یوم آزادی اور بحثیت معاشرہ ہماری غیر ذمہ داری

14 اگست 2021 کا یوم آزادی بھی گزر گیا، اس روز کہیں بھی اہل علم و مقتدر طبقہ فکر کو اکٹھا ہوکر نوجوان نسل کو اس دن کی تاریخی اہمیت اور تاریخ آزادی کے اسباب و واقعات اور موجودہ معاملات و مسائل اور ان کے حل کے لیے بات کرتے نہیں دیکھا یا سنا گیا۔

اس کو غفلت کہیں، سادگی کہیں، نااہلی کہیں، بے حسی کہیں، جرم کہیں یا خطا، غلطی کہیں یا نالائقی بہرحال یہ بہت شرمناک بات ہے۔

جس نوجوان نسل کے کندھوں پر اس ارض وطن کے مستقبل کی تمام تر ذمہ داریوں کا بھاری بھر کم بوجھ ہے، اس کی علمی و فکری تربیت کرنے کے بجائے ہم نے انہیں لاپرواہی سے کھلا چھوڑ رکھا ہے کہ وہ باجے بجائیں، کیک کاٹیں، ہلہ گلہ کریں، دوستوں کے ساتھ اس دن کو تہوار کی طرح منائیں اور شغل میلہ کرکے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجائیں۔

مقام افسوس تو یہ ہے کہ اب کسی بھی جگہ اس دن پر کوئی ایسی تقریب منعقد نہیں کی جاتی جو ہماری نوجوان نسل کو بتائے کہ یہ آزادی باجے بجا لینے سے نہیں ملی تھی بلکہ اس کے پیچھے کتنی تحریکوں کہ طویل جدوجہد ہے، اس کے پچھے 1857 کی بے سرو سامانی کے عالم میں لڑی گئی جنگ آزادی ہے، شاید اب کوئی نہیں بچا جو بتائے کہ 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد دنیا کے سب سے بڑے مہذب ہونے کے دعویدار برطانیہ نے کیسے برصغیر کے مسلمانوں پر زمین تنگ کردی تھی، کیسے ان کا معاشی،معاشرتی اور سیاسی استحصال کیا گیا تھا، کیسے مسلمانوں کو چن چن کر شہید کیا گیا تھا، کوئی درخت خالی نا تھا جہاں کسی نا کسی مسلمان کی لاش نا لٹک رہی ہو، لاشوں کو جانوروں کے نوچنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا اور تقسیم کے روز کس خون کی ندی کو پار کرکے یہ وطن حاصل کیا گیا تھا، اب اس نوجوان نسل کو کون سمجھائے گا کہ اس خطہ برصغیر پر کبھی ان کے بڑوں نے ہزار سال تک حکمرانی کی تھی؟ کون بتائے گا کہ کن نااہلیوں، نالائقیوں، عیاشیوں اور غیر ذمہ داریوں کی وجہ سے یہ تخت سے اتار پر غلامی میں دھکیل دیے گئے تھے؟

کیا کسی کو فکر نہیں کہ اپنی نسل کو اپنی تاریخ سے روشناس کروائے تاکہ وہ اس سے سبق حاصل کرسکے،اسی ماہ اگست میں ایک طویل جدوجہد آزادی کو کامیابی ملی اور 15 اگست 1947 کو تقسیم کا عمل ہوا، قائد اعظم محمد علی جناح نے 15 اگست کو بھارت کے ساتھ یوم آزادی منانے کی بجائے پاکستان کے لیے 14 اگست کا دن متعین کردیا۔

ایک وقت تھا کہ اس دن سرکاری و غیر سرکاری سطح پر بڑی بڑی تقریبات ہوتی تھیں، مفکرین تقریریں کرتے تھے، لوگوں کو آزادی کے مقاصد و اہمیت سے آگاہ کیا جاتا تھا مگر اب کیک کاٹ دیا جاتا ہے یا زیادہ سے زیادہ پرچم کشائی کرلی جاتی ہے۔

اسی ماہ اگست میں 5 اگست 2019 کو بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے تمام عالمی قراردادوں کو پاؤں تلے روندھ کر کشمیر میں اپنا آئین نافذ کردیا، 2 سال گزر گئے مگر اب اس دن کی مناسبت سے کوئی بات نہیں کرتا اور نا ہی اب کوئی آدھا گھنٹہ کھڑا ہوتا ہے۔

چاہئے تو یہ تھا پوری عالمی برادری کو اعتماد میں لیا جاتا، انہیں اپنا موقف بتایا اور سمجھایا جاتا مگر افسوس کہ ہم اس معاملے پر سلامتی کونسل کا ایک اجلاس تک نا بلا سکے۔

عالمی برادری کو موقف سمجھانا تو شاید بڑی بات ہو ہم اتنے غیر ذمہ دار ہوچکے ہیں کہ ہماری اپنی نوجوان نسل کو معلوم نہیں ہے کہ کشمیر پر ہمارے موقف پر ہمارے دلائل کیا ہیں، آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے.، دنیا ایک گلوبل ویلیج کی صورت اختیار کرچکی ہے، خوش قسمتی سے پاکستان کے پاس اکثریت نوجوانوں کی ہے مگر کیا کوئی ہے جو اس نوجوان نسل کی تربیت کرسکے اور ان کی ذہنی پرورش کرسکے۔

اب تو ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی اس روز کوئی سنجیدہ سرگرمی کرنے کی بجائے یا تو کھیلوں کی سرگرمیاں کرلی جاتی ہیں اور یا پھر کچھ دیر ملی نغموں اور گانوں کے ملے جلے پروگرام منعقد کرکے بچوں سے رقص کروالیا جاتا ہے۔

ہمارے نوجوان طالب علموں سے اگر سوال کیا جائے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے لیکن کشمیر پر پاکستان کا کن بنیادوں پر حق ہے تو شاید 10 فیصد طلباء بھی اس کا جواب نا دے سکیں،
جو قومیں نوجوان نسل کو اپنی تاریخ سے روشناس نہیں کرواتیں انہیں مستقبل میں انتہائی بھیانک نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔

اب ڈیجیٹل دور ہے، دنیا مختلف طریقوں سے اپنی تہذیب، ثقافت اور تاریخ کو اجاگر کررہی ہے، اپنے ملک ہی خوبصورتی دکھا کر سیاحت کو فروغ دے رہی ہے، ترکی نے اپنی تاریخ پر ڈرامے بنائے جو پوری دنیا میں مقبول ہوئے، ان کے ملک میں سیاحت کو فروغ ملا جس کی وجہ سے ان کو معاشی طور پر فوائد حاصل ہوئے، پورے یورپ کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن وہاں کی سیاحت ہے. دنیا اس سے بہت زیادہ کماتی ہے۔

ہمارا ملک قدرتی طور پر ایک خوبصورت ملک ہے. اس خطے کی اک شاندار تاریخ ہے جو یورپ و عرب سے جڑی ہوئی ہے، یہاں تاریخی ورثہ موجود ہے۔کیوں نا یہاں ساس بہو کے جھگڑوں اور نوجوانوں کے عشق و محبت کے فضول ترین ڈراموں کو چھوڑ کر تاریخ پر ڈرامے بنوائے جائیں، جس کے لیے تاریخی عمارتوں اور خوبصورت علاقوں کا انتخاب کیا جائے۔اس کے ہماری نسلیں ہماری تاریخ سے روشناس بھی ہوں گی اور ہمارے خطے میں سیاحت بھی پھیلے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے