سعودی حکومت نے اپنی روایات جاری رکھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ 2۔4 بلین ڈالر کے دو معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔سعودی ڈیولپمنٹ فنڈ کے چئیرمین محترم احمد بن عقیل الخطیب کی طرف سے اس معاہدے پر فنڈ کے سی ای او جناب سلطان بن عبدالرحمن نے دستخط کیے۔
اسلام آباد کے سفارتی انکلیو میں یوں تو سینکڑوں سفارت خانے اور ہزاروں سفارت کار ہیں۔اور آئے دن کوئی نیا آتا ہے اور پرانا واپس چلا جاتا ہے۔لیکن بری امام کے پہاڑوں کے دامن میں کلمے والے سبز پرچم والی عمارت سب سے نمایاں ہیں۔اور اس عمارت کے مکینوں کا اس ملک اور عوام کی بہتری کے لیے ہمیشہ نمایاں کردار رہا ہے۔اور یہ عمارت سعودی عرب کا سفارت خانہ ہے۔آج کل اس کے مکین عزت مآب نواف سعید المالکی ہیں۔
اگرچہ اس عمارت کے تمام مکین دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔لیکن ان میں 70 کی دہائی میں ریاض الخطیب اور دو ہزاری میں علی عواد العسیری کے نام یاد رکھے جانے والوں میں ہیں۔لیکن ان سب میں نمایاں ترین نام نواف بن سعید المالکی کا ہے۔بیوروکریٹس اور ڈپلومیٹس میں یہ وصف مشترک ہے کہ آپ کے ساتھ اچھا بھلا تعلق ہو گا لیکن جب آپ کوئی کام کہیں گے تو اس کے بعد آپ فون پے فون کریں ،صاحب آپ سے بات نہیں کریں گے۔لیکن جناب نواف اس کے بالکل برعکس ہیں ویسے ہو سکتا ہے کہ رابطہ کم رہے لیکن اگر آپ نے کوئی کام کہا ہے تو پھر جب تک آپ کا کام نہ ہو جائے سفیر محترم آپ سے خود رابطہ رکھیں گے۔یہ ایسی خوبی ہے جو ہم نے بہت ہی کم لوگوں میں دیکھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ نواف صاحب صرف حکومت ہی نہیں عوام اور تمام طبقات میں نہایت مقبول ہیں۔اور ان کے عرصہ سفارت میں اہم ترین معاہدے ہوئے اور سعودی عرب نے ایک بھائی کی طرح پاکستان کی بھرپور مدد کی۔
جناب نواف 1970ء میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوئے۔گریجویشن کی ڈگری میرین اورملٹری سائنس میں کنگ فہد نیول اکیڈمی کنگ عبدالعزی نیول بیس الجبیل سے حاصل کی۔جبکہ ماسٹر ڈگری کمانڈ اینڈ سٹاف کالج سے حاصل کی۔
انھوں نے اپنی زندگی کے بہترین ماہ و سال سعودی نیوی میں گزارے۔مختلف مدارج طے کرتے ہوئے رئیر ایڈمرل بنے۔
2014ء میں پاکستان میں ایڈمرل تعینات ہوئے۔اسی دوران الشیخ علی محمد ابو تراب کے ہمراہ ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔تب بھی اور آج بھی ان کو خوش مزاج اور خوش گفتار پایا۔
2017 ء میں آپ پاکستان میں ہی سفیر تعینات ہوئے۔اپنی نوعیت کا یہ منفرد واقعہ ہے۔پہلے آپ کی بطور رئیر ایڈمرل ترقی ہوئی اور اس کے بعد آپ نیوی سے ریٹائر ہو کر سفیر خادم الحرمین الشریفین بن گئے۔اور یوں ان کی خدمات کا ایک نیا باب کھل گیا۔
جناب نواف جب تعینات ہوئے تب نوازشریف کی حکومت تھی اور اب عمران خان کی حکومت ہے۔یہ بات درست ہے کہ نوازشریف سعودی عرب کے بہت قریب تھے۔لیکن نئی حکومت میں بھی سعودی عرب کی طرف سے کوئی فرق نہیں آیا۔بلکہ موجودہ دور میں سعودی ولی عہد سمو الامیر محمد بن سلمان بن عبدالعزیز ایک بڑے وفد کے ہمراہ جس میں ہمارے محب شیخ صالح آل الشیخ بھی شامل تھے ،پاکستان آئے اور اس دوران بہت سارے معاہدوں پر دستخط ہوئے۔
اب تازہ ترین دو معاہدے ہوئے ہیں۔پہلا معاہد کراچی میں ہوا جس پر گورنر اسٹیٹ بنک رضا باقر اور فنڈ کے سی ای او نے کراچی میں دستخط کیے۔اس موقع پر قونصل جنرل بندر بن فہد الدین بھی موجود تھے۔اس معاہدے میں مملکت کی طرف سے پاکستان کے مرکزی بنک غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کی 3 بلین ڈالر کاڈپازٹ شامل ہے۔
دوسرا معاہدہ 2۔1 بلین ڈالر کا ہوا۔جو کہ پٹرولیم مصنوعات کی تجارت کے لیے مختص ہے۔اس معاہدے پر وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور عمر ایوب خان نے وزارت کے دفتر میں سعودی سفیر جناب نواف بن سعید المالکی کی موجودگی میں اس پر دستخط کیے۔
اس مناسبت سے سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ کے سی ای او نے کہا: "آج ہم یہ دو معاہدے پاکستانی وزارت تجارت اور مرکزی بینک کے ساتھ دستخط کر رہے ہیں، اس فراخدلانہ حکم پر جو خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز، اور ان کے ولی عہد عالی مقام، شہزادہ محمد بن سلمان، نے دیا ہے تاکہ پاکستان کے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کو بہتر بنایا جاسکے اور پٹرولیم مصنوعات کی تجارت میں مدد مل سکے تاکہ پاکستان کو معاشی ترقی حاصل ہو اور کورونا وباء سے پیدا ہونے والی مشکلات میں مدد ملے”۔
انہوں نے مزید کہا: "یہ دونوں معاہدے اس امداد کی ایک کڑی ہے جو مملکت سعودی عرب، سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ کے ذریعے جمہوریہ پاکستان کو پیش کرتی رہی ہے، سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ نے اپنے قیام کے بعد سے 333 ملین ڈالر سے زائد رقم کے (3) گرانٹس فراہم کیے، تاکہ تعلیم صحت اور بنیادی ڈھانچے کے (23) پروجیکٹس کو انجام دینے میں مدد ملے، اس کے علاوہ (20) ترقیاتی قرضے تقریباً (1) بلین ڈالر کے فراہم کیے، تاکہ توانائی، پانی، ٹرانسپورٹ اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں مدد ملے، اس کے علاوہ ماضی میں سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ نے سعودی ایکسپورٹ پروگرام کے ذریعے (12) مالیاتی آپریشن پیش کیے جس نے مجموعی طور پر 4.7 بلین ڈالر کی ایکسپورٹ کی ضمانت دی، جوکہ پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے مددگار ہوتا ہے، تاکہ پاکستانی عوام معاشرتی اور معاشی ترقی حاصل کرے اور خوشحال زندگی گزارے”۔
اپنی طرف سے پاکستانی وزیر برائے معاشی امور، عمر ایوب خان، نے سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ کی طرف سے پیش کردہ سپورٹ پر حکومت اور پاکستانی عوام کی طرف سے خادم حرمین شریفین اور عالی مقام ولی عہد -حفظہما اللّٰہ- سعودی حکومت اور عوام کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے اس بات کی وضاحت بھی کی کہ یہ سپورٹ پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرے گی اور اس پریشر کو کم کرے گی جس کا سامنا پاکستانی کرنسی کو ہے، اس کے علاوہ ایکسپورٹ کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ: پاکستان، مملکت کی طرف سے ہر مشکل گھڑی میں سچائی کے ساتھ کھڑے رہنے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، یہ سپورٹ بھی مملکت کی طرف سے اس وقت آئی جبکہ پاکستان کو شدید اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ مملکت کی طرف سے پاکستانی معیشت کے لیے مسلسل سپورٹ کے نتیجے میں پاکستان نے G-20 کے ذریعے مملکت نے جو قرضوں کی مؤخر ادائیگی کا پروگرام پیش کیا اس سے پاکستان کو فائدہ پہنچا، جس کے نتیجے میں پاکستان کے قرضے مؤخر کیے گئے جن کی مالیت 3 بلین ریال سے زیادہ تھی، اس علاوہ فنڈ کی طرف سے وہ ترقیاتی قرضے بھی مؤخر کیے گئے جن کی مالیت تقریباً 152 ملین ریال ہے۔
فنڈ کے بارے میں:
1975 میں اپنے قیام کے بعد سے، سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ نے دنیا کے 84 ممالک میں 694 سے زیادہ منصوبوں کی مالی معاونت کی ہے۔ 47 سال سے زیادہ عرصے سے، فنڈ نے ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو سپورٹ کیا اور ترقی کے لیے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو سپورٹ کیا، اور بہت سے معاشروں کے لیے ترقی اور خوشحالی حاصل کی ہے۔ فنڈ دینے کی اپنی بنیادی اقدار سے متاثر ہو کر ترقیاتی منصوبوں کی حمایت کرتا ہے، کیونکہ فنڈ سب کے لیے خوشحالی کے اصول پر یقین رکھتا ہے، اور دوسروں کو مدد کے پہلو فراہم کرتا ہے۔ ان کمیونٹیز کے لیے فنڈ کی شراکتیں اس کے تجربے سے آتی ہیں، جسے تکنیکی اور علمی مدد فراہم کرنے کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے، جس کا مقصد ایک بہتر مستقبل کی تعمیر اور ترقی پذیر کمیونٹیز کے لیے حقیقی اور ٹھوس فوائد حاصل کرنا ہے۔
ان معاہدوں میں جناب نواف بن سعید المالکی کا اہم ترین کردار ہے۔دونوں ممالک کو قریب لانے میں آپ کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔آپ کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان میں سعودی عرب اور سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر ہیں۔
ایک موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ایک بیان کی وجہ سے خاصا تناؤ پیدا ہوا لیکن جناب نواف نے کمال حکمت اور مصالحت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسئلے کو طوالت سے بچایا اور دونوں اطراف نہ صرف سرد مہری سے بچایا بلکہ دوبارہ تعلقات کو پرانی نہج پر لے گئے۔اور یوں ہم ایک دوست اور بھائی کو کھونے سے بچ گئے۔
جناب نواف کا رویہ ہمیشہ مشفقانہ اور برادرانہ ہوتا ہے۔ان کے ساتھ نشست و برخاست کے خاصے مواقعے ملے اور ہمیشہ ان کو مشفق پایا ۔ان کی موجودگی میں امام کعبہ شیخ صالح آل طالب دو مرتبہ پاکستان تشریف لائے،اسی طرح امام کعبہ شیخ صالح بن حمیدبھی آئے۔ہر دل عزیز مدبر سیکرٹری جنرل رابطہ عالم اسلامی ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی بھی تشریف لائے۔امام کعبہ شیخ عبداللہ الجہنی بھی تشریف لائے۔اتنے کم عرصہ میں یہ دورے بھی نہایت اہمیت کے حامل ہیں اور ان دوروں کے اہتمام میں بھی جناب سفیر خادم الحرمین الشریفین کا گہرا کردار ہے۔
ان دوروں میں سابق وفاقی زیر مذہبی امور سردار محمد یوسف اور مشفق و مہربان سابق وفاقی وزیر مواصلات سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم کے ساتھ ان کے اہتمام میں مجھے بھی شمولیت کاشف حاصل رہا۔اس دوران سفیر صاحب کے ساتھ سفر کرنے کے مواقع بھی حاصل ہوئے۔ہر جگہ ان کا کردار قابل تعریف رہا۔
اجتماعات میں مختلف مواقع آتے رہے لیکن میں نے ہمیشہ ان کو پرسکون پایا۔
طویل عرصہ سے مانسہرہ اور مظفر آباد میں سعودی عرب کی جانب سے بنائی گئی مساجد کا افتتاح نہیں ہو سکا تھا۔اب جناب سفیر کی خصوصی کاوشوں سی مساجد حکومت پاکستان کے حوالے کر دی گئی ہیں۔گذشتہ دنوں سعودی سفارت خانے میں ایک خصوصی تقریب ہوئی جس میں حکومت پاکستان کی طرف سے وفاقی وزیر مذہبی امور پیر ڈاکٹر نور الحق شریک ہوئے۔اس موقع پر مساجد حوالگی کا معاہدہ ہوا جس پر جناب سفیر اور وزیر مذہبی امور پاکستان نے دستخط کیے۔
اگر ہمارے سفیر بھی ہر ملک میں اسی طرح فعال ہوں تو ہمارے مسائل میں خاصی کمی ہو سکتی ہے۔