پھر سراپا تشویش افغانستان اور امنِ عالم

عالمی سیاست کے گزرے چار عشروں میں مطلوب تبدیلیاں برپا ہونے کے ساتھ ساتھ جس طرح عالمی نظامِ شر بےنقاب ہوا ہے، اُس نے آج کی جدید اور مہذب دنیا کی اصلیت کو مکمل عیاں کردیا ہے۔ کُل عالم کو پتہ چل گیا شر کتنا منظم اور کس طرح عالمی نظام بن گیا ہے۔ امتیازی نوعیت کی خبروں، تجزیوں، رائے عامہ اور تاریخ میں ڈھلتے حالاتِ حاضرہ کے واقعات کے سیلابِ رواں تو انسانی ترقی کی معراج پر پہنچی آج کی جدید دنیا کا لازمہ ہے لیکن تیز تر جو تلاطم گزشتہ چار دہائیوں میں برپا ہوا شاید ظہورِ اسلام کے سوا معلوم تاریخ کے اتنے ہی عرصے پر محیط کسی بھی مرحلے میں یکے بعد دیگرے اتنے فوری، مستقبل قریب اور دور رس نتائج کی حامل تبدیلیوں کی نشاندہی نہ کی جا سکے۔ ہم پاکستانیوں کے لئے بہت دلچسپ اور غور طلب امر یہ ہے کہ عالمی سیاسی رجحانات، رویوں، سوچ و اپروچ، جغرافیے اور اقوام کے تعلقات میں جو عظیم تر واقعات دسمبر 1979سے حالاتِ حاضرہ تک کے 41برسوں میں ہوئے حیران کن حد تک ان کا مرکز و محور افغانستان بنا۔

ہمارا وہ ہمسایہ جس سے ہمارے دینی، ثقافتی، اقتصادی اور سماجی، فطری تعلقات کی گہرائی اس سے کہیں زیادہ قائم رہی (اور رہے گی) جتنی دوری پاکستان سے وہاں کی غیرنمائندہ حکومتوں نے اختیار کئے رکھی۔ ذہن نشین رہے کہ پاک، افغان ناگزیر تعلقات کی بنیاد اسلام آباد اور کابل کی حکومتیں نہیںہمیشہ ہر دو اطراف کے عوام ہی رہے جو دنیا میں ایک منفرد مثال ہے۔ افغانستان سے ہمارے دوطرفہ تعلقات کی یہ صورت آج بھی جوں کی توں برقرار ہے۔ آنے والے وقت میں اس میں اضافے کے ہی امکانات بہت اور واضح بھی ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کا یہ خوش گوار لیکن پیچیدہ تعلق پاکستانیوں اور افغان بھائیوں کے لئے باہمی تعلقات کی یہ مشکل صورت فطرتاً پابند تسلسل ہے، قطع نظر اس کے کہ کابل میں پاکستان دوست متنازعہ طالبان حکومت ہو یا ہمارے دشمنو ںکی گٹھ جوڑ کٹھ پتلی حکومتیں، پاک، افغان عوامی تعلقات کی جڑیں بہت گہری ہیں۔(اب اس سے آزاد تین مسلم ممالک کا) پاکستان و ایران اور چین کا ہمسایہ ہونے اور دوسپر پاورز کے قبضے اور خون آشام مسلط جنگوں کے خلاف حیرت انگیز مزاحمت سے بے مثال فتح حاصل کرنے والا افغانستان، عالمی سیاست، جنگ و جدل اور اہم ترین ملکوں کے کلیدی قومی مفادات (جائز و ناجائز) کے حوالے سے اہم ترین ملک بن چکا ہے۔

دلچسپ یہ ہے کہ افغان قوم کے اپنے فطری خاصوں یہاں کی سخت کوشی، مشکل ترین، آزاد طبع رویّے، طبعی جغرافیے، بیش بہا معدنی ذخائر اور سب سے بڑھ کر جائے وقوع کے حوالے سے اس کی یہ پوزیشن نہ صرف یہ کہ مسلسل SUSTAINABLEہے بلکہ اس میں کئی گنا اضافہ مکمل عیاں ہے۔جنگوں کی تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ ایک افغانستان جیسے منتشر، غیرمنظم اور غیرمتحد ملک نے اپنے عہد کی سب سے دو بڑی عسکری مملکتوں کے قبضے کے خلاف لاکھوں جانیں دے کر مزاحمت کرکے ان سے قبضہ چھڑا لیا۔ قابض افواج کو انخلا پر مجبور کردیا۔ سوویت یونین کی جارحیت پر تو مجاہدین کو ہر نوعیت کی موثر عالمی معاونت حاصل تھی، لیکن نائن الیون کے تناظر میں فقط مشکوک غیر ملکی مجاہد ماسٹر مائنڈ یا کمان دار کو ’’گرفتار کرنے اور حوالے نہ کرنے‘‘ کی مختصر سفارتی و سیاسی کشمکش سے جو 20سالہ جنگ نکلی اس میں امریکہ تنہا بھی نہ تھا، طاقت ور اور امیر ترین یورپی ملکوں کا 32ملکی اتحاد بھی دامے درمے سخنے ساتھ ہوگیا۔

پہلا ہدف طالبان حکومت کا خاتمہ، اس کے دوران اور بعد اسامہ بن لادن کی گرفتاری کے لئے جو ہولناک فضائی بمباری ہوئی، اس سے بھی 20سالہ طویل جنگ کا نکلنا آخر کیا ہے؟ کہاں گئی عالمی دانش جو امن کی کوئی راہ نہ نکال سکی جبکہ امریکہ اور اتحادیوں کو اس کا مکمل یقین تھا اور اطلاعات بھی کہ طالبان حکومت کسی بھی طور پر اپنے چار سالہ اقتدار میں امریکہ کے لئے سیکورٹی تھریٹ نہ رہی ہوگی، لیکن پورا نیٹو افغانستان کو مرضی کا جمہوری بناتے بناتے، دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا بیٹھا۔ صرف افغانستان کے خلاف ہی نہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قابضین کو بھارت کی افغانستان میں جمنے کی خواہش اور اس کا یہاں سے پاکستان کے خلاف مسلسل دہشت گردی کرنے کے پندرہ سالہ منصوبے اور اس پر عملدرآمد کا علم نہ تھا۔ افغانستان کو طالبان کے مقابل جو جمہوریت اور استحکام 2.6ٹریلین ڈالر کے ناقابلِ یقین بجٹ سے دیا،ا س کی کل حقیقت آج کی ڈگمگاتی اشرف غنی حکومت، افغان بھگوڑی، ہتھیار ڈالتی فوج اورمنتشر ہوتی خفیہ ایجنسی ہے۔ یہ امریکہ اس کے یورپی اتحادیوں اور بھارت جیسے غیر اعلانیہ ایشیائی نیٹو رکن کا علمی، سفارتی اور سیاسی ڈیزاسٹر بھی نہیں ہے؟ کہ اتنی ہلاکت خیزی سے آخر حاصل کیا کیا؟

سب سے تشویش ناک امر یہ ہے کہ افغانستان و عراق میں بے دردی سے ہلاکتیں کرنے والے امریکی سابق فوجیوں کے اعزاز میں ایک عشائیے میں 20سال تک انہیں اس ابلیسی کام پر لگائے رکھنے پر، صدر جوبائیڈن پر سوالات کی بوچھاڑ کی گئی اور بے گناہوں کے قتل عام کرنے اور کرانے پر جس کرب کا اظہار ہوا، اس کی ویڈیو وائر ل ہونے کے باوجود آج بھی امریکہ بیرون افغانستان سے کوئی عسکری کارروائی کی سہولت کی تلاش میں سفارتی پاپڑ بیل رہا ہے۔ یہ بھول کر یا دانستہ نظر انداز کرکے کہ اب افغانستان میں بدامنی و انتشار اور غیرملکی مداخلت کے مقابل خطے کی اور عالمی بھی، دو بڑی طاقتیں مقابل آنے کے لئے تھکے واپس ہوئے نیٹو سے کہیں زیادہ چارجڈ ہیں۔ مکمل واضح ہے کہ اب افغانستان میں مداخلت کو افغانستان تک محدود نہ رکھا جا سکے گا، نہ ہی خطے تک۔ یہ تو دو سوچوں اور اپروچوں کی عالمی جنگ ہوگی، جو روایتی اور سرد کے مقابلے میں اپنی مشکل صورت (ہر دو فریقین کی طرف سے) خود بنائے گی۔ یہ جتنی افغانستان میں تشویشناک ہوگی اتنی ہی دنیا کے امن کےلئے بھی۔ افسوس! امریکہ اپنی خارجہ پالیسی کے تسلسل کی روایت پر قائم نظر آ رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے