حیوانات کے ساتھ حسنِ سلوک…(مکمل کالم)

زمین پر حیوانات کا وجود انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ یہ بندوں پر اس کا بڑا فضل ہے کہ اُس نے چھوٹے بڑے ہر جانور کو اُن کے تابع کر دیا ہے۔ حیوانات کے ساتھ انسانوں کی بہت سی ضروریات وابستہ ہیں، ان کی اہمیت و ضرورت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور اس نے تمہارے لیے جانور پیدا کیے، ان میں تمہارے لیے گرم لباس اور بہت سے فائدے ہیں اور ان میں سے بعض کو تم (بطورِ غذا) کھاتے ہو اور تمہارے لیے ان میں زینت ہے، جب تم انہیں شام کو واپس لاتے ہو اور جب چرنے کے لیے چھوڑتے ہو اور وہ چوپائے تمہارے بوجھ اٹھا کر ایسے شہر تک لے جاتے ہیں جہاں تم اپنی جان کو مشقت میں ڈالے بغیر نہیں پہنچ سکتے۔ بیشک تمہارا رب نہایت مہربان‘ رحم والا ہے اور (اس نے) گھوڑے اور خچر اور گدھے (پیدا کیے) تاکہ تم ان پر سوار ہو اور یہ تمہارے لیے زینت ہے اور (ابھی مزید) ایسی چیزیں پیدا کرے گا جو تم جانتے نہیں‘‘۔ (النحل: 5 تا 8) حیوانات کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم میں تقریباً تیس سے زائد حیوانات کا تذکرہ موجود ہے اور صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ پانچ سورتیں خاص حیوانات کے نام سے موسوم ہیں: سورۂ بقرہ (گائے)، سورۂ نحل (شہد کی مکھی)، سورۂ نمل (چیونٹی)، سورۂ عنکبوت (مکڑی)، سورۂ فیل(ہاتھی)، اس کے علاوہ تقریباً دو سو آیات میں حیوانات کا تذکرہ موجود ہے۔

اسلام سلامتی کا مذہب ہے اور سلامتی کی یہ نوید صرف انسانوں کے لیے نہیں بلکہ جانوروں اوردرختوں کے لیے بھی ہے۔ دینِ اسلام نے انسانوں کی طرح حیوانات کے حقوق بھی معین کیے ہیں، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے اور بلاوجہ اُنہیں اذیت و تکلیف میں مبتلا کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ حیوانات کے ساتھ نیکی کرنے کی اہمیت کا اندازہ حسبِ ذیل احادیث سے لگایا جا سکتا ہے:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”ایک بدکار عورت کا گزر ایسے کنویں پر ہوا جس کے قریب ایک کتا کھڑا پیاس کی شدت سے ہانپ رہا تھا اور قریب تھا کہ وہ پیاس کی شدت سے ہلاک ہو جائے، کنویں سے پانی نکالنے کو ڈول وغیرہ کچھ نہیں تھا، اس عورت نے اپنا چرمی موزہ نکال کر اپنی اُوڑھنی سے باندھا اور پانی نکال کر اس کتے کو پلایا، اس عورت کا یہ فعل بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوا اور اس کی بخشش کر دی گئی‘‘۔ (مسلم: 2245)۔ اندازہ لگائیں کہ بدکاری کتنا سنگین اور بڑا گناہ ہے، خصوصاً جب عادت اور پیشے کے طور پر ہو، لیکن اتنے بڑے گناہ کو اللہ تعالیٰ نے فقط ایک جانور کے ساتھ نیکی کرنے کی وجہ سے معاف فرما دیا اور نیکی بھی اس جانور کے ساتھ کہ جسے بعض اہلِ علم نے نجس العین قرار دیا ہے اور نبی کریمﷺ نے اس کے جوٹھے برتن کو تین یا سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا ہے۔

اسی مفہوم کی ایک اور حدیث میں فرمایا: ” ایک شخص کہیں جا رہا تھا، را ستے میں اُسے سخت پیاس لگی تو وہ ایک کنویں میں اُترا اور اس سے پانی پیا، جب وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی وجہ سے ہانپتے ہوئے گیلی مٹی چاٹ رہا ہے، اس شخص نے دل میں سوچا : (تھوڑی دیر پہلے) جس طرح پیاس کی شدت مجھے اذیت پہنچا رہی تھی، یہ کتا بھی اِسی طرح اذیت و تکلیف کا شکار ہے، پس (وہ کنویں میں اترا) اس نے اپنا موزہ پانی سے بھرا اور اسے منہ میں لے کر باہر آیا اور کتے کو پانی پلایا، اللہ تعالیٰ نے اس کی اس نیکی کی قدردانی فرماتے ہوئے اس کی بخشش فرما دی۔ صحابہ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! کیا ہمیں چوپایوں کی خدمت کرنے میں بھی اجر ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: ہر ذی حیات (جاندارکو نفع پہنچانے) میں اجر و ثواب ہے‘‘ (بخاری: 2363)۔ ایک شخص نے نبی کریمﷺ سے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! میں اپنے اُونٹوں کو پانی پلانے کے لیے اپنے حوض میں پانی بھرتا ہوں، کسی دوسرے شخص کا اُونٹ آ کر اس میں سے پانی پیتا ہے توکیا مجھے اس کا اجر ملے گا؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا:ہر ذی حیات (کو نفع پہنچانے) میں اجر و ثواب ہے‘‘ (مسند احمد: 7075)۔

اسلام نے ایک طرف حیوانات کے ساتھ حسنِ سلوک کو اجر و ثواب کا ذریعہ قرار دیا ہے تو دوسری طرف ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے اور اُنہیں اذیت و تکلیف میں مبتلا کرنے کو گناہ اور عذاب و عقاب کی وجہ قرار دیا ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ”نبی کریمﷺ نے فرمایا: ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کیا گیا، اس نے ایک بلی کو پکڑ کر قید کر لیا تھا، یہاں تک کہ وہ بھوک سے مرگئی، یہ عورت نہ توخود اُسے کھانے کو کچھ دیتی تھی اور نہ اُسے چھوڑتی تھی کہ حشرات الارض سے اپنی غذا حاصل کر لیتی‘‘۔ (بخاری: 3318)

حیوانات کو بلاوجہ جسمانی اذیت و تکلیف میں مبتلا کرنے کی ممانعت ایک طرف‘ نبی کریمﷺ نے تو حیوانات کو سَبّ وشتم کرنے اور اُن پر لعنت کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ”نبی کریمﷺ ایک سفر میں تھے، پس آپﷺ نے کسی پر لعنت بھیجنے کی آواز سنی، پوچھا: کیا معاملہ ہے؟ صحابہ نے عرض کی: فلاں عورت ہے، جس نے اپنی سواری کے جانور پر لعنت کی ہے۔ یہ سن کر نبی کریمﷺ نے فرمایا: اس جانور سے کجاوہ اور سامان اُتار دو، بلاشبہ یہ اب ملعونہ ہے؛ چنانچہ صحابہ نے اس سے سامان اُتار کر اُسے چھوڑ دیا۔ عمران کہتے ہیں: وہ ایک سیاہی مائل اونٹنی تھی‘‘ ( ابودائود: 2561)۔ حضرت زیدؓ بن خالد بیان کرتے ہیں: ”ایک شخص نے مرغے کی اونچی آواز پر اُسے لعنت کی، آپﷺنے فرمایا: اِس پر لعنت مت کرو، یہ تمہیں نماز کے لیے بیدار کرتا ہے‘‘ (مسند احمد: 17034)۔

لعن کے لغوی معنی ہیں: ”ہانکنا، محروم کرنا اور ذلیل کرنا‘‘، جب لعنت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے: اللہ تعالیٰ کا اپنے قرب اور اپنی رحمت سے محروم کردینا اور جب اس لفظ کی نسبت بندے کی طرف ہو تو اس سے مراد ہوتا ہے: ”رحمت الٰہی سے دوری و محرومی کی بددعا کرنا‘‘۔ کسی ایسے شخص پر لعنت کرنا جو لعنت کا مستحق نہ ہو‘ سخت گناہ ہے اور بار بار لعنت کرنا تو گناہ کبیرہ ہے۔ اہلِ علم و فقہائے کرام فرماتے ہیں: کسی معین شخص پر لعنت کرنا حرام ہے؛ اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ ہاں! اگر کسی شخص کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو کہ وہ کفر ہی کی حالت میں مر گیا ہے جیسے ابوجہل وغیرہ تو اس پر لعنت کرنا حرام نہیں ہے۔ اسی طرح کسی برائی میں مبتلا لوگوں پر عمومی انداز میں لعنت کرنا جیسے یہ کہنا :” کافر یا ظالم یا قاتل یا زانی یا سود خور اور جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہو‘‘، یہ حرام نہیں ہے، نبی کریمﷺ نے فرمایا: ”مومن طعنہ دینے والا، لعنت کرنے والا، بے حیا اور بدزبان نہیں ہوتا‘‘ (ترمذی: 1977)۔ انسان اور حیوانات تو رہے اپنی جگہ‘ نبی کریمﷺ نے جمادات اور غیر جاندار چیزوں پر بھی لعنت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت عبداللہؓ بن عباس بیان کرتے ہیں: ”ایک شخص نے آندھی پر لعنت کی تو نبی کریمﷺنے فرمایا: آندھی پر لعنت نہ بھیجو، کیونکہ وہ تو (اللہ کے) حکم کی پابند ہے اور جس شخص نے کسی ایسی چیز پر لعنت بھیجی جو لعنت کی مستحق نہیں ہے تو لعنت اسی پر لوٹ آتی ہے‘‘ (ترمذی: 1978)۔

کئی لوگ بے زبان جانوروں پر اُن کی طاقت سے زیادہ بوجھ لاد دیتے ہیں، جس کی وجہ سے اُنہیں چلنے میں شدید دشواری اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ زیادہ وزن رکھنے سے اُن کی کمر زخموں سے چور ہو جاتی ہے۔ سنگدلی اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ اُنہیں تیز چلانے اوردوڑانے کے لیے اُن پر ڈنڈے برسائے جاتے ہیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بعض جانور وں کو اللہ تعالیٰ نے نقل و حمل یعنی بوجھ اٹھانے کا ذریعہ بنایا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ لاد دیا جائے۔ نبی کریمﷺ نے اس سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ آپﷺ نے ایک جانور پر تین آدمیوں کو سوار ہونے سے منع فرمایا ہے۔ ( مسلم: 2427) امام شعبی نے تین لوگوں کو ایک خچر پر سوار دیکھا تو فرمایا: ” تم میں سے ایک شخص اُتر جائے، کیونکہ رسول اللہﷺ نے تیسرے شخص پر لعنت فرمائی ہے۔ (مصنف ابن ابی شبیہ: 26376)۔ حضرت سہلؓ بن حنظلہ بیان کرتے ہیں: ”رسول کریمﷺ ایک اونٹ کے قریب سے گزرے تو دیکھا کہ بھوک و پیاس کی شدت اور سواری وبار برداری کی زیادتی سے اس کی پُشت اس کے پیٹ سے لگ گئی تھی، نبی کریمﷺ نے فرمایا: ان بے زبان چوپایوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، ان پر ایسی حالت میں سواری کرو جب وہ طاقتورہوں اور سواری کے قابل ہوں اور اُنہیں اچھا کھلائو‘‘ (ابودائود: 2548)۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: ”ایک دن نبی کریمﷺ کسی انصاری کے باغ میں داخل ہوئے، اچانک ایک اُونٹ آیا اور آپﷺ کے قدموں میں لوٹنے لگا، اس وقت اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ نبی کریمﷺ نے اس کی کمر اور سر کے پچھلے حصے پر ہاتھ پھیرا، جس سے وہ پُرسکون ہو گیا۔ پھر نبیﷺنے فرمایا: اس اُونٹ کا مالک کون ہے؟ تو وہ دوڑتا ہوا آیا، آپﷺ نے اس سے فرمایا: اس کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری ملکیت میں دیا ہے، اللہ سے ڈرتے نہیں؟ یہ مجھ سے شکایت کر رہا ہے کہ تم اِسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے محنت و مشقت کا کام زیادہ لیتے ہو‘‘ (ابودائود: 2549)۔

آپﷺ نے طویل سفر کے دوران جانوروں کو آرام دینے اور اُنہیں چرنے پھرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: ”جب تم سبزہ والی زمین میں سفر کرو تو اونٹوں کو ان کا حصہ دو‘‘ (مسلم: 1926)، یعنی سفر کے دوران اگر ہریالی نظر آئے تو ان کو کچھ دیر کے لیے چرنے اور آرام کا موقع دو، بھوکا اور پیاسا مسلسل چلا کر ان کو نہ تھکائو، بلکہ جس جانور کی خلقت سواری اور بار برداری کے لیے نہیں ہوئی جیسے گائے اور بھینس وغیرہ تو ان پر سواری کرنا اور بوجھ لادنا جائز نہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”ایک آدمی بیل پر بوجھ ڈالے ہوئے اُسے ہانک رہا تھا کہ اس بیل نے اس آدمی کی طرف دیکھ کر کہا: میں اس کام کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہوں، بلکہ مجھے تو کھیتی باڑی کے لیے پیدا کیا گیا ہے، لوگوں نے حیران ہوکر کہا: سبحان اللہ!کیا بیل بھی بولتا ہے؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں تو اس بات پر یقین کرتا ہوں اور ابوبکرؓ اور عمرؓ بھی یقین کرتے ہیں۔ (مسلم: 2388)، اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جانوروں پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ لادنا اور جس مقصد کے لیے ان کی تخلیق ہوئی ہے، اس کے علاوہ دیگر کاموں میں اُنہیں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

انسان کو فطری طور پر اپنی اولاد کے ساتھ محبت ہوتی ہے۔جس طرح یہ محبت اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں ودیعت فرمائی ہے ‘ اسی طرح یہ جذبہ جانوروں کو بھی عطا کیا ہے۔ بعض طاقتور جانور تو اولاد کی جدائی پر حملہ آور بھی ہوجاتے ہیں‘بہت سے لوگ جانوروں کے چھوٹے اوردودھ پیتے بچوں کو اُن کی ماں سے جدا کردیتے ہیں‘ان کایہ عمل سنگدلی کا مظہر ہے‘حضرت عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں ”: ایک مرتبہ رسول اللہﷺاپنے اصحاب کے ہمراہ کسی سفر میں تھے‘مسلمانوں نے ایک مقام پر آرام کے لیے پڑائو ڈالا‘ نبی کریمﷺقضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے‘ ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے ساتھ اس کے دو بچے بھی تھے‘ہم نے اس کے بچوں کو پکڑ لیا ‘وہ چڑیا آئی اور اُن کے سَروں پر اُڑنے اور پھڑپھڑانے لگی‘ نبی کریمﷺتشریف لائے‘آپ نے یہ منظر دیکھا تو دریافت کیا:اسے اس کے بچوں کی وجہ سے کس نے تکلیف پہنچائی ہے‘ اس کے بچے اسے واپس کردو‘( ابودائود:2675)‘‘۔ ایک حدیث میں ہے : نبی کریمﷺنے فرمایا: ”جو شخص ماں اور اس کے بچے کے درمیان جدائی ڈالے گا‘ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے اوراس کے دوستوں کے درمیان جدائی ڈال دے گا‘ (ترمذی:1283)‘‘۔

ہمارے ہاں بعض علاقوں میں کتوں‘مرغوں اور بٹیروں کو لڑانے کی وبا عام ہے ‘نبی کریمﷺنے اس عمل سے منع فرمایا ہے‘ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں:”نبی کریمﷺنے جانوروں کو آپس میں لڑانے سے منع فرمایا ہے ‘ (ابودائود: 2562)‘‘۔ جانوروں کو لڑانا بعض اوقات محض شوقیہ طور پرتفریح طبع کے لیے ہوتا ہے اوربعض اوقات شرط لگاکر بازی کھیلی جاتی ہے‘ یہ دونوں صورتیں حرام اور ناجائز ہیں اور دوسری صورت میں جوا بھی شامل ہوجاتا ہے‘اس لیے اس کی حرمت دو چند ہے‘کیونکہ جانوروں کو لڑانے میں اُنہیں اذیت و تکلیف پہنچانا ہے‘بلکہ اس دوران بعض جانور مر بھی جاتے ہیں ۔

نبی کریمﷺنے بعض جانوروں کو قتل کرنے کی اجازت بھی دی ہے‘یہ وہ حیوانات وحشرات الارض ہیں جو طبعی طور پر موذی (Harmful)ہوتے ہیں اورانسانوں کوتکلیف ونقصان پہنچانے میں عموماً ابتدا کرتے ہیں‘جیسے سانپ‘ بچھو‘ درندے اور ان جیسے دوسرے حیوانات‘سو انہیں ہر حال میں مارنا جائز ہے ‘حتیٰ کہ حالتِ احرام میں بھی انہیں قتل کرنے سے مُحرم پر کوئی دم وغیرہ نہیں آتا۔البتہ نبی کریمﷺنے ان حیوانات کو قتل کرنے میں بھی احسان اور بھلائی کا حکم دیا ہے ‘یعنی اس قسم کے جانوروں کو قتل کرنے کے لیے ایسا طریقہ کار اختیارکیا جائے کہ اُن کی جاں کنی کا دورانیہ کم سے کم ہو ‘ مثلاً: گولی‘ تیز دھار آلے یا کسی ایسی وزنی چیز سے مارناکہ جس سے جلد موت واقع ہوجائے‘ نبی کریمﷺنے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان کرنا فرض کیا ہے‘ اس لیے جب تم لوگ کسی جانور کو مارو تو اچھے طریقے سے مارو اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرواور چھری کی دھار کو خوب تیز کرلیا کرو‘( مسلم: 1955)‘‘۔نبی کریمﷺنے چھپکلی اور گرگٹ کو مارنے کا حکم دیا ہے ‘لیکن اُسے مارنے میں بھی احسان کا حکم دیا ہے: نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جس نے چھپکلی کو پہلی ضرب میں مار ڈالا تو اس کے لیے اتنی اتنی نیکیاں ہیں اور جس نے اسے دوسری ضرب سے مارا‘ اس کے لیے اتنی اتنی نیکیاں ہیں ‘مگراس کی نیکیاں پہلی بارمیں مارنے والے سے کم ہیں اور اگر اس نے تیسری ضرب سے مارا تو اس کے لیے اتنی اتنی نیکیاں ہیں‘لیکن دوسری ضرب سے مارنے والے سے کم ہیں‘(مسلم:2240)‘‘۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول کریمﷺ نے فرمایا:جو شخص گرگٹ کو ایک ہی وار میں مار ڈالے‘ اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جائیں گی‘ دوسرے وار میں اس سے کم اور تیسرے وار میں اس سے بھی کم نیکیاں لکھی جائیں گی‘( مسلم:2240)‘‘۔ایک یا اس سے زائد وار کے ساتھ مارنے کی صورت میں اجروثواب میں کمی وزیادتی کوبیان کرنے کا مقصد اِس بات کی ترغیب دلانا ہے کہ جس قدر جلدی اور سہولت سے ہوسکے ‘قتل کیا جائے۔

موذی جانوروں کو آگ میں جلانایا اُن پر گرم پانی ڈالنایا ان کے اعضاء کاٹنااوراُنہیں تکلیف دے کرمارنایا ضرورت سے زائد تکلیف دے کر مارنا شریعت کی رُوسے جائز نہیں ہے ‘ ایک مرتبہ رسول اللہﷺنے چیونٹیوں کی ایک بستی کو دیکھا‘ جسے کسی نے جلاکر خاکستر کردیا تھا‘آپ نے پوچھا:انہیں کس نے جلایا ہے‘لوگوں نے کہا:ہم نے جلایا ہے‘ فرمایا:آگ پیدا کرنے والے کے علاوہ کسی کے لیے بالکل بھی مناسب نہیں کہ وہ آگ سے تکلیف پہنچائے ‘ (ابودائود:2675)‘‘اور ایک حدیث میں آپﷺنے فرمایا:”بیشک آگ کا عذاب صرف اللہ تعالیٰ ہی دے سکتا ہے‘(بخاری:3016)‘‘۔البتہ اگر موذی جانوروں کو زندہ جلائے بغیر مارنا ناممکن یا شدیدیدشوار ہو تو انہیں جلانے یا ان پرگرم پانی ڈالنے کی گنجائش موجود ہے‘مثلاً :اگر کسی دوا کے ذریعے چار پائی کے کھٹملوں کاخاتمہ نہ ہوسکے تو گرم پانی سے اُنہیں ماراجاسکتا ہے ۔

اسی طرح جس حیوان کو ذبح کرنے کا ارادہ ہو تو نبی کریمﷺنے اُس کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے‘مثلاً :ذبح سے پہلے چھری کی دھار خوب اچھی طرح تیز کرلی جائے‘جانور کے سامنے چھری کو ظاہر نہ کیا جائے ‘ایک جانور کے سامنے دوسرے جانور کو ذبح نہ کیا جائے‘ذبح کے وقت جانور کوزمین پر نہ گھسیٹے ‘ذبح سے پہلے جانور کو کچھ کھلاپلا دیا جائے‘خالی پیٹ ذبح نہ کیاجائے ‘ آپﷺنے فرمایا: ”جب تم کسی جانور کو ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو‘ اپنی چھری کو تیز کرلواور اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ذبح کے وقت اس کی تکلیف کم سے کم ہو‘(مسلم: 1955)‘‘۔ذبح کے بعد جب تک جانور کی جان نہ نکل جائے‘ اُس کی کھال نہیں اتارنی چاہیے‘ کیونکہ یہ اذیت پر اذیت ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں :ایک شخص نے بکری کو لٹایا اور اپنی چھری تیز کرنے لگا ‘نبی کریم ﷺنے اُسے دیکھا تو فرمایا:کیا تم اس کو دو موت مارنا چاہتے ہو‘تم نے اسے لٹانے سے پہلے چھری کو تیز کیوں نہ کیا ‘ (المستدرَک للحاکم: 7563)‘‘۔ حضرت قرہؓ بن ایاس مزنی بیان کرتے ہیں : ایک شخص نے نبی کریمﷺسے عرض کی:یارسول اللہ!جب میں بکری کو ذبح کرتا ہوں تو مجھے اس پر رحم آتا ہے ‘ آپﷺنے فرمایا:اگر تم بکری پر رحم کرتے ہو تو اللہ بھی تم پر رحم کرے گا‘ (مسنداحمد: 15592)‘‘۔ حضرت وضین بن عطاؓ بیان کرتے ہیں : ایک قصاب نے بکری کو ذبح کرنے کے لیے اس کے کوٹھے کا دروازہ کھولا تو وہ بھاگ پڑی ‘ اس نے اس کا پیچھا کیا اور اسے اُس کی ٹانگوں سے پکڑ کر کھینچنے لگانا‘ یہ دیکھ کر نبی کریمﷺنے فرمایا:اے قصاب!اس کو نرمی سے کھینچ کرلائو‘(مصنف عبد الرزاق:8609)‘‘۔

بعض لوگ نشانہ بازی کی مشق کرنے کے لیے یا ویسے ہی تفریح طبع اور کھیل کود کے طور پر حیوانات خاص طور پر پرندوں کو تیر یا بندوق سے نشانہ بناتے ہیں‘رحمتِ عالم ﷺنے اس سے بھی منع فرمایا ہے اور ایسے شخص پر لعنت فرمائی ہے؛ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ قریش کے کچھ بچوں کے پاس سے گزرے ‘جو ایک پرندے کو باندھ کر اُس پر نشانہ بازی کر رہے تھے اوراُنہوں نے پرندے کے مالِک سے یہ طے کیا ہوا تھا کہ جو تیرنشانے پر نہ لگا وہ اس کا ہو گا‘ جب انہوں نے آپ کو آتا دیکھا تو بھاگ گئے‘حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے پوچھا:اللہ تعالیٰ ایسا کرنے والے پر لعنت فرمائے‘ یہ کس نے کیا ہے‘بے شک رسولِ کریمﷺنے (مشق کے لیے )کسی ذِی رُوح کو تیر اندازی کا نشانہ بنانے والے پر لعنت فرمائی ہے‘(صحیح مسلم:2605)‘‘۔

شوقیہ طور پر پرندے یاغیر موذی جانوروں کو پالنے میں کوئی حرج نہیں ہے ؛چنانچہ حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں: ان کے بھائی ابو عمیر نے ایک چڑیا پال رکھی تھی‘رسول کریمﷺجب کبھی تشریف لاتے تو اُن سے اس پرندے کی بابت دریافت فرماتے تھے کہ وہ کیسا ہے ‘(بخاری:5850)‘‘۔البتہ ان کے حقوق کی حفاظت لازم ہے‘اُن کے حقوق یہ ہیں کہ اُنہیں باقاعدہ خوراک دی جائے‘ خوراک ہر وقت اُن کے سامنے موجود ہونی چاہیے‘وہ جب چاہیں کھائیں‘بعض لوگ جانوروں کو انسانوں کی طرح صرف صبح اور شام دو وقت کھانا دیتے ہیں‘یہ طریقہ درست نہیں ہے‘اس کے علاوہ ان کی صفائی ستھرائی‘سردی گرمی اور بارش سے حفاظت اور بیماری کی صورت میں علاج کا مناسب بندوبست کیا جائے‘ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں: ” جس شخص کے گھر میں اس کی بلی کو خوراک اور ضروریات نہ ملیں اور جس شخص کے پنجرے میں بندپرندوں کی پوری خبر گیری نہ ہوتی ہوتووہ شخص کتنی ہی عبادت کرلے‘وہ محسنین میں شمار نہیں ہوگا‘ (الجامع لاحکام القرآن:ج:5‘ص:122)‘‘۔

حضرت ابوبکر شبلی کوکسی نے خواب میں دیکھا اور ان سے پوچھا : آپ کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا ہے‘اُنہوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے دربار میں کھڑا کرکے فرمایا:ابوبکر!تمہیں معلوم ہے میں نے تمہیں کیوں بخش دیا‘ میں اپنے نیک اعمال شمار کرنے لگا جونجات کا ذریعہ بن سکتے تھے‘تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میں نے ان اعمال میں سے کسی عمل کے سبب تیری بخشش نہیں فرمائی ‘ میں نے عرض کی:الٰہی !پھرتونے کس سبب سے میری مغفرت فرمائی ‘ ارشاد فرمایا:ایک مرتبہ تم بغداد کی گلی سے گزر رہے تھے کہ تم نے ایک بلی کو دیکھا جسے سردی نے کمزورکردیاتھا‘اس پر ترس کھاتے ہوئے تم نے اسے اپنے جبے میں چھپالیاتاکہ وہ سردی سے بچ جائے‘ پس بلی پررحم کی وجہ سے میں نے آج تم پر رحم فرمایاہے ‘(حیاۃ الحیوان‘ ج:2‘ص:522)‘‘۔اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبولیت کا اصل سبب رحم کا وہ جذبہ ہے جو بندے کے دل میں پیدا ہوتا ہے اور بندہ کسی کو تکلیف میں مبتلا دیکھ کر اس کی تکلیف کا ازالہ کرتا ہے۔
بعض جانوروں کے آواز نکالنے پر نبی کریمﷺنے دعا کی تعلیم ارشاد فرمائی ہے ‘آپﷺنے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص مرغ کی آواز سنے تو اُسے چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے فضل طلب کرے‘کیونکہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہوتا ہے اور جب تم میں سے کوئی شخص گدھے کو رینگتا سنے تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے‘کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہوتا ہے‘(بخاری : 3303)‘‘۔

ہمارے ملک میںکافی عرصے سے جانوروں کے حوالے سے بہت زیادہ لاپروائی اورغفلت برتی جارہی ہے ‘گزشتہ برس اسلام آباد کے ایک چڑیا گھر میں شیر اور شیرنی سمیت متعدد جانور وں کے ہلاک ہونے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا‘اسی طرح کراچی میں ایک گھر کی تیسری منزل سے قربانی کے بیل کو اُتارتے وقت بے احتیاطی برتی گئی اور اُسے تیسری منزل سے زمین پر گرادیاگیا۔ملک بھر کے بیشترچڑیا گھروں میں موجود جانور سُہولتوں کے فقدان کی وجہ سے عدمِ تحفظ کا شکار ہیں‘ان کی خوراک اور ضروریات کے لیے جاری ہونے والی رقوم کا بڑا حصہ خوردبرد اورکرپشن کی نذر ہوجاتا ہے ‘سو اس معاملے میں اربابِ اختیار کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے