بنو قریظہ _حقیقت واقعہ

مدینہ کے تین بڑے یہودی قبائل میں سے بنو قینقاع اور بنو نضیر کی بدعہدی کے نتیجے میں جلاوطنی کے بعد یہی ایک قبیلہ مدینہ میں رہ گیا تھا. بنو نضیر مدینہ چھوڑ کر خیبر میں آباد ہوگئے، اپنی تمام منقولہ جائداد ساتھ لے گئے تھے.

وہاں پہنچ کر ان کے رئیس حیی بن اخطب نے مسلمانوں سے انتقام لینے کا بیڑا اٹھایا اور سارے عرب کے غیر مسلم، غیر معاہد قبائل کو مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے تیار کیا اور تمام جنگی اخراجات اور نقصانات کی تلافی کا معاہدہ کر کے ابوسفیان کی قیادت میں دس ہزار فوج کو لاکر مدینہ کا محاصرہ کروا لیا. مسلمانوں نے مدینہ کے تحفظ کے لئے مدینہ کے گرد کھلے علاقے میں پانچ میل لمبی خندق کھود کر دفاع کا انتظام کیا. حیی بن اخطب کا بنو قریظہ سے مسلسل رابطہ تھا اور شروع میں وہ معاہدے کی خلاف ورزی کے لیے تیار نہیں تھے لیکن اتنی بڑی فوج کو دیکھ کر وہ بھی رسول اللہ سے آمادہ پیکار ہو گئے. رسول اکرم نے چار صحابہ کرام کو بھیج کر معلوم کیا تو رپورٹ ملی کہ وہ معاہدے پر عملدرآمد نہیں کریں گے.

سنگینی کا اندازہ اس سے کیجئے کہ بنو قریظہ کے قلعے مدینہ سے پیدل پانچ چھ گھنٹے کی مسافت پر تھے اور اس طرف خندق تھی نہ کوئی دفاعی انتظام. اطلاع ملی کہ بنو قریظہ کی طرف سے بیرونی حملہ آوروں کے دو ہزار افراد داخل ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہو جائیں گے جہاں صرف عورتیں، بچے اور معذور افراد تھے. رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانچ سو افراد کا ایک جتھہ رات کو مدینہ کے گشت پر مامور فرما دیا جس کی وجہ سے وہ پلان کامیاب نہ ہوا.

بیرونی حملہ آور طویل محاصرے، دوبدو جنگ نہ ہونے، رسد کی کمی سواریوں کی روزبروز واقع ہونے والی کمی اور ایک روز شدید آندھی کے باعث مہم نامکمل چھوڑ کر لوٹ گئے.

جنگ ختم ہو گئی لیکن اللہ نے حکم دیا کہ بنو قریظہ سے جنگ کی جائے. بنو قریظہ قلعہ بند ہو گئے لیکن محاصرے کی شدت کے ساتھ ساتھ مختلف پیش کشیں کرتے رہے. ان کا خیال تھا کہ انہیں بھی بنو نضیر والی رعایت مل جائے گی لیکن جب وہ ہتھیار ڈال کر باہر اگئے تو ان کے حلیف سعد بن معاذ نے فیصلہ کیا کہ ان کے جوان مرد قتل کر دئیے جائیں اور عورتوں بچوں کو غلام بنا لیا جائے. مسلم مورخین بنو قریظہ کے مقتولین کی تعداد 500سے 900 تک بتاتے ہیں. یہودی جو تاریخ نویسی اور قومی وقائع نگاری میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے صدیوں تک اس واقعہ کی تفصیلات اور مقتولین کی تعداد کے بارے میں خاموش رہے. ہمارے عہد کے مسلم اور یہود تاریخ نگاروں نے اسے یہود کے قتل عام سے تعبیر کیا اور کچھ لوگوں نے رحمت للعالمینی پر بھی سوال اٹھایا.

[pullquote]مقتولین کی حقیقی تعداد کیا تھی؟[/pullquote]

اس تعداد کے رواۃ بنو قریظہ کے نوعمر لڑکے ہیں جو بعد میں مسلمان ہوگئے بالخصوص کعب القرظی. فطری طور پر انہوں نے خاندانی نقصان کو مبالغہ سے بیان کیا ہوگاجبکہ اس دور میں اعداد و شمار کے رجسٹر تیار کرنے کا کوئی رواج نہیں تھا، اسی وجہ سے جنگ جمل اور جنگ صفین کے مقتولین کی غیر معمولی تعداد وہاں کی مجموعی آبادی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے. آج بھی پانچ ہزار کا جلسہ بآسانی پچاس ہزار سے پانچ لاکھ تک ہو جاتا ہے. روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا علی اور زبیر بن عوام نے ایک یا تین دن میں اتنے لوگوں کو تہہ تیغ کیا. یہ بیان بھی درایت پر پورا نہیں اترتا. ایک بندہ لگاتار سینکڑوں کو قتل کر رہا ہے. اس کی نفسیاتی کیفیت کیا رہی ہوگی؟ تمام قیدی مدینے کے صرف دو مکانوں میں رکھے گئے تھے. ان کے اجساد دبانے کے لیے بازار کے پہلو میں ایک خندق کھودی گئ تھی جس کے بعد میں نشانات نہیں ملے.

[pullquote]قرآن کے الفاظ ہیں:[/pullquote]

فریقا تقتلون و تاسرون فریقا ۔ فریق کا ترجمہ ہے Section جو بالعموم بیس پچیس افراد پر مشتمل ہوتا ہے. اس آیت سے لگتا ہے کہ صرف وہ لوگ جو بغاوت کے سرغنہ تھے انہیں ٹھکانے لگا دیا گیا.

رہی یہ بات کہ معاف کیوں نہیں کیا گیا تو بنونضیر کو معاف کرنے کا نتیجہ غزوہ خندق کی شکل میں ظاہر ہوا. انہیں معاف کر کے اس سے بڑے فتنے کو دعوت دینا ہر گز دانشمندی کا تقاضا نہیں تھا.

ان پر فوری حملہ اس وجہ سے کیا گیا کہ مدینہ میں منافقین کہتے پھر رہے تھے کہ حملہ آور واپس آئیں گے اور ساتھ یہ کہ ہم سے وعدے تو قیصر و کسری کی ریاستوں کے تھے اور حالت یہ ہے کہ قضاء حاجت کے لیے جانا ممکن نہیں بلغت القلوب الحناجر.

یہودی مورخین بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ یہ کاروائی یہود کے خلاف نہیں تھی کیونکہ اس کے بعد بھی مدینہ منورہ میں درجنوں یہودی خاندان برسوں امن و سکون سے رہے، نہ انہیں کوئی خوف تھا اور نہ کسی نے پریشان کئے. یہ صرف بغاوت کو فرو کرنے کا عمل تھا.

[pullquote]ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی
ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی ممتاز ماہر تعلیم اور محقق ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد اور ہائی ٹیک یونیورسٹی ٹیکسلا میں تدریسی وانتظامی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔
tufailhashmi@gmail.com[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے