ہمارے ہاں عام بیانات بلکہ علمی مجالس میں بھی حدیث بیان کرنے میں عموما بے احتیاطی برتی جاتی ہے، یاں تو حدیث کے الفاظ ہی ذکر نہیں کیے جاتے ہیں، بلکہ یوں کہا جاتا ہے: “آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، جس کا مفہوم یہ ہے”…، یا پھر الفاظ تو ذکر کیے جاتے ہیں، مگر حوالہ نہیں دیا جاتا کہ بیان کرنے والے نے یہ حدیث کس کتاب سے بیان کی ہے؟
حالانکہ تحقیق کی دنیا میں کوئی بھی بات بغیر حوالے کے قابل قبول نہیں ہوتی، چہ جائیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب بات بغیر حوالے کے کہی جائے!
خصوصاً جبکہ وہ حدیث کمزور ہو، اس صورت میں تو اکثر محدثین نے اس شرط پر بیان کرنے کی اجازت دی ہے کہ یا تو اس کے ضعف کی صراحت کرے، یا پھر ایسے الفاظ بیان کرتے ہوئے استعمال کیے جائے، جس سے معلوم کہ یہ روایت کمزور ہے!
اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ حدیث بیان کرتے ہوئے کم از کم اس کتاب کا حوالہ دیدیا جائے، جس میں یہ حدیث سند کے ساتھ موجود ہے! تاکہ سننے والے کے لیے اطمینان کرانے میں سہولت ہو!
عام واعظین وخطباء سے زیادہ اہل علم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس بات کا اہتمام کریں، تاکہ اس بات کا رواج چل پڑے!
مجھے اس حوالے سے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے استاد الحدیث مولانا عبد الرؤوف غزنوی صاحب مدظلہم کی عادت بہت پسند ہے، وہ عام بیانات میں بھی نہ صرف احادیث کے الفاظ کی درست ادائیگی اور ضبط کا اہتمام کرتے ہیں، بلکہ حوالے کا بھی ان کے ہاں نہایت اہتمام ہوتا ہے!
اس بات کا پہلی دفعہ مشاہدہ جامعہ میں دوران تخصص ان کے ایک اصلاحی بیان میں ہوا!
ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ کراچی کے بڑے جامعات کے منتخب حضرات اساتذہ کی ایک علمی مجلس تھی، اس میں ایک نہایت قابل احترام صاحب علم نے حدیث “أحبوا العرب لثلاث” بیان کی، اور فرمایا: أخرجه السيوطي في “الجامع” وقال:صحيح، فنی حوالے سے یہ انداز درست ہے یا نہیں، مگر کم از کم انہوں نے حدیث کے مصدر (اگر چہ ثانوی ) ہے، ذکر تو کیا، حدیث پر حکم بھی نقل کیا، جو ایک اچھی بات ہوئی!
ان کے بعد مولانا عبد الرؤوف غزنوی صاحب دامت برکاتہم کا خطاب تھا، انہوں نے بھی اتفاق سے یہی روایت پڑھی، مگر جیسی ہی انہوں نے پڑھی، میرے ذہن میں آیا، کہ وہ حوالہ ضرور دیں گے!
وہی ہوا کہ انہوں نے ماشاء اللہ سب سے پہلے جن ائمہ محدثین نے یہ روایت سند کے ساتھ لائی ہیں، ان کا نام ذکر کیا، اس بعد علامہ عجلونی کی “كشف الخفاء” کے حوالے سے اس کے طرق پر بات کرتے ہوئے، حکم پر تفصیلی بات کی! حالانکہ یہ اسی موضوع کی کوئی علمی اور تحقیقی مجلس نہیں تھی، بلکہ ایک خاص موضوع پر بات ہورہی تھی، جس میں بطور استدلال وتائید روایت ذکر ہوئی، مگر انہوں نے ماشاء اللہ اتنے اہتمام سے دو تین حوالے دئیے، پھر حکم پر تفصیلی کلام کیا!
بہر حال، ضرورت اس بات کی ہے، کہ عام بیانات، علمی مجالس اور تحریرات میں حدیث بیان کرتے ہوئے، اس کے الفاظ کی درست ادائیگی اور حوالے کا اہتمام کیا.
اللہ تعالیٰ توفیق نصیب فرمائے!
” حفظ حدیث ” کی روایت کے احیاء کی ضرورت !!!
اس سلسلے میں مزید عرض ہے کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے ہاں” حفظ حدیث” کے حوالے سے جو کمی محسوس ہو رہی ہے، اس کے ازالے کے لیے سنجیدہ قدم اٹھایا جائے!
آپ ﷺ کی حدیث مبارک “نضر الله امرأ سمع منا حديثا فحفظه” (سنن الترمذي) سے بھی اس بات کی ترغیب ملتی ہے۔
اسی لیے اسلاف کے ہاں اس بات کا باقاعدہ اہتمام تھا، کہ وہ احادیث یاد کرتے اور رکھتے تھے، جس طرح قرآن پاک یاد کرتے تھے۔
اما م مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ولم يكن القوم يكتبون إنما كانوا يحفظون فمن كتب منهم الشيء فإنما كان يكتبه ليحفظه فإذا حفظه محاه
کہ لوگ اس وقت احادیث لکھتے نہیں تھے، لکھتے تو یاد کرنے کے لیے لکھتے تھے، اس لیے لکھنے کے بعد مٹادیتے۔
ویسے دیکھا جائے تو ایک ہزار سال تک ہر دور میں احادیث مبارکہ کے حافظ بکثرت نظرت آتے ہیں، ایک تو وہ دور ہے، جب احادیث مدون نہیں تھیں، اس میں تو ظاہر ہے، سارا اعتماد ہی حفظ پر تھا، اس لیے اس وقت تو سبھی محدث حافظ تھے، لیکن جب احادیث مدون ہونے لگیں، مصنفات، موطآت اور مسانید مرتب ہوئیں، تب بھی تاریخ بتاتی ہے کہ امام بخاری کو دو لاکھ تک احادیث یاد تھیں، ان کے بعد سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے زمانے تک دیکھ لیں، تدوین حدیث کتنے مراحل سے گزری؟ مگر امت نے احادیث یاد کرنے کی روایت برقرار رکھی، امام ذہبی نے “تذکرۃ الحفاظ ” میں جن حفاظ حدیث کا تذکرہ کیا ہے، ان کی تعدادہزاروں میں ہے، اس پر علامہ سیوطی وغیرہ کے “ذیول “میں آنے والی تعداد مستزاد ہے، علامہ عبد الرشید نعمانی رحمہ اللہ نے “ابن ماجہ اور علم حدیث ” میں صرف حفاظ حدیث کے تذکرے پر لکھی ہوئی کتابیں 17 سے زیادہ گنوائی ہیں!
ان کے بعد بھی حفاظ حدیث کی ایک تعداد گزری ہے!!!
ہمارے قریب کے زمانے میں حضرت عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ “حافظ الحدیث ” کے لقب کے ساتھ مشہور تھے۔ مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہم لکھتے ہیں: حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ تعالیٰ اس شرف کے ساتھ موصوف تھے کہ انہیں ہزاروں احادیث سند اور متن کے ساتھ یاد تھیں جن کی تعداد دس ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے۔ وہ ہر مجلس میں احادیث سنانے کا ذوق رکھتے تھے۔ مجھے کم و بیش دو عشروں تک ان کی مجالس میسر رہی ہیں اور یہ یاد نہیں ہے کہ خلوت یا جلوت کی کوئی مجلس ایسی ہو جس میں انہوں نے کوئی نہ کوئی حدیث نہ سنائی ہو۔ وہ ’’فنا فی حدیث الرسول‘‘ تھے اور اکثر یہ پڑھا کرتے تھے کہ
ماہر چہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم
الا حدیثِ یار کہ تکرار می کنیم
یعنی ہم نے جو کچھ بھی پڑھا ہے سب بھلا دیا ہے سوائے دوست کی باتوں کے جن کا ہم تکرار کرتے رہتے ہیں۔
علوم وفنوں کے تاریخی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ علوم کے مختصرات بھی اسی لیے لکھے گئے، تاکہ اس کا یاد کرنا آسان ہو، صحیحین کا پہلا اختصار شاید محدث حمیدی کا ہے، انہوں نے مقدمے میں اس بات کی صراحت کی ہے، کہ ان کا مقصود کیا تھا؟!
مولانا نعمانی نے لکھا ہے : کہ مطابع کے وجود میں آنے سے پہلے علمائے اسلام کا یہ عام دستور تھا کہ وہ ہر فن کا ایک مختصر طالب علم کو حفظ یاد کرادیا کرتے تھے، موجودہ صدی کو چھوڑ کر کسی بھی صدی کے علماء کا تذکرہ اٹھالیجیے اور ان کے حالات پڑھے، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ مختلف علوم وفنون کی کتنی کتابیں زبانی یاد کرتے تھے۔
عرب دنیا میں “حفظ المتون” خاص کر “حفظ احادیث ” کا رواج نسبتاً اب بھی زیادہ ہے، افریقی ممالک میں “موریطانیہ” میں علمی انحصار حافظے پر ہے، ہمارے ہاں بھی الحمد للہ اگر چہ آج کل مختلف مدارس میں “حفظ احادیث ” کے مسابقے منعقد کروائے جاتے ہیں، انفرادی طور پر پر بھی کہیں اس پر عمل ہو رہا ہے، لیکن اس حوالے سے بہر حال کمی ہے، وعظ وخطاب میں خاص کر اس کمی کا اظہار یا احساس زیادہ ہوتا ہے، جو ایک عالم کا شایان شان نہیں ہے، علامہ عراقی “تقریب ” میں لکھتے ہیں: يقبح بطالب الحديث، بل بطالب علم أن لا يحفظ بإسناده عدة من الأخبار” یعنی حدیث کے طالب علم یا ایک عام عالم وفاضل کو اگر احادیث کا ایک معتدہ بہ حصہ سند کے ساتھ یاد نہیں ہے، تو یہ نہایت نامناسب ہے!
اس لیے ضروری ہے کہ اس حوالے سے باقاعدہ تدریسی دورانیے میں ہر ادارے کی جانب سے سالانہ چند احادیث یاد کرانے کا اہتمام کرایا جائے، خصوصا ابتدائی درجات کےنصاب میں شامل کتابیں: “چہل حدیث” “زاد الطالبین”اور “ریاض الصالحین ” کی منتخب روایات یاد کرانے کا تجربہ انشاءاللہ تعالیٰ حوصلہ افزاء رہے گا، ویسے اس دورانیے میں یاد کرانا آسان بھی ہے، اگر استاد ضروری تشریح اور حل لغات پر اکتفا کرکے چند منٹ روزانہ حفظ احادیث کے لیے دیتا رہے، اگلے دن اہتمام سے سنے، تو یاد کرنا کوئی مشکل نہیں ہوگا۔
حال ہی میں مفتی محمد عاشق الہی برنی رحمہ اللہ کے صاحبزادے مولانا مفتی عبد الرحمن کوثر المدنی حفظہ اللہ “الارشادات النبویہ(علی صاحبہا ألف ألف صلاة وتحية)” کے نام سے چالیس ، چالیس احادیث پر مشتمل ۹ رسالے تیار کیے ہیں، جن میں آٹھ دینی مدارس کے طلبہ کے لیے مرحلہ وار انتخاب ہے، جبکہ ایک رسالہ سکولز کے طلبہ کے لیے ہے، چونکہ انہوں نے مرحلہ وار طلبہ کے مستوی کا بھی اس میں خیال رکھا ہے، اس لیے تجرباتی طور پر اس کو یاد کرانا بھی انشاء اللہ تعالی کسی فائدے سے خالی نہیں ہوگا۔
انفرادی طور پر بھی یاد کرنے کے عمل کا تجربہ کیا جاسکتا ہے، چنانچہ علماء نے یاد کرنے کے لیے مختصر احادیث پر مشتمل مجموعے تیار کیے ہیں، علامہ عراقی کی “تقريب الأسانيد ” (جو ان کی طرف سے اپنے صاحبزادے کے حفظ کے لیے مختصر روایات کا انتخاب ہے) یاد کرنے کے لیے بہت بہترین ہے، قریب کے زمانے میں بھی ایسے کام ہوئے ہیں: دکتور عواد الخلف نے “صحیح الحفاظ ” کے نام سے، صحاح ستہ کے متفق علیہ صحیح احادیث کا اچھا انتخاب پیش کیا ہے۔ شیخ عوامہ دامت برکاتہم کے صاحبزادے محیی الدین عوامہ “من صحاح الأحاديث القصار للناشئة الصغار” کے نام سے ایک مفید مجموعہ حفظ کے لیے تیار کیا ہے۔شیخ عبد اللہ التلیدی کی”جواهر البحار في الأحاديث الصحيحة القصار” بھی یک سطری احادیث کی ہزار سے زائد صحاح ستۃ اور دیگر متون معتبر کی روایات پر مشتمل ہے.
درجہ سابعہ اور دورہ حدیث کے طلبہ کے لیے انفرادی طور پر یاد کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے پاس ایک چھوٹی سے کاپی رکھیں، اور روزانہ دوران درس جو احادیث سامنے آرہی ہیں، ان سے اپنے ذوق کے مطابق مختصر احادیث کا انتخاب کرتے ہوئے اپنی کاپی میں نوٹ کرتے جائیں، فارغ وقت میں انہیں یاد کرنے کی ترتیب بنائیں، اس طرح سال کے آخر تک ان کے سینوں میں ایک اچھا ذخیرہ انشاء اللہ تعالی محفوظ ہوجائے گا، جو آگے ان کو ساری زندگی کام آئے گا۔
ویسے ان سب میں ظاہر ہے، اصل کردار استاد کا ہی رہے گا۔، استاد بھی اگر ترغیب کے ساتھ ساتھ وقتا فوقتاً دوران درس بطور استدلال پیش کرنے والے احادیث درست تلفظ وادائیگی، اور حوالے کے ساتھ بیان کرنے کا اہتمام کرے گا، کبھی ترغیب اور شوق دلانے کی خاطر یاد سے چند احادیث سنائے گا، تو اس کے انشاءاللہ تعالیٰ حوصلہ افزاء نتائج نکلیں گے!