اگر آپ سیر و سیاحت کے دلدادہ ہیں ، پہاڑوں کی برف آپ کو رومان انگیز لگتی ہے ، کم وقت میں زیادہ لطف اٹھانا چاہتے ہیں اور میری طرح ایڈونچر کے شائق بھی نہیں یعنی برف باری دیکھنے کے بعد اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ زندہ سلامت گھر واپس آنا چاہتے ہیں تو پھر اِن سردیوں میں مالم جبہ سے ہو آئیں۔جب سے مری کا سانحہ ہوا ہے ایسی کسی جگہ جانے سے پہلے دس مرتبہ سوچنا پڑتا ہے۔مالم جبہ کا پروگرام بھی ہم نے اسی شش و پنج میں ترتیب دیا۔
لاہور سے نکلتے وقت دھند بہت تھی اور موٹر وے انتظامیہ نے اِس دھند سے ’نمٹنے ‘ کا آسان طریقہ یہ نکالا ہے کہ وہ موٹر وے ہی بند کر دیتی ہے تاکہ دھنیا پی کر سو یا جا سکے اور کسی قسم کے حادثے کی ذمہ داری اُن کے سربراہ پر عائد نہ کی جا سکے۔
چند سال پہلے تک ایسا نہیں ہوتا تھا۔ پہلے جو گاڑیاں موٹر وے پر آ جاتی تھیں انہیں دھند کی وجہ سے اندھا دھند کسی ویرانے میں اترنے پر مجبور نہیں کیا جاتا تھا بلکہ انہیں گاڑیوں کے قافلے کی شکل میں دھند سے باہر نکال کر آگے پہنچایا جاتا تھا۔
اب نیشنل ہائی وے اور موٹر وے انتظامیہ کی سہل پسندی کا یہ عالم ہے کہ دھند کا نعرہ لگا کرموٹر وے بند کر دیتے ہیں یا پھر جو گاڑیاں موٹر وے پر موجود ہوتی ہیں انہیں موٹر وے سے باہر نکال دیتے ہیں۔
اب چاہے رات کا کوئی پہر ہو، کوئی ویرانہ ہویا خطرناک علاقہ ہو ،چاہے وہاں کوئی پٹرول پمپ یا آرام گاہ ہو یا نہ ہو،آپ فیملی کے ہمراہ سفر کر رہے ہوں یا تنہاہوں،موٹر وے والوں نے پروا نہیں کرنی ، بلکہ لکیر کے فقیر بن کر موٹر وے سے آپ کو باہر دھکیلنا ہے ، اب آپ جانیںاور آپ کا کام ۔
کیسے کہاں پہنچنا ہے ، یہ آپ کا درد سر ہے ۔ میں یہ بات بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر حادثات کی روک تھام کے لیے ایسا کیا جاتا ہے تو کیا موٹر وے سے متصل شاہراہوں پر رات گئے دھند نہیں ہوتی یا دھند نے صرف موٹر وے پر آنے کا ’پرمٹ ‘ لیا ہوا ہے!اس جھنجھٹ سے بچنے کی خاطر ہم نے سفر کے لیے اِس مرتبہ جی ٹی روڈ کا انتخاب کیا ، لاہور سے اسلام آباد پہنچے اور پھر اسلام آباد سے موٹر وے پر ہو لیے اور منہ اپنا سوات کی طرف کر لیا۔
اسلام آباد پشاور موٹر وے سے سوات جانے کے لیے چکدرہ کا راستہ لینا پڑتا ہے ، اسے آپ سوات موٹر وے بھی کہہ سکتے ہیں ۔ یہ تقریباً سوا گھنٹے کا سفر ہے اور ناقابل فراموش ۔ اونچے نیچے پہاڑوں، سر سبز میدانوںاور بین الاقوامی معیار کی بل کھاتی سرنگوں میں سے گزرتے ہوئے آپ کو واقعی یوں لگتا ہے جیسے یورپ میں گاڑی چلا رہے ہوں ۔ رہی سہی کسر کاٹلنگ کے مقام پر نئے تعمیر شدہ سروس ایریا نے پوری کر دی ہے۔
کاٹلنگ ایک چھوٹا سا خوبصورت گاؤں ہے جو سوات موٹر وے کے راستے میں آتا ہے ، اِس سروس ایریا میں خوبصورت ریستوران، کیفے ، بیکری ، پٹرول پمپ ، صاف ستھرے واش روم اور چھوٹی سی ورکشاپ ہے ۔ حسین وادی کے بیچوں بیچ بنا ہوا یہ سروس ایریا ایسا ہے کہ اگر آپ کو کافی کی طلب نہیں بھی ہورہی تو یہاں بیٹھ کر ایک کپ کافی ضرور پئیں ۔
اس سے بھی زیادہ خوبصورت ایک سروس ایریا ہزارہ موٹر وے کے درمیان آتا ہے ، اس کا بیان پھر کبھی ۔ہم نے کاٹلنگ کو الوداع کیا اور سوات موٹر وے سے نکل کر جی ٹی روڈ پکڑ لی اور بالآخرسوات میں اپنے ہوٹل پہنچ کر ہی بریک لگائی ۔
اگلے روز مالم جبہ کا پروگرام تھا۔مینگورہ شہر سے نکل کر اگر آپ بائی پاس روڈ پر آ جائیںاور رُخ مالم جبہ کی طرف کر لیں تو دریا آپ کے بائیں طرف چلتا ہے، اِس علاقے میں قطار اندر قطار ہوٹل اور کھانے پینے کی دکانیں ہیں ، یہاں بیٹھ کر ٹراؤٹ مچھلی نہ کھائیں تو سوات کا دورہ مکمل نہیں ہوتا۔اِس موسم میں تو دریا میں پانی نہیں تھا لیکن جب پہاڑوں پر برف پگھلے گی تو دریا کا نظارہ روح پرورہو جائے گا۔
مینگورہ سے مالم جبہ کا راستہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا ہے اور سڑک بہت شاندار ہے ۔ تین چوتھائی راستے تک کوئی برف نہیں تھی ،جونہی برف شروع ہوتی ہے تو راستے میں جا بجا آپ کو مقامی لوگ ملتے ہیں جو گاڑی کے ٹائروں پر زنجیر لگانے کی خدمات پیش کرتے ہیں ۔
اگر برف باری نہ ہو رہی ہو تو زنجیر لگانے کی چنداں ضرورت نہیں پڑتی ، آپ احتیاط سے گاڑی چلا کر اوپر اُس جگہ تک جا سکتے ہیں جہاں کچھ عرصہ پہلے ایک فائیو اسٹار ہوٹل تعمیر ہوا ہے جس کا افتتاح مولانا طارق جمیل نے اپنے مبارک ہاتھوں سے کیا تھا۔ہمارا ارادہ یہاں اسکیٹگ کرنے کا بھی تھا مگر پتا چلا کہ اسکیٹگ اور چیئر لفٹ مقامی لوگوں کی ہڑتال کی وجہ سے بند ہیں ۔پاکستانی سیاحت کی ایک خاصیت ’جگاڑ لگانا ‘ ہے۔
مثلاً ایک مقامی بندے نے تھوڑے سے پیسوں کے عوض ہماری گاڑی کے ٹائروں میں زنجیریں لگائیں اور پھر ہمارے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر اُس جگہ تک چھوڑ کر آیا جس سے آگے برف سے پھسلن کا خطرہ نہیں تھا،یہ کام پاکستان جیسے ملکوں میں ہی ممکن ہے ۔یورپ میں ایسی ’سروس‘ نہیں ملتی اورشاید وہاں اِس کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ۔
ہم نے حفظ ما تقدم کے تحت ٹائروں میں زنجیر لگوا کر اچھا ہی کیا کیونکہ اُس ہوٹل میں چائے پیتے ہوئے برف باری شروع ہو گئی اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے سڑکیں برف سے اٹ گئیں ۔ذہن میں فوراً مری کے مناظر گھوم گئے۔
خوف میں مزید اضافہ اُس خبر نے بھی کیا جو ہم نے سوات کے قیام کے دوران اخبار میں پڑھی کہ دیر کے علاقے میں اڑھائی سو گاڑیاں عورتوں اور بچوں سمیت کئی گھنٹوں تک برف میں پھنسی رہیں جنہیں بالآخر نکال لیا گیا۔ہم اور ڈر گئے۔ مگر پھر اِس بات سے حوصلہ ہوا کہ راستے میں تین چار سرکاری گاڑیاں دیکھی تھیں جو برف ہٹا رہی تھیں۔
مالم جبہ میں ٹورازم والوں کی ایک گاڑی بھی گشت کر رہی تھی ، اُن سے پوچھا کہ کہیں ہم پھنس تو نہیں جائیں گے ، انہوں نے کہاکہ ایسا کچھ نہیں ہوگا، سڑکیں صاف کی جا رہی ہیں ۔ہوٹل سے باہر نکلے تو ہماری سیاہ گاڑی برف میں سفید ہو چکی تھی ۔
ہمارے چاروں طرف برف ہی برف تھی ،پہاڑ اور سڑکیں برف سے سفید ہو چکے تھے ، سردی مزاج پوچھ رہی تھی اور ہم اِن حسین نظاروں کو دیکھ کر سوچ رہے تھے کہ کاش وقت تھم جائے اور یہ منظر جم جائے۔برف کا موسم ابھی ختم نہیں ہوالیکن ہر موسم کی طرح یہ موسم بھی گزر جائے گا، ہم نہ ہوں گے کوئی اور ہوگا ،دنیا یونہی چلتی رہے گی۔
بشکریہ جنگ