نیوزی لینڈ کی ایک صحافی کا کہنا ہے کہ قرنطینہ کے قواعد و ضوابط کی وجہ سے اپنے ملک جانے سے روکے کے بعد ان کو افغان طالبان سے مدد لینی پڑی۔
سنیچر کو نیوزی لینڈ ہیرالڈ میں شائع اپنے خط میں صحافی شارلٹ بیلس نے لکھا کہ ’یہ ستم ظریفی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے طالبان سے خواتین کے ساتھ ان کے سلوک پر سوال کیا تھا اور اب وہ وہی سوالات اپنی حکومت سے پوچھ رہی ہیں۔‘
بیلس نے اپنے خط میں لکھا کہ ’جب حالات آپ کے لیے اس قدر ناموافق اور گھمبیر ہوں کہ طالبان ایک غیر شادی شدہ حاملہ عورت کو محفوظ جگہ فراہم کرنے میں مدد کریں۔‘
گذشتہ برس شارلٹ بیلس قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ کے ساتھ منسلک تھیں۔ انہوں نے الجزیرہ کے لیے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کو رپورٹ کیا تھا تاہم انہوں نے بین الاقوامی توجہ اس وقت حاصل کی جب طالبان رہنماؤں سے خواتین سے ان کے سلوک بارے میں سوال کیے۔
شارلٹ بیلس کابل میں اپنے پارٹنر کے ساتھ مقیم ہیں۔ انہوں نے افغانستان سے نکلنے کے لیے نیوزی لینڈ کے حکام سے رابطہ کیا لیکن ان کی درخواستیں مسترد ہوئیں۔
اپنے خط میں شارلٹ بیلس نے لکھا کہ وہ ستمبر میں قطر واپس گئی تھیں اور ان کو معلوم ہوا کہ وہ اپنے پارٹنر سے حاملہ ہے جو نیویارک ٹائمز کے لیے بطور فوٹوگرافر کام کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کا حاملہ ہونا ایک ’معجزہ‘ ہے کیونکہ اس سے قبل ڈاکٹروں نے ان کو کہا تھا کہ وہ بچے پیدا نہیں کر سکتیں۔ وہ مئی میں بچے کو جنم دیں گی۔
شارلٹ بیلس کے مطابق قطر میں کسی غیر شادی شدہ خاتون کا حاملہ ہونا غیر قانونی ہے۔
شارلٹ بیلس نے بتایا کہ انہوں نے طالبان کے ایک سینیئر رکن سے رابطہ کیا کہ وہ اور جم ہائیلبروک شادی شدہ نہیں لیکن ان کے ہاں بچہ ہونے والا ہے۔ ’میں نیوزی لینڈ نہیں جا سکتی۔ اگر میں کابل آ جاؤں تو کیا ہمیں کوئی مسئلہ تو ہوگا؟‘ انہوں نے کہا کہ ’آپ آ سکتی ہیں اور آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
بیلس کا کہنا ہے انہوں نے الجزیرہ سے نومبر میں استعفیٰ دیا تھا جس کے بعد وہ اپنے پارٹنر کے ساتھ ان کے ملک بیلجیئم گئیں۔ وہاں زیادہ دیر نہیں رک سکتی تھیں کیونکہ وہ وہاں کی رہائشی نہیں تھیں اور ان کے پاس اگر کسی دوسرے ملک کا ویزہ تھا تو وہ افغانستان تھا۔
نیوزی لینڈ کے کورونا وائرس رسپانس کے وزیر کرس ہِپکنز نے ہیرالڈ کو بتایا کہ ان کے دفتر نے حکام سے کہا ہے کہ وہ معلوم کریں کہ آیا انہوں نے بیلس کے کیس میں مناسب طریقہ کار پر عملدرآمد کیا ہے۔؟ ’تو ابتدائی طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ مزید وضاحت کی ضرورت ہے۔‘
خیال رہے کہ نیوزی لینڈ نے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کیے ہیں اور اس کی 50 لاکھ آبادی میں کورونا سے صرف 52 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
قواعد و ضوابط کے مطابق نیوزی لینڈ واپس آنے والے شہری فوج کے زیر انتظام قرنطینہ کے لیے مختص ہوٹلوں میں دن گزارتے ہیں تاہم وطن واپس آنے والے لاکھوں شہری اب بھی جگہ ملنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
بیرون ملک سنگین حالات میں پھنسے شہریوں کی کہانیاں وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن اور ان کی حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث بنی ہیں۔
نیوزی لینڈ میں قرنطینہ سینٹر کے سربراہ کرس بنی کا کہنا ہے کہ حکام نے شارلٹ بیلس سے رابطہ کر کے بتایا ہے کہ وہ نیوزی لینڈ آنے کے لیے نئی درخواست دیں۔