظروں میں پڑھائی سے بھگوڑا، کام چور، نالائق، کُند ذہن

3۔ اپنے فیلوز کے ساتھ پڑھائی اور گریڈز کے اعتبار سے موازنہ و مسابقت کا احساس ۔ اُن سےکم تر ہونے اور مسلسل ایسا رہنے کی ٹینشن

سچ کہوں تو دوچار بچوں کے سِوا کوئی بچہ اسکول تک تحصیلِ علم کے شوق میں نہیں آتا۔ بلکہ اِن سینکڑوں، ہزاروں بچوں میں سے ہر ہر بچہ، ہر روز، صبح بستر چھوڑنے سے لے کر رات بستر پر دراز ہونے تک فقط ایک شے کی تلاش میں رہتا ہے، اور وہ ہے اپنے حق میں taste of accomplishment ۔

یعنی؟ آپ کا بچہ اپنے حق میں تحسین بھری گواہی کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے۔ بھلے وہ تحسین کھیل کے میدان میں ہو، کمرہِ جماعت میں پڑھائی، ٹیسٹ کی صورت میں، یا اُسے یہ اعتمادِ ذات کسی ہم نصابی سرگرمی میں شمولیت کی صورت نصیب ہو۔ یہ بچہ اپنے حق میں، ہر روز، کچھ ایسا سننا چاہتا ہے:

بھئی واہ، عبداللہ نے کیسی عمدہ چھلانگ لگائی، اور گرا بھی نہیں!

بھئی واہ، سلمان نے دو کھلاڑیوں کو ڈاج کرائی اور گول تک جا پہنچا!

بھئی واہ، حذیفہ نے سائنس کا ٹیسٹ سب سے پہلے ختم کیا!

بھئی واہ، عمر کو ریاضی کا سوال فوراً سمجھ میں آ گیا!

بھئی واہ، عائشہ نے کیسی عمدہ ریڈنگ کی!

یہ ” تمغہِ حُسنِ کارکردگی” اُسے اسکول دینے سے تو رہا۔ تیس، چالیس، پچاس طلباء کی کلاس میں کوئی اُستاد دے بھی کیسے سکتا ہے؟

تاہم، ایک صورت ممکن ہے، اور وہ ہے والدین کا کردار، والدین کی شمولیت۔آپ کیسے مدد کر سکتے ہیں؟

پھر دوہرا دوں، جس بچے کو پڑھائی زہر لگتی ہے، اُسے بتائیں آپ اُس کا مسئلہ منٹوں میں حل کر سکتے ہیں۔ کیسے؟

فرض کرتے ہیں، آپ کا بچہ گریڈ 6 میں ہے، اور سائنس ایک مشکل مضمون ہے (چونکہ تعلیمی اداروں میں سائنس کو محض ایک نصابی کتاب سمجھ لیا گیا ہے، رَٹا مار مار امتحان پاس کرنے کا ذریعہ ــــــ نہ کہ رنگا رنگ تجربات کرنے، سوالوں کے جواب کھوجنے، تلاشنے، کچھ کرئیٹ کرنے اور نتائج اخذ کرنےکا ایک دلچسپ ‘عمل’ جو بچے کو قدم قدم کچھ achieve کر جانے کی خوشی دلا سکتا ہے)۔

آپ اس کی کتاب کھولیں، یا گوگل کر لیں:

Grade 6 Science Topics List
لکھ کر۔

آپ جلد ہی جان جائیں گے کہ اِس درجہ پر آپ نے بچے کو درج ذیل عنوانات پر آگاہی دینی ہے۔ اِن کی تعداد 8 ہے:

Objects in Space
Forces and Movement in Space
Force and Motion
Newton’s Laws and Energy
Electricity and Magnetism
Earth Systems
Rocks and Minerals
Plate Boundaries and Movement

جبکہ نصابی کتاب اندر اِنہیں 10 یونٹس میں پھیلا کر 10 عدد چیپٹرز میں ڈھال لیا جاتا ہے۔ موٹی موٹی انگریزی میں لکھا بَلڈی بورِنگ سَٹف! چلیں یہ بھی ٹھیک ہو گیا۔

اب پہلی بات، آپ بچے سے اِس فہرست کی ایک ریڈنگ کرائیں، اور خود کریں۔

دوسری بات، آپ پہلے والے ٹاپک کے الفاظ یوٹیوب کی سَرچ بار میں لکھ دیں۔ جواباً بیسیوں ویڈیوز ظاہر ہوں گی۔ آپ یوٹیوب پر گریڈ 6 سائنس بھی لکھ سکتے ہیں۔ یا ہر چیپٹر کے اندر ضمنی عنوانات ہوا کرتے ہیں۔ اُن کے الفاظ فرداً فرداً لکھے جا سکتے ہیں۔ جواباً ہر موضوع پر بیسیوں ویڈیوز ملیں گی۔ اِن میں سے قدرے آسان والی ویڈیوز منتخب کر لیں، اور ٹارگٹ یہ ہو کہ ہمیں جاننا ہے آخر اس موضوع پر اِس ویڈیو میں کیا کچھ کہا گیا ہے۔

تیسری بات، آپ بچے کی مدد کرنے چلے ہیں۔ آپ اندر اتنا صبر ہونا چاہئیے کہ ایک پوری ویڈیو ساتھ بیٹھ کر دیکھ ڈالیں۔

چوتھی بات، وقفے وقفے سے ویڈیو کو pause کریں اور بات چیت کریں، یا چھوٹے چھوٹے سوالات کرتے جائیں۔ درست جواب ملنے پر تحسین سے نوازیں۔

پانچویں بات، ضروری نہیں آپ خود عالم فاضل ہوں تب ایسا ممکن ہے۔ یہ ویڈیوز اردو، انگریزی ہر زبان میں دستیاب ہیں۔ نیز، کچھ آپ کی سمجھ میں آئے گا تو باقی بچہ صاحب کی سمجھ میں۔

چھٹی بات، ویڈیو کے اختتام پر بچے سے کہیں تمام نکات کا خلاصہ بتائے۔ وہ یقیناً بتائے گا چونکہ دورانِ ویڈیو واچِنگ ہر نکتے پر پہلے سے بات ہو چکی۔

ساتویں بات، ایک پورے چیپٹر برابر دو تین ویڈیوز دیکھ چکنے کے بعد اب سلیبریٹ کریں، تحسین دیں۔ کسی پھپھو، آنٹی، چچا، ماموں وغیرہ کو بتا کر واٹس ایپ پر حیرت کا اظہار کروائیں وغیرہ۔

بچے کو لگے کہ سَمتِھنگ غیرمعمولی achieve کر لیا گیا ہے۔ حتٰی کہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کے مطابق بچے کی سائنس ٹیچر سے رابطہ کر کے تحسین دلائیں۔

[pullquote]آٹھویں بات، بچے کو لکھنے سے چِڑ ہے؟ [/pullquote]

نو پرابلم۔ آپ اُسے بتائیں کہ سارا نالج اب آپ کے پاس ہے۔ اصل کام تو یہی تھا۔ البتہ بس ایک صفحے پر اس کے پوائنٹس لکھنا ہیں جو آپ اپنی ٹیچر کو دکھائیں گے۔ بلکہ یہ بات بچے کی ٹیچر سے کہلوائیں۔ کچھ اِس طرح:

"واؤ عمر، کمال کر دیا بھئی! لیکن یہ بھی تو دیکھنا ہے کہ آپ نے جو لَرن کیا، اس کے پوائنٹس لکھ کر لا سکتے ہیں یا نہیں۔ صرف پوائنٹس!”

اب آپ خود ہی بتائیں، کیا یہ ممکن ہے کہ ایسی تحسین کے بعد بچہ لکھنے پر آمادہ نہ ہو؟ آپ دیکھیں گے کہ بچے کا جوش و خروش عروج پر ہو گا۔

نویں بات، ضروری نہیں اگلے چیپٹر کی ساری ویڈیو آپ کو پاس بیٹھ کر دیکھنا ہے اور اتنی ہی اِنوالومنٹ دینی ہے۔ بلکہ یہ کام بس شروع کروانا ہوگا، اور گاڑی چل پڑے گی۔

دسویں بات، بتدریج حوصلہ و صبر کے ساتھ بچے کو ہر چیپٹر کے ٹاپِکس پر ویڈیوز دکھا کر نصابی مواد ختم کر دیں۔ پہلا چیپٹر مکمل ہو جائے تو ہوا میں مُکّا لہر کر اعلان کریں:

We are going to finish this book in just seven days … by watching about 15 to 20 videos.

آپ یقین جانیں، کُل ملا کر یہ کام پانچ سے چھ گھنٹوں کا بنتا ہے۔ کوئی ویڈیو دس منٹ کی تو کوئی پندرہ منٹ کی۔

[pullquote]اب ایک اور بات۔[/pullquote]

اس بچے کو بتائیں "ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہر ٹاپک پر آپ کا نالج مکمل ہو۔ اچھے گریڈز ہمیں نہیں چاہئیں۔”

[pullquote]یہ کہہ کر آپ نے دوکام کر دئیے:[/pullquote]

اوّل، آپ نے بچے کے دل و دماغ اور نفسیات پر لدی 250 کلو وزنی بوری اُتار لی ہے۔

دوم، آپ نے اپنے بچے کو taste of accomplishment عطا کر دیا ہے۔ اُسے اعتمادِ ذات سے نواز دیا ہے۔

[pullquote]اب ایک کام اور کریں۔ سب سے زیادہ ضروری![/pullquote]

سائنس کی کتاب اِس طور کوَر کرانے کے ساتھ ساتھ آپ خفیہ طور ایک تحریری کوئز تیار کرتے رہیں۔ مختصر جوابات والا کوئز! بےترتیب انداز میں یہ سوالات آپ بچے سے پوچھتے رہیں تا کہ اُسے اِن کے جوابات ازبر ہو جائیں۔ تمام ٹاپِکس کور ہو چکیں تو یہ کوئز آپ بچے کی سائنس ٹیچر کے سپرد کر دیں۔ اُس سے درخواست کریں کہ دو چار روز بعد کسی خالی پیریڈ میں، یا کوئی بھی موقع دیکھ کر، صرف دس منٹ کے لیے، آپ کے بچے کو سب کے سامنے کھڑا کر کے یہی سوالات سرپرائز ٹیسٹ کے بطور اُس سے پوچھے۔

جب آپ نے ایسی منفرد کوشش کی ہے تو یہ آپ کے بچے کا حق ہے۔

آپ دیکھیے گا، اِس بچے کی خوشی کا عالم کیا ہو گا۔ ٹیچر کوئز کے درست جوابات دئیے جانے پر سب کے سامنے اعلان کرے کہ اصل چیز تو ہر ٹاپک پر نالج رکھنا ہے جو اِس نے کر دکھایا ۔۔۔ اَیپلاز! ۔۔۔ اور کوئی چھوٹا موٹا انعام بھی دے ڈالے۔

یعنی کسی طور غیر محسوس انداز میں یہ ڈرامہ ارینج کروائیں۔

یہی فارمولہ دیگر مضامین کے لیے آزمایا جا سکتا ہے۔

رہے نام نہاد گریڈز اور اچھے اداروں میں داخلے کا لالچ اور اکیڈیمک اَچیومنٹس، تو یہ آپ اپنے دوسرے بچوں پر چھوڑ دیں، اور دنیا میں دیگر مقامات پر پائے جانے والے دیگر بچوں پر ــــ جو ذرا پڑھاکو ٹائپ واقع ہوئے ہیں۔

اور بعید نہیں، عملی زندگی میں اِسی بچے کا گراف آف اَچیومنٹ سب سے زیادہ ہو۔

ذرا گھر سے باہر والے منظر پر ایک نگاہ کریں۔ میٹرک فیل بچوں نے پلازے کھڑے کر دئیے ہیں۔ بڑے بڑے ہوٹل، ریستوران، اور ڈیپارٹمنٹل سٹورز کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ ملکوں ملکوں گھوم کر جانے کیا کچھ اٹھا کھڑا کیا ہے۔ میگا پراجیکٹس لگا دئیے ہیں، اور

It’s an interesting irony

کہ کل کے اے گریڈ ہولڈرز آج اپنے CV پالش کر کر اِنہی اَیوریج طلباء کے ہاں جاب انٹرویوز کے لیے بھاگے جا رہے ہیں۔

آج کے لیے اتنا ہی سبق۔۔۔۔ بہت دعائیں!
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے