ملک کے دیگر حصوں میں بچے اور خواتین کے کیسزز سننے کیلئے فیملی کورٹس کام کر رہی ہیں، اسی طرح گلگت کی فیملیز کو بھی انصاف کی فراہمی کیلئے عدالتیں ہونی چاہئیے، قرار داد
گلگت بلتستان اسمبلی نے ایک قرار داد کی بھاری اکثریت سے منظوری دی جس میں صوبائی حکومت سے گلگت بلتستان میں فیملی کورٹس قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ قرار داد میں کہا گیا کہ ایوان گلگت بلتستان میں فیملی کورٹس کی اہمیت و افادیت کو انتہائی شدت سے محسوس کرتا ہے کہ ملک کے دیگر حصوں میں خواتین اور بچوں کے کیسزز سننے کیلئے فیملی کورٹس کام کر رہی ہیں لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے جی۔بی میں بھی فیملی کورٹس کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ یہاں پر بسنے والے فیملیز کو بھی فوری طور پر انصاف مل سکے۔
قراد داد منگل کے روز کلثوم الیاس نے ایوان میں پیش کی قراردادپر جب ڈپٹی سپیکر نے رائے شماری کی تو تمام ممبران نے اسکی حمایت کی جب کہ جے یو آئی کے رکن حاجی رحمت خالق نے فیملی کورٹس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ خواتین قاضی نہیں بن سکتی اسلئے اس خطے میں کسی قسم کے فیملی کورٹس نہیں بننے چاہئ حاجی رحمت نے مزید کہا کہ خواتین کو گھر اور چار دیواری کے اندر رہنا چاہئے، خواتین قاضی نہیں بن سکتی اسلئے فیملی کورٹس کا قیام بھی روک دینا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیملی کورٹس خواتین کو اور زیادہ مصیبت میں ڈالنے کے مترادف ہے، پہلے ہی خواتین مصیبت میں ہیں کورٹ کے ذریعے اور مصیبت میں ڈالنا زیادتی ہے، انکا کہنا تھا کہ بلتستان ڈویژن کے چاروں اظلاع میں تعینات ججز فارغ بیٹھے ہیں ان کے پاس کسی قسم کے کیسسز نہیں ہیں لہذا بلتستان ڈویژن میں صرف ایک ہی جج رکھا جائےاور دیگر ججز جوکہ فارغ بیٹھے ہیں انکو دیگر اظلاع میں بھیجا جائے جہاں کیسسز زیادہ ہیں۔