دنیا میں سب سے زیادہ قدرتی گیس فروخت کرنے والا ملک روس ہے۔اس کے بعد قطر اور ناروے کا درجہ ہے۔سب سے زیادہ تیل فروخت کرنے والا ملک امریکا ہے۔اس کے بعد روس اور سعودی عرب کا درجہ ہے۔
روسی ادارہ گیزپروم یورپ کی پینتیس فیصد گیس ضروریات پوری کرتا ہے۔سب سے بڑا خریدار جرمنی ہے۔اس کے بعد اٹلی ، ترکی ، آسٹریا ، فرانس ، پولینڈ ، ہنگری اور سلواکیہ کا درجہ ہے۔روسی گیس کے خریداروں میں بلجیئم ، ڈنمارک ، فن لینڈ ، ہالینڈ ، برطانیہ ، یونان ، سوئٹزر لینڈ ، بوسنیا ، کروشیا ، بلغاریہ ، چیک جمہوریہ ، سلووینیا ، سربیا اور رومانیہ بھی شامل ہیں۔(سوائے سوئٹزر لینڈ اور آسٹریا دیگر سب ممالک مغربی دفاعی تنظیم ناٹو کے رکن ہیں )۔
روس نہ صرف تیل کی عالمی پیداوار بلکہ برآمدی فہرست میں بھی دوسرے نمبر پر ہے۔روسی تیل کا سب سے بڑا خریدار چین ہے۔اس کے بعد ہالینڈ ، جرمنی، جنوبی کوریا ، پولینڈ ، اٹلی ، بیلا روس ، فن لینڈ ، جاپان اور سلواکیہ روسی تیل کے سب سے بڑے درآمد کنندگان ہیں۔( دس کی اس فہرست میں سے پانچ ممالک ناٹو کے رکن ہیں جب کہ جاپان اور جنوبی کوریا امریکا کے قریبی عسکری اتحادی ہیں )۔
سالِ گزشتہ روس نے چار سو نوے بلین ڈالر کی اشیا دنیا کو فروخت کیں۔اس آمدن میں تیل اور گیس کے شعبے کا تناسب ایک سو انیس بلین ڈالر ہے۔ گویا تیل اور گیس کی آمدن روس کے قومی بجٹ کے لیے چھتیس سے چالیس فیصد تک رقم فراہم کرتی ہے۔ روسی قومی بجٹ کئی برس سے خسارے میں نہیں گیا۔سالِ گزشتہ اس بجٹ میں ایک سو بیس بلین ڈالر کا منافع دکھایا گیا۔
اب جب کہ عالمی سطح پر تیل اور گیس کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔روس کو اس برس ان شعبوں سے گزشتہ برس کے مقابلے میں پچاس فیصد اضافی منافع کی توقع ہے۔معاشی استحکام کے نتیجے میں کرنسی کی ساکھ بھی برقرار ہے اور ایک امریکی ڈالر کی قدر تین سے چار روبل کے درمیان ہے۔
مجموعی طور پر روس کے پانچ بڑے تجارتی ساجھے داروں میں علی الترتیب چین ، جرمنی ، ہالینڈ ، امریکا اور ترکی شامل ہیں۔روس کی پچاسی فیصد تجارت انھی پانچ ممالک سے ہوتی ہے۔ اس تجارت میں توانائی کے وسائل کے علاوہ ، غلہ، کیمیاوی مواد اور مشینری کے شعبے زیادہ غالب ہیں۔( ان پانچوں ممالک میں سوائے چین دیگر چار ناٹو ممبر ہیں )۔
روس کا ہمسایہ یوکرین بھی ایک ترقی یافتہ صنعتی و زرعی ملک ہے۔یوکرین کا درآمدی و برآمدی تجارتی حجم ایک سو چار بلین ڈالر سالانہ ہے۔ دس بڑے تجارتی ساجھے دار چین ، پولینڈ ، روس ، ترکی ، جرمنی ، بھارت ، اٹلی ، ہالینڈ ، مصر اور بیلا روس ہیں۔
غلے کی پیداوار کے سبب یوکرین تاریخی اعتبار سے یورپ کی چنگیر کہلاتا رہا ہے۔اس وقت اگر دنیا میں سو کلو گرام گندم پیدا ہوتی ہے تو اس میں سے پچیس کلو گرام گندم روس یا یوکرین کی ہے۔یوکرین دراصل ایک بڑا سا میدان ہے جس کا اکہتر فیصد رقبہ قابلِ کاشت ہے اور زرخیز ترین سیاہ مٹی والا ایک چوتھائی عالمی رقبہ صرف یوکرین کے پاس ہے۔
مگر اس میدان میں روس کی ترقی حیرت انگیز ہے۔سرد جنگ کے عروج میں بھی سوویت یونین امریکی گندم پر تکیہ کرتا تھا۔انیس سو اسی کی دہائی میں دو تہائی امریکی مکئی اور گندم سوویت یونین خریدتا تھا۔ انیس سو پچاسی میں سوویت یونین نے پچپن ملین ٹن امریکی گندم خریدی جو ایک ریکارڈ ہے۔
دو ہزار ایک میں گندم کی عالمی تجارت میں روس کا حصہ محض ایک فیصد تھا۔ آج وہی روس گندم کی اٹھارہ فیصد عالمی پیداوار مہیا کرتا ہے اور سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔اس کے بعد امریکا ، کینیڈا ، فرانس ، اور یوکرین کا درجہ ہے۔ اگر روس کی اٹھارہ فیصد اور یوکرین کی سات فیصد غلہ برآمد کو جمع کر لیا جائے تو ایک چوتھائی گندم صرف یہ دنوں ممالک دنیا کو فروخت کرتے ہیں۔ گندم کی عالمی پیداواری فہرست میں یوکرین اگرچہ پانچویں نمبر پر ہے مگر خوردنی بیجوں کی پیداوار کے اعتبار سے اول نمبر پر ہے۔
مصر ، ترکی اور بنگلہ دیش روس اور یوکرین کی گندم کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔بلکہ ترکی کی چوہتر فیصد اور مصر کی ستر فیصد گندمی ضروریات یہی دو ممالک پورا کرتے ہیں۔ اس گندم کے دیگر خریداروں میں اسپین ، آزربائیجان ، نائجیریا ، سوڈان ، سینیگال ، مراکش، تیونس ، جنوبی افریقہ ، عرب امارات ، اسرائیل ، یمن ، انڈونیشیا ، فلپینز ، ویتنام ، تھائی لینڈ نمایاں ہیں۔ (یعنی زیادہ تر ترقی پذیر ممالک )۔
وسیع و عریض طاقت ور روس کو اپنا کاروبار جاری رکھنے کے لیے بہت سے زمینی اور بحری راستے میسر ہیں مگر یوکرین کی پچانوے فیصد تجارت کا دار و مدار بحیرہ اسود کی تین بندرگاہوں پر ہے۔چوتھی بندرگاہ کریمیا روس دو ہزار چودہ میں جھپٹ چکا ہے۔
اس تحریر کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اگر روس یوکرین پر حملہ کر دیتا ہے۔تو ان دونوں کا تو خیر براہِ راست نقصان جو ہوگا سو ہو گا۔مگر اس جنگ کے بدلے اگر یورپ اور امریکا روس کا معاشی بائیکاٹ کر دیتے ہیں اور روسی تیل، گیس اور غلہ بھی باقی دنیا تک نہیں پہنچتا اور عالمی تجارتی نقشے میں سے یوکرین بھی کچھ عرصے کے لیے غائب ہوجاتا ہے تو امیر ممالک شاید یہ جھٹکا کچھ وقت کے لیے سہہ جائیں لیکن سوچئے کہ ہم جیسے ترقی پذیر ممالک کا کیا ہوگا جو پہلے ہی تیل ، گیس اور غلے کی چڑھتی قیمتوں کے سبب معاشی طور پر ادھ موئے پڑے ہیں۔وہ زمانے گئے جب جنگ دو ممالک کے مابین ہوتی تھی۔آج کہیں دور آگ لگے تو تپش چالیس گھر پرے بھی ناقابلِ برداشت ہوتی ہے۔
یہ دنیا آج ایک دوسرے پر اتنا تکیہ کر رہی کہ وہ محاورہ بھی اپنے معنی کھو چکا کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کا نقصان۔اب تو ہاتھی اور چوہا بھی لڑ پڑیں تب بھی گھاس کچلی جاتی ہے۔
وہ ٹھیک ہے کہ جب معاشی جوتے مسلسل پڑیں گے تو کیا روس کیا یورپ سب کی عقل ٹھکانے آ جائے گی اور وہ پھر سے مصالحت کے بہانے تلاش کرنے لگیں گے۔ مگر تب تک ’’ خاک ہوجائیں گے ہم ان کو خبر ہونے تک ‘‘۔