‎ربیع الاول، لاریب ایک مبارک مہینا ہے۔

‎پروردگار عالم نے قیامت تک کے لیے اپنی آخری حجت اور روئے زمین پر اپنی حتمی ہدایت دے کر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔

‎رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں ایک طرف دین پہنچانے کی یہ ذمے داری بے کم و کاست ادا کی وہیں اپنے سیرت و کردار سے رہتی دنیا تک ایک بے مثل نمونہ حیات بھی تاریخ کے سپرد کیا۔

‎یہ مہینا اگر آپ سے تعلق کی یاد تازہ کرنے، آپ کی سیرت و سوانح کو جاننے اور آپ سے محبت کے جذبات کی افزونی کا سبب بنے تو یقینا ایک نعمت سے کم نہیں۔تاہم انسانوں کے جن امراض کا علاج سرور عالم نے خود دین کی ہدایت کے ذریعے کیا ان میں سےسب سے بڑا مرض یہ ہے کہ انسان بالعموم حقیقت سے ہٹ کر نظریات اپناتا اور اپنے تعلق کے اظہار میں اعتدال پر قائم نہیں رہتا ہے۔ چنانچہ وہ افراط و تفریط کا شکار ہوجاتا ہے۔

‎لہذا ربیع الاول کا یہی وہ وقت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق کچھ قائم شدہ تصورات کو خود آپ کے دیے ہوئے دین کی روشنی میں تازہ کرلیا جائے۔تاکہ آپ سے تعلق دین اسی ہدایت کے مطابق استوار ہو جو قرآن و سنت میں موجود اورمطلوب ہے۔

[pullquote]‎وہ چند تصورات درج ذیل ہیں[/pullquote]

‎1″-یہ کائنات اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنائی تھی”

‎ایسی کوئی بات دین اسلام کے کسی ماخذ میں موجود نہیں۔بلکہ اس کے مکمل بر خلاف قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اس کائنات میں انسان کی تخلیق کا مقصد ان کا امتحان ہےاور امتحان میں کامیابی کا ایک متعین معیار ہے۔
‎ارشاد ہوا ہے:

‎بہت بزرگ ، بہت فیض رساں ہے، وہ( پروردگار) جس کے ہاتھ میں عالم کی پادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔(وہی) جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم کو آزمائے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ (سورہ ملک, 1-2)

‎انبیاء صرف اللہ تعالی کا پیغام لے کر دنیا میں آتے ہیں۔ان کو یہ ذمے داری اللہ تعالی تفویض کرتے اور اس ذمے داری کی انجام دہی میں وہ تنکا برابر کمی یا زیادتی نہیں کر سکتے۔

‎2-"رسول اللہ سے عشق ہی جنت میں لے جائے گا”

‎جنت میں جانے کے حوالے سے جو معیار قرآن مجید میں موجود ہے اور جو معیار پوری زندگی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا وہ یہ ہے کہ انسان اللہ پرسچا ایمان رکھے ، اور اس کی شریعت پر عمل کرے۔اس کے پیغمبروں کو اللہ کا فرستادہ مانے، ان کی اطاعت کرے اس لیے کہ وہی اللہ کی ہدایات ان تک پہنچاتے ہیں، ان سے محبت رکھے، ان کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرے،آخرت پر پختہ ایمان ہو، نیک عمل کرے اور اخلاقی برائیوں سے بچا رہے۔

‎3-"سارے نبی تیرے در کے سوالی”.

‎قرآن مجید نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اللہ کے نزدیک دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہےاور وہ اسلام ہے۔اسی دین کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کے لیے اللہ تعالی نے انبیاء کا سلسلہ جاری فرمایا، اس سلسلے کے پہلے پیغمبر سیدنا آدم تھے۔یہ ابلاغ اللہ نے قوموں کے انتخاب کے ذریعے بھی کیا، اس سلسلے میں امام رسل کی حیثیت سیدنا ابراہیم کو حاصل ہے۔اس مشن کے لیے نبوت ان کی ذریت میں خاص کردی گئی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھی کے بیٹے سیدنا اسماعیل کی قوم میں مبعوث کیے گئے ۔لھذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان ہزاروں لاکھوں پیغمبروں میں سے دین اسلام کے آخری رسول ہیں۔ تمام انبیاء کی ہدایت عالمی، آفاقی اور اصل اسلام ہی کی تھی۔قرآن مجید انبیاء میں سے کسی ایک کی مطلق فضیلت کے تصور کی نفی کرتا ہے اور اہل ایمان کی یہ صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے:

‎(اِن کا اقرار ہے کہ) ہم اللہ کے پیغمبر وں میں سے کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اور اِنھوں نے کہہ دیا ہے کہ ہم نے سنا اور سر اطاعت جھکا دیا۔ (البقرہ، 285)

‎4-"بھر دے جھولی میری یا محمد”

‎قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ اس دنیا میں انسانوں کے رزق کے فیصلے، اولاد کے فیصلے، طوفانوں، زلزلوں اور آفات سے لے کر بارش برسانے تک تمام کائنات کی عنان تنہا اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔ان معاملات میں نہ کوئی ان کا ہمسر ہے نہ شریک- لھذا سیدنا آدم سے لے کر محمد رسول اللہ تک سب اسی کے محتاج ہیں، اسی کی عنایات کے طلب گار ہیں، اسی کی منشا کی یافت میں جیتے رہے اور اسی کی رحمت کی امید میں دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ ارشاد ہوا ہے:

‎تم اعلان کرو، (اے پیغمبر)، حقیقت یہ ہے کہ اللہ یکتا ہے۔
‎اللہ سب کا سہارا ہے۔
‎وہ نہ باپ ہے، نہ بیٹا
‎اور نہ اُس کا کوئی ہم سر ہے۔ (سورہ اخلاص)

‎5-"حاضر و ناظر!”۔

‎رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان تھے، انسان کی حیثیت میں پیغمبر منتخب ہوئے اور اپنا مشن پورا کر کے انسانوں ہی کی طرح دنیا سے رخصت ہوگئے۔قرآن مجید نے یہ بتایا ہے کہ خدا کے نیک بندے جب دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو ان پر عنایتوں کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔ وہ عنایتیں کیسی ہوتی ہیں انسانی عقل اس کا شعور نہیں رکھتی۔کیا وہ دنیا کے معاملات کا اب بھی جائزہ لے رہے ہیں، ہمیں یہاں دیکھتے اور اپنے ذکر کی مجالس میں شریک ہوتے ہیں، یہ سب دعوے ایسے ہیں جن کی دلیل کسی دینی ماخذ میں موجود نہیں لہذا ان امور کے حوالے سے ہم کوئی بھی دعوی اللہ تعالی کی تصویب کے بغیر محض اپنے تخیل سے نہیں کر سکتے۔

‎6-"مجرم ہوں جہاں بھر کا، محشر میں بچا لینا”

‎مغفرت کا حق صرف اور صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے، محشر میں بچانے اور سزا دینے کا اختیار بھی اسی کو حاصل ہے ۔سورہ زمر میں ارشاد ہوا ہے:
‎”کیا انھوں نے خدا کو چھوڑ کر دوسروں کو شفیع بنا رکھا ہے؟ ان سے کہو کیا وہ شفاعت کریں گے خواہ ان کے لیے اختیار میں کچھ نہ ہو اور وہ کچھ نہ سمجھتے ہوں۔کہہ دو شفاعت تمام تر اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔زمین و آسمان کی بادشاہی اسی کی ہے۔پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے”(آیت 43،44)

‎چنانچہ جہاں بھر کا مجرم بننے کی سزا سے کوئی بھی نہیں بچا سکتا۔وہاں اللہ انصاف کریں گے اور انھوں نے یہ بھی بیان کردیا ہے کہ

‎”(اس دن جب) وہی بولیں گے جنھیں رحمن اجازت دے اور وہ صحیح بات کہیں”.(سورہ النبا آیت 34)

‎لھذا نبی کی شفاعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مجرم کو بچاکر انعام یافتہ بنا لیا جائے۔وہ شفاعت بندے کی طرف سے توبہ، رجوع، ازالے اور استغفار کے بعد خدا کی بارگاہ میں عذر قبول کرنے کی درخواست ہے اور اللہ کے ہاں ایسی درخواستیں میرٹ پر قبول یا رد ہوتی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے