بے وفا امریکہ

نائن الیون کے فوراََ بعد جب افغانستان کے معاملے پر دبائو کے تحت جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو اس طالب علم نے ”امریکہ سے دوستی۔قیمت وصول کرلو“ کے زیرعنوان کالم تحریر کیا جس کا آغاز میں نے امریکہ کے دورے (نائن الیون سے دو ماہ قبل یعنی جولائی کے مہینے میں ہم دس پاکستانی صحافیوں کا ایک وفد امریکی حکومت کے انٹرنیشنل وزیٹرز پروگرام کے تحت امریکہ گیا تھا۔ اس وفد میں رحیم اللہ یوسفزئی ، اسماعیل خان، طاہر خان ، شمیم شاہد، اور جاوید چودھری جیسے سینئر صحافی بھی شامل تھے) سے اگست کے مہینے میں واپسی پر اپنے لکھے گئے ایک اور کالم کے اس اقتباس سے کیا تھا کہ :

”اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں پاکستان اور افغانستان سے متعلق دفترکے ڈائریکٹرجیفری لوئنسٹڈ سے ہماری ملاقات ہورہی تھی تو گفتگو کے آغاز سے قبل انہوں نے ہم سب کے سامنے ایک کاغذ رکھ دیا۔ یہ کاغذ امریکی ڈپٹی سیکرٹری آف اسٹیٹ رچرڈ آرمیٹج کے انڈین روزنامے ’دی ہندو‘ کو دیے گئے انٹرویو کے ایک حصے پر مشتمل تھا، جس میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے پاکستان سے متعلق امریکی پالیسی کی وضاحت کی تھی۔ لوئنسٹڈ نے گفتگو سے قبل ہمیں آرمیٹج کے انٹرویو کے اس حصے کو پڑھنے کی اس لئے تلقین کی کیونکہ ان کے بقول اس میں پاکستان سے متعلق امریکی پالیسی کو جامع انداز میں واضح کیا گیا ہے۔

ترجمہ :لوگ سمجھتے ہیں کہ جیسے پاکستان کے ساتھ ہمارے عظیم تعلقات ہیں لیکن ایک لحاظ سے یہ ایک جھوٹا تعلق تھا ( اس کی اپنی کوئی بنیاد نہ تھی بلکہ) پہلے یہ تعلق سوویت یونین اور بھارت کے گٹھ جوڑ کے خلاف اور پھر افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے خلاف تھا۔ لہٰذا پاکستان کے بارے میں (سرے سے) ہماری کوئی پالیسی نہ تھی۔ یہ پالیسی کسی اور کے خلاف تھی۔ اب ہماری توقع ہے کہ ہمارے پاکستانی دوست یہ کوشش کریں کہ پاکستان کی بنیاد پر ہم سے تعلق استوار کریں۔ جیسا کہ آپ کو علم ہے پاکستانی وزیر خارجہ ستار ادھر آرہے ہیں جن سے ہم (اس موضوع پر) بات کریں گے۔

یہ اسی رچرڈ آرمیٹج کا بیان ہے جوگزشتہ ہفتے دو بار امریکہ میں پاکستانی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود سے ملاقات کرکے انہیں دوستی کے واسطے دے کر طالبان کے خلاف تعاون کی اپیلیں کررہے ہیں حالانکہ آج سے صرف دو ماہ قبل وہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان کے ساتھ ہمارا تعلق ایک جھوٹا تعلق تھا۔ پاکستانی حکمران یاد رکھیں کہ مطلوبہ مقاصد پورے ہونے کے بعد امریکی ایک بار پھر کہیں گے کہ پاکستان کے ساتھ تو ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ مذکورہ دورہ امریکہ کے موقع پر جب بھی ہم نے امریکی حکام کو سوویت یونین کے خلاف پاکستان کے کردار کا حوالہ دیا یا امریکہ کی خاطر اپنے ملک کی قربانیوں کا ذکر کیا تو وہ بڑے اطمینان سے کہہ دیتے کہ ایسا کرنا تو آپ کی اپنی ضرورت تھی۔ وہ وقت دور نہیں جب امریکی ایک بار پھر یہی کہیں گے کہ اسامہ اور طالبان کے خلاف ہمارے ساتھ کھڑا ہونا تو تم لوگوں کی اپنی ضرورت تھی۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ امریکہ کو بتادے کہ وہ نہ صرف ان کی خاطر دیرینہ دوستوں کی قربانی دے رہے ہیںبلکہ اپنے لوگوں کے قہروغضب کو بھی ابھاررہے ہیں بلکہ بڑی حد تک اپنی قومی سلامتی کا بھی رسک لے رہے ہیں ، اسلئے اس کی قیمت بھی اتنی ہی زیادہ ہونی چاہئے۔

آج بیس سال بعد وہ وقت آگیا اور افغانستان کے حوالے سے ضرورت پوری ہوتے ہی امریکہ نے آنکھیں پھیر لیں۔ حالت یہ ہے کہ کئی ماہ گزرنے کے باوجود امریکی صدر جوبائیڈن ،عمران خان سے دو منٹ کی ٹیلی فونک گفتگو کرنےکے لئے بھی تیار نہیں۔ ان کی حکومت نے ہر سطح پر منتیں کیں لیکن امریکی افغانستان کے سوا کسی اور معاملے میں پاکستانی حکومت کے ساتھ شراکت داری یا تعاون کے لئے تیار نہیں۔ کھل کر نہیں کہہ رہے ہیں لیکن امریکی اب یہ لکیر تک کھینچنے لگے ہیں کہ اگر پاکستان چین کے ساتھ پارٹنرشپ نہیں چھوڑے گا تو اسے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے قہروغضب کا شکار بھی ہونا پڑے گا۔ہم پاکستانی تو خیر امریکہ کی اس ابن الوقتی کے عادی ہوگئے ہیں لیکن اس نے افغان حکومت اور سیاسی رہنمائوں کے ساتھ بے وفائی کی حد کردی۔ امریکی صدور اور ذمہ داران بار بار افغانوں کو یقین دلاتے رہے کہ وہ انہیں تنہا چھوڑ کر ماضی کو نہیں دہرائیں گے لیکن یکدم امریکیوں نے ان سے بھی ایسی آنکھیں پھیر لیں کہ ان بے چاروں کے پیروں سے زمین نکل گئی۔ پہلے یہ خیال کیا جارہا تھا کہ شاید یہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ کا پاگل پن ہے جو اپنے الیکشن کی وجہ سے افغان حکومت سے بے وفائی کرکے افواج نکال رہا ہے اور اسی لئے جوبائیڈن کی جیت پر ڈاکٹراشرف غنی اور ان کے ساتھیوں نے بڑی خوشیاں بھی منائیں لیکن اب پتہ چلا کہ یہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اور اداروں کا اجتماعی فیصلہ ہے۔ آخری یاد دہانی اور کوشش کے طور پر گزشتہ ہفتے ڈاکٹر اشرف غنی واشنگٹن گئے اور انہیں امید تھی کہ صدر جوبائیڈن کسی حد تک مروت سے کام لے لیں گے لیکن چند منٹ کی مشترکہ پریس کانفرنس میں جوبائیڈن اس طرح بیٹھے تھے کہ جیسے کوئی ان سے جبراََ یہ کام کروا رہا ہو۔ اب تو انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اسامہ بن لادن کو مار کر امریکہ نے اپنا مقصد حاصل کرلیا ہے اور یہ کہ وہ افغانستان میں قومی تعمیر کے لئے نہیں گئے تھے۔ گویا افغان حکومت جانے اور طالبان جانیں۔

بہ ہر حال جو ہونا تھا، سو ہوچکا۔ یہ پاکستانی حکمرانوں اور افغانوں کے لئے سبق ہے کہ وہ مستقبل میں امریکہ پر تکیہ نہ کریں اور اگر ان سے کبھی معاملہ طے کرنا پڑ جائے تو خود قیمت ادا کرنے سے قبل ان سے قیمت وصول کریں۔ یہ صرف امریکہ کا نہیں بلکہ شاید دنیا کے ہر ملک کا وطیرہ ہے۔ ہر ملک صرف اور صرف اپنے قومی مفاد کو دیکھ کر فیصلے کرتا ہے۔ اس لئے پاکستانیوں کو چاہئے کہ اپنے گھر کو خود سدھاریں اور کسی غیرملکی طاقت کے آگے جھکنے کی بجائے ایک دوسرے کے آگے جھک جائیں جبکہ افغانوں کے مسائل کے حل کا بھی یہی راستہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو برداشت کریں۔ ایک دوسرے کو عزت دیں اور ایک دوسرے کی مجبوریوں کا خیال رکھیں۔ افغان حکومت بھی کسی غیرملک کی شہ پر طالبان سے مفاہمت میں انا پرستی کا مظاہرہ نہ کرے اور طالبان بھی کسی غیرملک کے ایما پر تنہا حکمرانی پر اصرار نہ کریں۔ افغانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ جو بھی ملک آج جس بھی فریق کے ساتھ ہے، مقصد پورا ہوتے ہی وہ اسی طرح آنکھیں پھیرے گا جس طرح کہ امریکہ نے پھیرلیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے