انا کا آتش فشاں اور دیسی لبرلز

15دسمبر کے ایک قومی اخبار میں میرے ممدوح کالم نگار رقم طراز ہیں کہ "16دسمبر محض ہمارے بچوں کی برسی نہیں، ان عناصر کی نشان دہی کا دن ہے جو دہشت گردی کی آبیاری کرتے ہیں اور ’سود‘ کے احکامات کی آڑ میں قومی معیشت کو مفلوج کرتے ہیں۔ ”
گویا قرآن و سنت کے احکامات کی بالادستی کے قائلین دہشت گردوں کے پشتی بان ہیںـ اگر ایسا ہے تو 1949 میں پاس ہونے والی قرارداد مقاصد سے لے کر بعد میں مختلف ادوار میں دساتیر پاکستان کی تشکیل تک میں حصہ لینے والوں کے متعلق کیا ارشاد فرمائیں گے؟

اجتماعی دانش متفقہ طور پر ایک آئین کی صورت گری کرتی ہے اور اس میں آپ کے نقطہ نظر کے برعکس ہی سہی، لیکن جمہوری بنیادوں پر ایک چیز پر اتفاق پاجاتا ہے، مگر آپ جمہوری رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے قبول کرنے کے بہ جائے دل میں لئے بیٹھے ہیں اور آئین کی ان متفقات پر نشتر چلائے جا رہے ہیں۔ کیا آپ کے نزدیک جمہوریت بھی وہی قابل قبول ہے، جس میں جمہور کا فیصلہ آپ کے نقطہ نظر کے عین مطابق ہوـ وگرنہ جمہور اور ان کا کوئی بھی فیصلہ آپ کے معیارِ جمہوریت پر پورا نہیں اتر پائے گا؟

مزید ارشاد ہوتا ہے کہ "گزشتہ برس دسمبر کا تیسرا ہفتہ تھا۔ قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم پر بحث کے دوران ایک نورانی صورت بزرگ کاغذ کے ٹکڑوں پر کچھ لکھ کر ارکان اسمبلی میں پیغام رسانی کر رہے تھے۔ کھٹک پیدا ہوئی کہ حضرت کیا چاہتے ہیں۔ خبر آئی کہ انہیں دہشت گردی کی تعریف میں مذہبی شناخت شامل کرنے پر اعتراض ہے اور چاہتے ہیں کہ ’ہر طرح کی دہشت گردی‘ کی ترکیب استعمال کی جائے۔ واضح رہے کہ یہ وہی عناصر ہیں جو پندرہ برس تک درس دیتے رہے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان میں فرق کیا جائے۔ القاعدہ اور طالبان میں تفریق کی جائے۔ فرقہ پرست تنظیموں اور پنجابی طالبان میں امتیاز کیا جائے۔ نیز یہ کہ طالبان اچھے اور برے ہوتے ہیں۔ اب انتہا پسند سوچ کے دفاع کا ایک اور انداز اپنایا جا رہا تھا۔ قوم نے دہشت گردی کے قلب کی طرف بندوق کا رخ پھیرا تو آواز آئی کہ دہشت گردی کی لغت تو بسیط ہے۔ ارادہ یہ تھا کہ بہت سی دھول اڑائی جائے تاکہ اس کی آڑ میں اپنے پسندیدہ دہشت گردوں کو پتلی گلی سے فرار ہونے کا موقع مل سکے۔ ”

نہ جانے تو صحافتی چوپال کے میرے ممدوح حاشیہ نشیں ہی نہ جانیں وگرنہ ‘جہان’ تو سارا جانے ہے کہ افغانستان کے شمالی اتحاد کا انڈین اور طالبان کا تعلق پاکستانی کیمپ سے ہےـ کیا ہمارے وزیراعظم کا یہ حالیہ بیان ریکارڈ پر موجود نہیں، کہ افغان طالبان پر ھم کنٹرول نہیں، اثر رکھتے ہیں؟ زیرِ اثر دوست ہوا کرتے ہیں یا دشمن؟ کبھی دشمن کو بھی کسی ریاست نے اپنے زیر اثر تسلیم کیا ہے؟ تو پھر پاکستانی اور افغان طالبان اور القاعدہ اور طالبان میں امتیاز کے ریاستی بیانیے کو کسی شخصیت یا مخصوص جماعت کے کھاتے میں ڈالنے کو تجاہل عارفانہ کہئے گا یا انا کے آتش فشاں پر بیٹھ کر کی جانے والی شعلہ باری ـ

یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ فرقہ پرست تنظیموں اور پنجابی طالبان کا پشتی بان بھی اس ‘نورانی صورت بزرگ’ کو قرار دیا جا رہا ہے، جو خود اور ان کی جماعت ہمیشہ ان عناصر کے نشانے پر رہےـ خود ان پر تین دفعہ خود کش حملہ ہواـ ان کی جماعت کے صوبائی امیر اور رکن قومی اسمبلی کو منکر جہاد کہہ کر حملے کا نشانہ بنایا گیاـ ان کی جماعت کے اہم رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی مفتی حسن جان کو خود کش حملوں کو حرام قرار دینے کی پاداش میں شہید کر دیا جاتا ہے ـ وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی اور ان کی جماعت کے قبائلی علاقہ جات کے امیر مولانا معراج الدین اور اسی ‘نورانی صورت بزرگ’ کے استاد اور ان کی جماعت کے اہم رہنما لکی مروت سے مولانا محسن شاہ کو مبینہ طور پر وہی عناصر شہید کر دیتے ہیں، جن کی پشت پناہی کا الزام میرے ممدوح کالم نگار ‘نورانی صورت بزرگ’ پر ہی لگا رہے ہیں ـ

اس ‘نورانی صورت بزرگ’ کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، مگر وطن عزیز میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور فرقہ واریت کے خلاف ان کی عملی جدوجہد سے انکار بدترین طوطا چشمی ہےـ کیونکہ جب شدت پسندوں کی طرف سے جمہوریت کو کفریہ نظام کہہ کر آئین پاکستان کو تسلیم نہ کرنے کی باتیں ہو رہی تھیں، تب وہ آئین کی بالادستی اور جمہوری جدوجہد کی بات کر رہے تھےـ دینی نوجوان شدت پسندوں کی بات سے متاثر ہو کر جب بندوق کی طرف متوجہ ہو رہا تھا اس وقت یہیں ‘نورانی صورت بزرگ’ اس نوجوان کے ہاتھوں میں بندوق کی بجائے سیاسی جماعت کا جھنڈا دے کر بیلٹ، دلیل اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے نظام کی تبدیلی پر اس نوجوان کا یقین قائم رکھے ہوئے تھےـ یہی نہیں، جب وطن عزیز کے امن کو جس وقت فرقہ واریت کا عفریت نگل رہا ہوتا ہے، تو وہ متحدہ مجلس عمل کے عنوان سے تمام مسالک کا اتحاد بنا کر فرقہ واریت کی دیواریں منہدم کرتے نظر آتے ہیں اور اس جرم کی پاداش میں فرقہ پرست جماعتوں کے ہاں مطعون قرار پاتے ہیںـ
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

ہم مردہ پرست قوم ہیں ـ کسی شخص کی خدمات کا اعتراف اس کی زندگی میں کرنا ہمیں گوارا نہیں ـ زندگی میں اس کی مثبت باتوں کو بھی منفی معنی کا چوغہ ہی پہنائیں گےـ اگر تعریف کرنے پر آئیں گے، تو اس کی خامیاں بھی ہمیں خوبیاں نظر آئیں گی اور تنقید کریں گے تو اس قدر کہ اس کی خوبیوں پر بھی گرد کی دبیر تہہ جما کر چھوڑیں گے. تنقید کرنا ہو یا تعریف مبالغہ آرائی ہمارا وتیرا بن چکا ہے۔

پختون ہونے کی بنا پر کراچی اور پنجابی ہونے کی بنا پر بلوچستان میں مارے جانے والے مزدوروں کا قتل دہشت گردی کی زد میں نہیں آتا اور صرف مذہبی بنیادوں پر ہونے والی درندگی کو ہی دہشت گردی کا نام دینا اگر قرین انصاف قرار پاتا ہے تو اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ میرے ممدوح کسی وجہ سے اس ‘نورانی صورت بزرگ’ پر خار کھا بیٹھے ہیں۔

تسلیم کہ اس ‘نورانی صورت بزرگ’ کی ‘دیسی لبرلز’ والی بات میرے ممدوح کے طبع نازک پر گراں گزری ہےـ مگر بھڑاس نکالنے کیلئے حقائق سے کھلواڑ کا نام صحافت نہیں اور پھر یہ کار خیر بھی ان کے ہاتھوں انجام پائے جن کی ‘برداشت’ کو حسن کوہ قاف کی سی شہرت حاصل ہوـ اس پر افسوس نہیں تو کیا کیجئے گا؟
کیا دایاں، کیا بایاں، شدت پسندی شاید ہمارے ہر ہر طبقے کے افراد میں سرایت کر چکی اور خلعتِ اعتدال ہم تار تار کر چکےـ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے