بدلتی دنیا اور ہمارا تہذیبی جمود

مبارک حیدر صاحب نے ایک شاندار تحریر مرتب کی تھی جس کا عنوان تھا تہذیبی نرگسیت۔ جس میں انہوں نے مسلمانوں کی اپنے آپ سے اور اپنے ماضی سے رومانویت کا برملا اظہار کیا لیکن انہوں نے اس کے پیچھے محرکات اور اسباب کے اوپر زیادہ روشنی نہیں ڈالی جس نے ہماری تہذیب کو جمود کا شکار کر دیا ہے۔ اس موضوع کے اوپر مفصل بیانیہ لکھنے سے پہلے ہمیں خود تہذیب کے عناصر ترکیبی کے بارے میں جاننا ضروری ہوگا. تہذیب دراصل کسی معاشرے کی بامقصد تخلیقات اور سماجی اقدار کے نظام کا نام ہے تہذیب دراصل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں کسی درخت یا پودے کو کاٹنا اور چھاٹنا حتیٰ کہ اس میں نئی شاخ نکلے اور نئی کونپلیں پھوٹیں۔ اس لئے ہماری تہذیب میں جمود کی وجہ یہی ہے کہ ہم نےپہلی تہذیب کو جو ہمیں ورثے میں ملی ہے کانٹا چھانٹا نہیں حالانکہ وہ تہذیب زراعت کے زمانے کی تہذیب تھی الٹا ہم نے اس کی بقا اور تحفظ کیلئے سرگرم عمل رہے۔

دنیا کی ہر تہذیب کی تشکیل چار عناصر ترکیبی سے مل کر ہوتی ہے جس میں(1) طبعی حالات (2) آلات معاش (3) نظام فکر و احساس اور (4) سماجی اقدار۔ ان عناصر میں نہ مشرق و مغرب کی تخصیص ہے اور نہ بلند و پست کی قیدیہ وہ عالمگیری عناصر ہیں جو کسی نئی تہذیب کو جنم دیتے ہیں۔ لیکن ہماری اشرافیہ تہذیب سے مراد شائستگی اور اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے کا انداز اور رہن سہن کےطریقے کو تہذیب کا نام دے کر ہر اس شخص کو غیر مہذب اور ولگر قرار دیتے ہے جو جدید اور آجکی دنیا کی تہذیب کے مختلف موضوعات اور پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے۔کیونکہ یہ لوگ تہذیب کے تخلیقی عمل میں نہ خود شریک ہوتے ہیں نہ اس عمل کو اجاگر کرنے کی کوشش کرنے دیتے ہیں۔اور نہ ہی تخلیقی عمل اور تہذیب میں جو رشتہ ہے اس کی اہمیت کو محسوس کرنے دیتے ہیں۔وہ تہذیب کی نعمتوں سے تو لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں مگر فقط تماشائی کی صورت میں نہ کہ اداکار اور کردار کی صورت میں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نئی نسل کی آنکھوں سے تہذیب کا تخلیقی کردار اوجھل ہے وہ صرف آداب مجلس اور بڑوں کے احترام کو ہی تہذیب کا نام دیتے رہے ہیں ۔اس لیے جب بھی وہ تہذیب اخلاق کا ذکر کرتےہیں تو اس سے ان کی مراد طہارت یا اصلاح نفس ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ تہذیب کی بات کو دین کی بات سے ملا کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مذہبی اشرافیہ نے مہذب ہونے کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور مہذب اور غیر مذہب کی شرائط اور قوانین بھی وضع کررکھے ہیں۔اور ایک شاعر ادیب اور سائنسدان جو تخلیقی کردار ہیں کسی بھی تہذیب کا اس کی بودوباش کی وجہ سے نوجوان اسے غیر مہذب اور غیر معیاری سمجھتا ہے۔ اور اس لیے ان کی محافل میں بیٹھنا بھی غیر مہذب ہونے کے مترادف سمجھا جاتا ہے

اسی طرح تہذیب کی تشکیل و تعمیر میں طبعی حالات کو بڑا دخل ہوتا ہے یعنی ہر تہذیب کا اپنا ایک مخصوص جغرافیہ ہوتا ہے مثال کے طور پر اگر ہم اپنے ملک کی تہذیب میں طبعی حالات کو مدنظر رکھیں تو ہمارے ملک کے طبعی حالات بہت ہی موزوں تھے جس میں ایک انسان پرسکون زندگی گزار سکتا تھا جس ملک میں چاروں طرف دریا ہوں پہاڑوں صحرائوں ندی نالوں کا شورش ہو اور موسم بھی زیادہ شدید نہ ہوں جن کی وجہ سے زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہوں تو لامحالہ اس علاقے میں تہذیب کے جمود کا شکار ہونا کوئی بہت بڑی وجہ نہیں ہو سکتی۔

خارجی حالات سے کسی قوم کی تہذیب ہی متعین نہیں ہوتی بلکہ افراد کی شخصیت کو بنانے اور بگاڑنے میں بھی خارجی ماحول کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے مثال کے طور پر شہروں کی تنگ و تاریک گلیوں میں رہنے والے بچوں اور دیہاتوں کے کھلے میدانوں میں کھیلنے والے بچوں میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔پہلی دنیا کے انسان اپنے طبعی ماحول سے لڑنے کے لئے بہت جدوجہد کرتے تھے اور اس ماحول کو بدلنے کی یاسے مسخر کرنے کی جدوجہد میں لگے رہتے تھے چنانچہ ترقی یافتہ قوموں نے اپنے طبی ماحول کو اسرنو بدل کر کےرکھ دیا ہے اس لئے ان کی بودوباش نمائش و آرائش میں نمایاں فرق دیکھا جا سکتا ہے۔

لیکن پاکستان کے طبی حالات سینتالیس سے لے کر اب تک بدتری کا شکار ہوئے ہیں مثال کے طور پر ہمارے شہروں اور دیہاتوں میں پینے کے پانی میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے کچھ علاقوں میں اوّل تو میسر نہیں ہے اگر میسر ہے تو وہ پینے کے قابل نہیں ہیں۔ماحولیاتی آلودگی کا تو یہ حال ہے کہ لاہور دنیا کا پہلا آلودہ شہر کراچی ساتویں فیصل آباد پانچویں نمبر پر۔ اسی طرح ہم پہلے دس سے پندرہ کی لسٹ میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔جو ہماری آنے والی نسل کی تہذیب کے لیے ایک موذی مرض سے کم نہیں ہوگی۔ ہمارے آنے والی نسل اپنی بقا کے لیے طبعی ماحول سے لڑنے کے لیے اور اس ماحول کی حفاظت کے لیے اپنی نسلیں قربان کریں گی۔ اورتو اور ہمارے نزدیک بہتر طبعی ماحول سے مراد اونچی اونچی شاندار عمارتیں بنانا اور ان کو سنوارنا ہے۔ انسان کے افعال اور نیچر کے قاعدوں میں نسبت قریبی ہےنسان نیچر کو تبدیل کرتا ہے اور پھر نیچر انسان کے افعال کو تبدیل کرتی ہے۔

تہذیب کا دوسرا سب سے بڑا رکن آلات واوزارہیں۔مثال کے طور پر پتھر کے زمانے سے لے کر آج ٹیکنالوجی کے زمانے تک آلات اور تہذیب میں تعلق پر نظر دوڑائیں تو ہر ایک زمانے میں آلات پیدوار اور اس زمانے کی تہذیب دوسرے زمانے سے مختلف ہوگی۔ اگرچہ ہم ٹیکنالوجی اور نالج اکانومی کے آلات کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں مگرآلات اور انکا استعمال ابھی بھی زراعت کے زمانے سے نہیں نکلا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم جدیدآلات اور پیداوار کے پورے نظام کا حصہ ہی نہیں ہیں ہمارے ملک میں کتنے ٹیکنالوجی کے کارخانے موجود ہیں کتنے ٹیکنالوجی کے ورکرز موجود ہیں۔اگر ہم خالی دوسری طرف اپنے ہمسایہ ملک انڈیا کی طرف نظر دوڑائیں تو دنیا کی جو ٹیکنالوجی کی سب سے بڑی کمپنیاں ہیں ان کے سربراہان کا تعلق بھارت سے ہے اس کی وجہ ہے کہ بھارت نے ٹیکنالوجی اور انفارمیشن کی دنیا کو فروغ دیا ان کی یونیورسٹیوں میں ان کے اوپر بہت بحث و مباحثہ اور تحقیق ہوئی مگر دوسری طرف ہماری یونیورسٹیوں نے نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی۔تو آج ہمارا نوجوان بھی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت میں مگن ہے۔

تیسری وجہ نظام فکر و احساس ہوتا ہے اس لئے شعور ابتدا ہی سے سماجی شعور رہا اور اس کا ارتقاء کا بھی سماجی ارتقا سے وابستہ ہے لیکن ہمارا سماجی شعور نیچر یعنی قدرت کے برعکس ہے جس کی وجہ سے ہم مظاہر قدرت سے ہمیشہ ٹکراتے پھرتے ہیں ہم نے مظاہر قدرت اوراسکے مختلف عناصر کو غیبی طاقتوں کے تابع سمجھا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے اوپر صدیوں سےرائج مطلق العنان قوتیں ہیں پھر ہم نے جس طرح سے زمین پر مطلق العنان حکومتیں تھیں اسی قسم کا مطلق العنان حکومت کا تصور آسمان کی نظر بھی کر دیا جس طرح زمین پر عام انسانوں کےجز و کل کا مختار ایک بادشاہ ہوتا ہے اسی طرح کے تصورات کو ہم نے نیچر کے ساتھ منسلک کر دیا ہے مثال کے طور پر لاپرواہی اور تیز رفتار گاڑی چلانے کے بعد موت کا شکار ہونے والے کی میت پر سب لوگ یہی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ قدرت کو بس یہی منظور تھا۔ ہمیں یہاں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ تہذیب جب طبقات میں بٹ جاتی ہے تو خیالات کی نوعیت بھی طبقاتی ہوتی ہے اور جس طبقے کا غلبہ معاشرے کی مادی قوتوں پر ہوتا ہے اسی طبقے کا غلبہ ذہنی قوتوں پر بھی ہوتا ہے مثال کے طور پر بنی امیہ کے دور میں معتزلہ کے خیالات کو بنی امیہ بہت ہی نفرت کی نگاہ سے دیکھتی تھی دوسری طرف بنو عباس انکے ہامی تھے وجہ یہ تھی کہ معتزلہ اقتدار کو عوامی تصور میں دیکھتے تھے اور اسکی تبدیلی پر اسرار کرتے تھے مگر جونہی بنو عباس نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے معتزلہ پر ظلم وستم کے پہاڑ گرائے۔ یہی بات پاکستان کی اشرافیہ میں بھی پائی جاتی ہے کل تک جو چیزیں عوامی اور جمہوری دی آج وہ تحریک انصاف کے دور میں غیر ضروری گردانی جاتی ہیں۔

اسی طرح سماجی اقدار کا بھی کلیدی کردار ہوتا ہے سماجی اقدار سے مراد روابط وسلوک طرز وبودوباش رسم و رواج وغیرہ شامل ہیں اور ہر معاشرہ اپنی سماجی قدروں کی پاسبانی اس وجہ سے کرتا ہے کہ سماج کی بقا کا دارومدار بڑی حد تک انہیں قدروں کے تحفظ پر ہوتا ہے اور ان سماجی قدروں کی بنیاد معاشرے کے نان و نفقہ اور سود و زیاں پر منحصر ہوتی ہے مثال کے طور پر عربوں میں ظہور اسلام سے پہلے ذوالحجہ کے مہینے میں خونریزی بالکل ممنوع تھی اس کی سب سے بڑی وجہ حج کے موقع پر لگنے والے تجارتی میلا تھا۔ اگر ہم آج کی دنیا میں بھی نظر دوڑائیں تو ترکی اور عرب ممالک اور اسرائیل کے تعلقات کی بنیادی وجہ بھی معیشت ہے کیونکہ ہمارے ہاں معیشت کو اتنی اہمیت حامل نہیں ہے اور ہم معاشی تنزلی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ہماری سماجی اقدار میں اس بات کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس لئے جب تک ہم اپنے ملک میں صنعت و حرفت اور ٹیکنالوجی کو فروغ نہیں دے پائیں گے تو اس وقت تک ہماری تہذیب اسی طرح جمود کا شکار رہے گی باقی ماندہ دنیا سے بھی کٹ کر الگ تھلگ اپنی کٹیا سجائے رکھیں گےاور اس میں بسنے والے ہمارے انسان بھی تہذیبی نرگسیت کا شکار رہیں گے کہ پدرم سلطان بود۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے