سیاہ ،بیاض ، ماوی یہ سب اصلی ترک الفاظ نہیں ہیں ۔ اصلی ترک الفاظ ہیں ، قارا، آق، گوق
بالترتیب ، کالے، سفید اور نیلے رنگ واسطے۔
جبکہ دیگر زبانوں سے مستعار کئے گئے الفاظ صرف رنگوں کے نام کے ناموں تک ہی محدود رہے ہیں ان کے اندر چھپے معنوں کے اظہار کے لئے نہیں۔ چلیں میں تفصیل سے اور آسانی سے سمجھاتی ہون۔
ترک الفاظ صرف اسماء کے طور پر نہیں بلکہ اسمائے صفت کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں ،جیسے رنگوں کی صفات بیان کرنے واسطے اور ساتھ ہی ساتھ اسے دیگر معنی بھی بخشتے ہیں جیسے ایک رنگ صرف رنگ نہیں مزاج بھی ہو سکتا ہے کیفیت بھی ہوسکتی ہے، نشانی بھی ہو سکتی ہے۔
جیسے کہ بلیک فرائڈے کو آپ سیاہ جمعہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس کا رنگ کالا نہیں ہے بلکہ آپ اسے قارا جمعہ کہیں گے کیونکہ وہ اپنی نوعیت میں سیاہ ہے یعنی اس کے ساتھ جذبات و احساسات جڑے ہیں۔ جیسے آپ کہتے ہیں آج کشمیریوں کے لئے سیاہ دن ہے وغیرہ ۔
اصیل ترک الفاظ کے اندر گہرے معنی سموئے ہوتے ہیں۔ اور ان کے متبادل الفاظ جو دیگر زبانوں سے لئے گئے وہ صرف سطحی معنی کے لئے مستعمل ہیں۔
اصل ترک الفاظ کا معنی کے ساتھ گیرا ربط ہوتا ہے اور ان سے آپ دوسرے الفاظ بھی اخذ کر سکتے ہیں۔ جیسے کہ آپ کو علم ہوگا کہ ترک زبان اپنی نوعیت کی منفرد زبان ہے جو کسی امدادی فعل یا حروف جار کی محتاج نہیں بلکہ فعل یا اسم کے کے ساتھ ہی لاحقے لگا کر اپنا معنی مکمل کرتی ہے۔
مثلا نیلے رنگ کے لئے گوق کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ پرانی ترک زبان بھی گوق ترکچہ اور قدیم ترک بھی غور ترک کہلاتے ہیں۔ تو جو لفظ گوق ہے اس کا مطلب لفظی طور پر تو آسمان ہے۔ اب سوچیں آسمان کس رنگ کا (نظر آتا) ہے نیلے رنگ کا ۔
اب اس سے ذرا آگے سوچیں آسمان میں کیا (تصور کیا جاتا)ہے؟ جنت ۔ جی ہاں تو اب ترک زبان میں اس ایک لفظ کے بیک وقت ،آسمان، نیلا رنگ اور جنت کے معنی ہوئے۔ ہے ناں دلچسپ امر؟
ایک اور مزے کی بات بھی دیکھ لیں ۔ مغربی تصور میں یہ بات ترکوں سے مستعار لی گئی ہے کہ اوپر آسمان میں بعد از مرگ ستارہ بن کر چمکنا۔
کیونکہ ترک یہ سمجھتے ہیں کہ انسان کی روح اوپر آسمان میں اڑ کر جاتی ہے۔لہذا کسی کے فوت ہونے پر کہا جاتا ہے ‘فلاں اوچتو’ یعنی وہ تو اڑ گیا، کوچ کر گیا۔ سو آپ کہاں اڑتے ہیں آسمان میں ظاہر ہے۔ زمیں میں تو آپ گاڑے جاتے ہیں جیسے کہ برصغیری اصطلاح میں ‘گورکھ دھندہ’ ہے تو وہ لوگ زمین میں جانے کی بات کرتے ہیں جیسے غالب نے بھی کہا تھا
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ
گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے؟
اور
جانے تہہ خاک تماشا کیا ہے۔
اب آتے ہیں سبز رنگ کی طرف یہ بڑا دلچسپ رنگ ہے۔ میرا پسندیدہ بھی ہے ۔
ترک زبان میں سبز رنگ کو یشیل کہا جاتا ہے ۔ یہ بڑا کرشماتی لفظ ہے معنی کے اعتبار سے ۔ یہ ماہر لسانیات کو ورطہ حیرت میں ڈال دینے کے لئے کافی ہے۔ کیو کہ یہ لفظ ایک ایسے ربط کا نام ہے جو بیک وقت پانی، زندگی، جینے اور سبزے ، بہار، گرمی اور عمر سے منسوب ہے۔ کیا شاندار لفظ ہے اتنے سارے مضامین کو اپنے اندر جگہ دیے یہ لفظ بڑا ہی جامع ہے۔
جیسے کہ آپ لوگوں میں سے کم جانتے ہوں گے کہ ترک، زبان کے معاملے میں زیادہ چست نہیں ہیں وہ سہولت سے بات کرنے کے عادی ہیں اس لئے زبان پر جو لفظ بھاری ہوں ان کو ادا کرنے کے آسان طریقے ڈھونڈتے ہیں جیسے یشیل لفظ پہلے یاشل تھا۔ لیکن چونکہ موٹے والے واولز آ رہے تھے تو ان کو خفیف واولز میں بدل دیا اور یشیل کردیا۔
اب یاش کا معنی ہے رطوبت، نم، پانی والا، گیلا،نمناک
جبکہ یاشل کا مطلب ہے پانی دیا ہوا ، پانی سے بھرا ہوا ۔ سیراب۔ اب سوچیں پانی کا سبزے سے کیا تعلق ہے؟ بہت گہرا تعلق ہے دیکھیں آپ کسی درخت کو پانی نہ دیں وہ سر سبز رہ پائے گا؟ نہیں۔ کیا ہم زندگی کا تصور پانی کے بغیر کر سکتے ہیں نہیں ؟
ان میں اسی لئے پانی ، یاش اور سبز یشیل ، زندگی یاشام کا مصدر ایک ہی ہے علم الاشتقاق کے حساب سے۔ یعنی ایک ہی شاخ سے یا جڑ سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں۔ جیسے عربی میں کوئی لفظ ثلاثی مجرف ہوتا ہے اس سے آپ ڈھیر سارے لفظ بنا سکتے ہیں مگر جذر وہی رہتا ہے۔
اب لفظ یاشاماک یعنی زندہ رہنا اور یاشام یعنی زندگی یہ بھی پانی یعنی یاش سے آتے ہیں اس لئے یہ یشیل یا سبز سے جڑے ہوئے ہیں۔ دیکھا پانی کے بغیر نہ زندگی نہ ہی سبزہ ممکن۔
اب آتے ہیں عمر یعنی یاش کی جانب۔ یہ لفظ بھی پانی اور سبز رنگ سے جڑا ہے ۔ اس لئے جب ترکی میں کوئی آپ سے پوچھے کہ آپ کتنے سال کے ہو؟ تو وہ ایسے ہوچھے ” کچ یاشندا سن؟ ” یعنی تم نے کتنے موسم / گرمیاں دیکھ لیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ موسم کا استعمال کیوں ؟ پرانے ترک ایک ایسی جگہ رہتے تھے جہاں صرف دو موسم تھے سردی یا گرمی تو وہ گرمی کو یاز کہتے تھے اور سردی کو کش ۔ اب یاز دیگر ترک لہجات، جیسے آذربائیجانی میں بہار کو کہتے ہیں، بہار کا لفظ ترکی میں پہلے رائج نہیں تھا یہ فارسی سے لیا گیا ہے، بہار کے موسم کو الک بہار یعنی پہلی بہار اور خزاں کو سون بہار یعنی آخری بہار کا نام دیا گیا خیر، اب آتے ہیں یاز کی جانب۔ یاز چونکہ ان کے لئے سبز موسم کا نام تھا یعنی جب برف نہیں ہوتی تھی اور درختوں پر پتے ہوا کرتے تھے، آج بھی نئے سال کی آمد پر ایک سبز درخت کر گھر کے اندر سجا کر رکھنے کی روایت ہے تاکہ نئے سال میں رزق، خوشی اور امید دیکھنے کو ملے جیسے کھیتی کو ہری بھری دیکھنے سے خوشی ہوتی ہے۔ اس کا عیسائیت یا کرسمس سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ ایک روایت بات ہے جو دین سے نہیں رواج سے متعلق ہے۔ یاد رہے ترکی میں میلاد عیسی نہیں منایا جاتا ۔ ہاں اب روایت کی بات چل ہی پڑی ہے تو ایک اور دلچسپ بات کے ساتھ اس تحریر کا اختتام کرتی ہوں آپ لوگوں نے ترکی کے مشہور ادیب نامزد برائے نوبل ادب انعام ، یاشار کمال کا نام سنا ہوگا۔ کبھی سوچا کہ یاشار کا مطلب کیا ہوگا؟ مستنصر حسین تارڑ نے یاشار کمال کو لکھا تھا کہ میں نے اپنے پوتے کا نام آپ کے نام پر یاشار رکھا ہے، یاشار کمال نے جواب میں لکھا۔(yaşardan yaşara)
یعنی یاشار کی جانب سے یاشار کو۔۔۔
اب یاشار کا مطلب ہے سدا بہار، یا زیادہ دیر تک جینے والا، یہ نام کیوں رکھا جاتا تھا۔ اناطولیہ کی طرف یہ خیال کیا جاتا تھا کہ خو بچے کمزور پیدا ہوں وہ جلدی مر جاتے پیں، اس لئے کمزور بدن بچوں کو یاشار پکارا جاتا تھا تاکہ وہ زیادہ لمبی عمر جئیں۔اور ایسا اس لئے کیا جاتا تھا کیونکہ ترک مانتے تھے کہ جو لفظ آپ بولتے ہیں وہ وقوع پذیر ہوتے ہیں یعنی لفظوں میں جادو اور طاقت ہوتی ہے۔ اس لئے سوچ سمجھ کر اچھی بات منہ سے نکالنے چاہیے اور ایک بات اس سے متعلق یاد آگئی لیکن اس کا موضوع الگ ہے پھر کسی وقت لکھ لوں گی ابھی کے لئے اتنا ہی۔
اور
آق کا مطلب سفید ہے جیسے آپ سرائے استنبول کا مشہور ڈسٹرکٹ ہے۔ تو آق سرائے کا مطلب ہوا سفید محل یا وائٹ ہاوس۔
پھیپھڑوں کو بھی ترکش میں آق جگر کہا جاتا کے یعنی سفید کلیجہ۔
اور بحیرہ روم کو آق دینیز کہا جاتا ہے۔
بیاض رنگ سفید کےلئے استعمال کرنے کی روایت عربی سے نقل شدہ لفظ کے
بعد شروع ہوئی۔
اس لئے آپ نے اگر کہنا ہو کہ ‘سفید براق چیز ‘ تو آپ کو ‘ بیم بیاض’ کہنا ہوگا
اگر کہیں گے ہرا بھرا تو ‘ یم یشیل’ اگر کہنا ہو کہ ‘ نیلا نیلا ‘ تو ‘ماس ماوی’
اور ہاں جب آپ ماوی کہتے ہیں تو فورا ذہن سمندر کی جانب جائے گا۔اس لئے ترک رنگوں کے نام محض نام نہیں ایک آگاہی کی لڑی ہے۔