مائیں ایک جیسی ہوتی ہیں

ہر دل عزیز ،نرم دم گفتگو، مہربان اور صوفی منش دانشور جناب بیرسٹر ظفراللہ خان نے اپنی خانقاہ میں برادران طاہر اقبال ممبر قومی اسمبلی ،نصر اقبال کی والدہ محترمہ کی وفات پر تعزیتی پروگرام کا انعقاد کیا تھا۔طاہر اقبال بھائی اور نصر اقبال بھائی کے دوست اور چاہنے والے شریک ہوئے، بردار خورشید ندیم ،ڈاکٹر مرتضی مغل ،عزیز الحق نشتر نے موقع کی مناسبت سے بڑی پیاری گفتگو کی۔بیرسٹر ظفر اللہ خان کا تو میں پرانا نیازمند ہوں۔بولتے ہیں تو لگتا ہے کہ موتی پروئے جا رہے ہیں۔خوبصورت الفاظ اور تراکیب و معنی کا ایسا سماں باندھتے ہیں کہ بقول شاعر
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

اور بات جب ماں کے بارے میں ہو رہی ہو تو پھر سوچیں کیا انداز ہو گا۔ماں لفظ ہی کافی ہے۔

قدرت اللہ شہاب نے لکھا تھا کہ ماں جی کی پیدائش کا صحیح سال معلوم نہیں ہو سکا۔اس پر ممتاز مفتی جھوم اٹھے ۔اور سچ ہے کہ ماں کا خمیر ایک مٹی سے اٹھا ہے۔مائیں سب کی ایک جیسی ہوتی ہیں۔ایک ہی طرح کی درد مندی،خود بھوکا رہنا ،بچوں کو اچھے سے اچھے پیش کرنا،بیرسٹر صاحب بتا رہے تھے کہ نصر بھائی سے ان کا تعلق چار عشروں پر محیط ہے۔ مجلس میں اکثر احباب سے پرانا تعلق ہے۔سجاد افضل چیمہ صاحب ہماری ضمانتیں کروائے کرتے تھے۔یونیورسٹی میں جھگڑوں کے بعد اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے جاتے تھے۔پیار محبت اور الفت کے دور تک پھیلے ہوئے تعلق بیان کر رہے تھے۔والدہ رخصت ہوئیں لیکن اس طمانیت کے ساتھ کہ ان کی اولادوں کی اولاد بھی نہ صرف بڑی ہو گئ ہے۔بلکہ ایک فعال کردار ادا کر رہی ہے۔طاہر اقبال کسی جاگیردار نہیں بلکہ ایک غریب گھر کا بیٹا تھا لیکن خدمت خلق نے ان کو عزت اور مقام دیا۔
یہ غم بڑا ہے لیکن جب سب دوست احباب مل بیٹھتے ہیں تو یہ غم تقسیم ہو جاتا ہے۔

،نصر اقبال بھائی یادوں کے پرت کھول رہے تھے،شہر سے دور گاوں میں رہتے تھے،ہم بیمار ہوتے تو اٹھا کے پیدل شہر جاتیں، ایک دفعہ تین بار چکر لگایا،خود دار تھیں،والد صاحب فوج میں حوالدار کلرک تھے،محنت کر کے بچوں کا پیٹ پالا،اسکول پیدل جاتے تھے۔آسائشیں اور فراوانی نہیں تھی۔تھوڑے تھوڑے فرق سے آٹھ بہن بھائی تھے۔سب کو اسی آمدن میں پالا پوسا،پڑھایا،رزق حلال کی برکت سے سب کو اس قابل بنا دیا کہ وہ اپنے پاوں پر کھڑے ہو سکیں۔والد صاحب بعد میں سعودی عرب اور پھر یو کے چلے گئے اور اس طرح رزق کی فراوانی کے راستے کھلے۔

جنوبی پنجاب میں سیاست دانوں کی اکثریت وڈیرہ ازم اور پیسے کے بل پر ہے۔طاہر اقبال چوہدری نے اس وڈیرہ ازم کے مضبوط قلعے میں دراڑ ڈالی اور خدمت سے لوگوں کے دل میں جگہ بنائی اور وہاڑی کے لوگوں نے ان کو سر پہ بٹھایا۔سب سے بنیادی اکائی یونین کونسل کے ناظم سے سفر کا آغاز کیا۔پھر دو دفعہ صوبائی اسمبلی کے ممبر بنے اور اب دوسری دفعہ قومی اسمبلی کے ممبر بنے ہیں۔پنجاب اور اسلام آباد کے ایوانوں میں طویل وقت گزرنے کے باوجود ان کے رویے میں تبدیلی نہیں آئی اور یہی ان کی کامیابی کی دلیل ہے۔تکبر اور رعونت جہاں آتی ہے وہاں سے پھر محبت اور احترام ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔طاہر اقبال جب تک اپنے سرمایہ کی حفاظت کرتے رہیں گے۔آگے بڑھتے رہیں گے۔ان کی خوش قسمتی ہے کہ نصر اقبال ،زاہد اقبال جیسے ان کے بھائی اور بے شمار دوست اور جان چھڑکنے والے لوگ ہیں۔نصر بھائی منسٹری آف پلاننگ سے چیف پلاننگ آفیسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔پوری سروس بے داغ گزاری۔ ہمہ وقت چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھتے ہیں۔ان کی مجلس سے اٹھنے کا دل نہیں کرتا۔موضوع جو بھی ہو،ایسے بات کرتے ہیں جس طرح یہی ان کا خاص موضوع ہو۔اس مصروفیات کے دور تعلقات استوار رکھنا کوئی ان سے سیکھے۔دفتر کے دوست، یونیورسٹی کے احباب، علمائے کرام ،مشائخ عظام سب سے ساتھ یکساں دوستی اور تعلق ہے۔چاہے اسلام آباد ہوں،وہاڑی ہوں یا برطانیہ،تعلق کو ٹوٹنے نہیں دیتے۔اور اس سارے تعلق کی غالب بنیاد دین ہے۔

اسی طرح جو احباب اور تنظیمیں پاکستان کی فلاح و بہبود میں کے لیے کام کر رہی ہیں ان سب کے لیے ایسے فعال اور متحرک ہوتے ہیں جیسے یہ ان کا اپنا ذاتی کام ہو۔جب سے تعلق بنا ہے آج تک اس میں کوئی رخنہ نہیں آیا،جب بھی ان سے ملتا ہوں ایسے لگتا ہے کہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ملاقات ہو رہی ہے۔

خیر بات ہو رہی تھی کہ طاہر بھائی یادوں کے پرت کھول رہے تھے۔کہ والدہ کو پہلے جوان بیٹے کی موت کا صدمہ اٹھانا پڑا۔بھائی ظفر اقبال، شادی سے عین دس دن قبل لاہور سے وہاڑی جاتے ہوئے راہی ملک عدم ہوئے، پھر نصر بھائی کی عزیز ترین بیٹی برطانیہ میں حادثے کا شکار ہوئی،ان حادثوں نے ان کو اندر سے توڑ دیا۔لیکن اولاد کے لیے وہ چلتی رہیں۔ابھی بیمار ہوئیں تو سارے بیٹوں نے جی جان سے خدمت کی ۔نصر بھائی بتا رہے تھے کہ وفات سے کچھ دن قبل والدہ نے کہا کہ مجھے کفن پنشن والے پیسوں سے ڈالنا۔چنانچہ ان کی پنشن والی کاپی لے کر ڈاک خانہ گئے ۔ان کی پنشن لی اور ان کی وصیت پر عمل کیا۔

مائیں ایک ہی طرح کی ہوتی ہیں۔خورشید ندیم کہ رہے تھے کہ میں نے ان کی والدہ سے نہیں ملا، لیکن اپنی والدہ کا طرز عمل یاد ہے۔اولاد کے لیے ہر وقت متفکر رہنا،ان کا خیال رکھنا،خود دھوپ میں رہنا اور اولاد کو چھاوں میں رکھنا،تو نصر بھائی کی والدہ بھی ایسے ہی ہوں گے۔جانا تو سب نے ہے۔قرآن نے ایسے موقع کے لیے نہایت خوبصورت الفاظ بتائے ہیں۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔

خورشید ندیم بول رہے تھے اور مجھے اپنی والدہ یاد آ رہی تھیں۔ہمارا گھر کارنر پر تھا۔صبح جب میں گھر سے نکلتا تو گھر کی چھت سے پہلے سامنے اور پھر دوسری طرف سے جاتا دیکھتی رہتیں۔کبھی کبھی صبح ناشتہ نہ کر کے جاتا تو سارا دن کہتی رہتیں کہ میرا بیٹا ناشتہ نہیں کر کے گیا۔اپنی خوشی کو قربان کر دینا اور اولاد کے لیے ہر چیز مہیا کرنا۔

ہر ماں کی یہی کہانی ہے۔اسی سی دنیا کا حسن ہے۔یہ کہانی یوں جاری رہے گی۔
یہ چمن یوں ہی رہے گا اور ہزاروں بلبلیں
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے