گزشتہ دنوں وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار نے اپنے علاقے تونسہ شریف کا دورہ کیا اور کافی میگا پراجیکٹ کا افتتاح بھی کیا جن میں نمایاں تونسہ سنگھڑ پل اور تونسہ یونیورسٹی تھی تقریب کے دوران تونسہ کے دوسرے حلقےسے منتخب امیدوار خواجہ داؤد سلیمانی نے سنگھڑ پل کا نام شاہ سلیمان کے نام سے منصوب کرنےکا مطالبہ کیا اگرچہ اس بات میں کوئی قباحت تو نہیں ہے مگر شاہ سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ کی عظمت کے شایان شان نہیں کہ ایک پل کا نام انسے منصوب کیا جائے حتی کہ یونیورسٹی کا نام بھی۔ شاہ سلیمان تونسوی علیہ الرحمہ کون تھے یہ آج کے نوجوان کو کیا خبر۔ جیسے سقوط ڈھاکہ کے موقع پر مشیر کاشمیری نے کیا خوب کہا تھا کہ آج کے نوجوان کو بھلا کیا خبر کیسے قائم ہوا یہ حصارِ وطن۔
ایک دفعہ شاہ اسماعیل سرسیداحمد خان کی وساطت سے شاہ سلیمان تونسوی کی درگاہ میں حاضر ہوئے اور جہاد بالسیف اور مسلمانوں کی عسکری اور تنظیمی بنیادوں پر اصلاح کی خاطر خواجہ شاہ سلیمان ؒ سے مدد کی درخواست کی ، تو آپ ؒ اُنہیں ہدایت اور نصیحت فرمائی کہ بے شک جہاد کرنا مسلمانوں پر فرض ہے مگر مجھے نظر آرہا ہے کہ یہ وقت جہاد کے لئے موزوں نہیں ،اتفاق و اتحاد اتباع سنت ؐ پر عمل کیا جانا اور اجڑی ہوئی میراث علم کو پانا میرے نزدیک ابھی زیادہ ضروری ہے ،یہ فرمانے کے بعد آپؒ اُٹھ کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ’’ یہ بوڑھا اس جہاد کے لئے حاضرہے۔‘‘ یہی وہ بوڑھے سفید داڑھی والے بزرگ تھے ایک نے علی گڑھ کالج بنایا اور دوسرے نے درسگاہ تونسہ شریف جسکی توسط سے آج علم وحکمت کے تارے زمین پر فروزاں ہیں۔
تیرہویں صدی ہجری و اٹھارہویں صدی عیسوی میں ہندوستان میں مسلمانوں کا ہزار سالہ دور حکومت ختم ہونے کو تھا آخری مسلم حکومت یعنی مغلیہ سلطنت اپنی آخری سانس لے رہی تھی اس کی حدود صرف دہلی تک محدود ہو چکیں تھیں۔ مرہٹوں، جاٹوں اور سکھوں نے افراتفری مچا رکھی تھی۔ حکومت کابل کی شوکت روبہ زوال تھی۔ اس سے فائدہ اٹھا کر سکھوں نے پنجاب پر اپنا قبضہ جمانا شروع کر دیا۔ انگریز کی نظر ’تخت دہلی‘ پر لگی ہوئی تھی۔ آپ نے تونسہ شریف میں عظیم علمی و دینی درس گاہ قائم کی جہاں پچاس سے زائد علما و صوفیا فارسی، عربی، حدیث، تفسیر، فقہ، تصوف، سائنس، طب و ہندسہ وغیرہ کی تعلیم دیتے تھے ۔ طلبہ کی تعداد ان مدارس میں ڈیڑھ ہزار سے زائد تھی۔ طلبہ، علما و فقراء کو لنگرخانہ سے کھانا، کپڑے ، جوتے ،کتابیں، ادویہ اور دیگر تمام ضروریات زندگی ملتی تھیں۔ ایک انگریز مورخ کے بقول کے جب قافلے دیبل سے پشاور کی طرف جاتے تھے تو جب تونسہ شریف کے راستے سے گزرتے تھے رات کے وقت طلباء تونسہ شریف کے اونچے ٹیلے کے اوپر بیٹھ کر چراغ جلا کر پڑھ رہے ہوتے تھےایسے محسوس ہوتا تھا جیسے تارے زمین پر ٹمٹما رہے ہو اور ایک معجزےکی مانند سماں ہوتا تھا۔
اگرچہ شاہ سلیمان تونسوی ایک درویش صفت انسان تھے مگر بڑے بڑے والیانِ ریاست اور جاگیردار آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اکثر والیانِ ریاست گدی پر بیٹھتے وقت آپ کے دست مبارک سے پگڑی بندھوانے کی خواہش کرتے مگر آپ راضی نہ ہوتے۔ دوسری طرف دو ہزار طلبہ درویش اور تقریباً اتنے ہی مہمان و مسافر ہر روز لنگر سے کھانا کھاتے تھے ۔ کھانے کے علاوہ ضرورت کی ہر چیز موجود رہتی تھی ۔ حجام،لوہار،موچی،دھوبی اور آب کش وغیرہ ماہانہ تنخواہ پاتے تھے ۔ بیماری کی حالت میں مختلف اقسام کی ادویات لنگر سے بلامعاوضہ ملتی تھیں ۔ منقول ہے کہ ایک دفعہ خدابخش لانگری نے عرض کیا کہ حضرت اس مہینہ میں سات سو روپیہ صرف درویشوں کی ادویات پر خرچ ہوگیا ۔ آپ نے سن کر فرمایا کہ اگر سات ہزار بھی ان درویشوں اور علماء و طلباء کے علاج پر خرچ ہوجائیں تو مجھے اطلاع نہ دی جائے ان کی جانوں کے مقابلہ میں روپیہ کی کچھ حقیقت نہیں.
دوسری طرف بڑے امراء ، وزراء اور جاگیردار نواب آپ کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہونے لگے۔ دنیا کی ہر نعمت آپ کے قدموں میں آگئی لیکن ان تمام نعمتوں کے باوجود استغنا ء کا عجیب عالم تھا نافع السالکین میں لکھا ہے کہ ایک نواب نے درویشوں کے اخراجات کے لیے جاگیر پیش کی تو آپ نے فرمایا کہ ہم اس جاگیر کو قبول نہیں کریں گے ۔ یہ ہمارے مشاءخ کے طریقہ کے خلاف ہے ۔ آپ اکثر یہ شعر پڑھاکرتے تھے : اگر گیتی سراسرباد گیرد چراغ مقبلاں ہرگز نمیرد اگر یہ زمین سراسر ہوا بن جائے تب بھی ان لوگوں کا چراغ نہیں بجھے گا جو مقبول بارگاہِ خداوند ہیں۔ اگرچہ وہ مثالی درسگاہ سجادہ نشینوں کی عیاشیوں اور لاپرواہیوں کی نظرہوگئی مگر جسکی زندہ مثال آپکی اپنی درگاہ ہے جہاں طریقت کا چراغ اج بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے