الیکٹ ایبلز کی سیاست میں ٹریڈ نام بدلتا ہے نظام نہیں!

پاکستان تحریک انصاف کو 25 جولائی 2018 کے عام انتخابات میں طویل عوامی جدوجہد کے بعد اقتدار ملا . 18 اگست 2018 کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے وزیراعظم کے عہدے کا جب حلف اٹھایا تو وطن عزیز شدید مسائل کا شکار تھا ۔ہر شعبہ ہائے زندگی تباہ وبرباد تھا ۔ طاقتور اشرافیہ ملک کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر چکی تھی۔انتظامی عدم استحکام غربت صحت و تعلیم کی ناکافی سہولیات اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے چیلنجز کا سامنا تھا ۔
ان حالات میں پی ٹی آئی ایک امید کی کرن بن کر سامنے آئی ادھورے خواب اپنی تعبیر ڈھونڈ رہے تھے۔ ہر ذی شعور پاکستانی سنجیدگی سے سوچ رہا تھا کہ آزادی کے ثمرات سے فیض یاب ہونے کا وقت آگیا ہے۔
عدم انصاف ، طبقاتی تعلیم ، آلودہ پانی ، ناقص اشیائے خورونوش غیر معیاری ادویات اور ٹوٹا پھوٹا انفراسڑکچر جو اب تک مقدر تھا اس میں بہتری آئے گی۔
یہ وطن جو ہمارے آباؤاجداد کی شہادتوں اور قربانیوں کے ذریعے معرض وجود میں آیا صرف ایک طبقے تک اس کے سارے وسائل محدود ہو چکے تھے اب برابری کی بنیاد پر تقسیم ہوں گے ۔
ہمارا اور ہماری نسلوں کا اس مٹی پر حق تسلیم ہوگا۔
22 کروڑ لوگ ایک فیصد لوگوں کی غلامی سے آزاد ہو جائیں گے۔
پی ٹی آئی کی یہ جدوجہد دراصل وطن عزیز کی جفرافیائی آزادی سے اس حقیقی آزادی کا سفر تھا جس بالا دست طبقے نے سلب کر رکھا تھا ۔یہ نئے پاکستان کا سنگ بنیاد تھا۔ لہو رنگ لاکھوں قربانیاں جس عظیم مقصد کے لیے دی گئی تھیں اس عظیم مقصد کی تکمیل کا ویژن تھا ۔
دوہرے معیار،جھوٹ،ٹیکس چوری بد عنوانی ، سیاست برائے اقتدار اور خاندانوں کی آمریت کے خلاف پاکستانی عوام کی خواہشات کا احترام تھا۔
یہ اس سوال کا جواب تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اس عظیم دھرتی کے 22 کروڑ لوگ بھیڑ بکریاں ہیں کہ جس کے ہاتھ میں اقتدار کا ڈنڈا آیا وہی ان کا مالک ٹھہرے؟
پاکستان تحریک انصاف نے سسلین مافیا پر جب ہاتھ ڈالا تو کراچی سے کشمیر تک چیخوں کی آوازیں سنائی دیں ۔خاندانی آمر سول بالا دستی کی باتیں کرنے لگے ۔ ظالم مظلوم بننے لگے خوشیوں کے قاتل خود کو مسیحا ثابت کرنے لگے۔
عوامی حقوق کی حقیقی جنگ کا ہر محاذ کٹھن تھا ۔قرضوں کی ادائیگی کے لیے پیسہ دستیاب ہونا تو دور کی بات سود کی ادائیگی کے لیے بھی قرض لینا مجبوری بنا ہوا تھا۔ خارجی امور ، داخلی معاملات ، کرپشن ، ٹیکس چوری ، بےروزگاری صحت اور تعلیم کے مسائل ، گروپوں کی سیاست اور سب سے بڑھ کر عوام کی طرف سے امیدیں اور توقعات ۔
عوامی سفر کی تیز رفتاری سے ابتداء ہوتی ہے ۔ 2 ستمبر 2018 کو پاکستان بھر میں 10 ارب درخت لگانے کا فیصلہ کیا گیا یہ پروگرام دراصل بلین ٹری سونامی منصوبے کا تسلسل تھا جو 2014 میں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت نے شروع کیا تھا۔
13 اکتوبر 2018 کو صاف اور سبز پاکستان مہم کا افتتاح ہوا۔
14 دسمبر 2018 کو بے گھر افراد کے لیے شلٹر ہوم کا افتتاح ہوا ۔
4 فروری 2019 کو صحت انصاف کارڈ کا اجراء کرتے ہوئے 260 ارب مختص کیے گے جس کے تحت 8 کروڑ پاکستانیوں کو 10 لاکھ سالانہ فی خاندان کے حساب سے صحت کی سہولت دی گئی۔
17 اپریل 2019 کو نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کا افتتاح کیا گیا جس کے تحت اس وقت تک 45 ارب کے قرضے مختلف بینکوں سے منظور ہو چکے ہیں۔
29 جولائی 2019 کو ماحول دوست پاکستان کی شروعات ہوئی پلاسٹک بیگ پر پابندی عائد کرتے ہوئے پولی تھین بیگز ریگولیشنز ایکٹ 2019 متعارف کروایا گیا۔
17 اکتوبر 2019 کو کامیاب جوان پروگرام کا افتتاح کیا گیا اس مقصد کے لیے 22 ارب روپے مختص کیے گے۔
4 نومبر 2019 کو انڈر گریجویٹ سکالرشپ پروگرام شروع کیا گیا جس کے تحت 4 برس میں 2 لاکھ طلبہ کو سالانہ 50 ہزار دیے جانے کا فیصلہ ہوا۔
9 دسمبر 2019 کو پنجاب میں پہلی انٹی کرپشن ایپ متعارف کروائی گئی۔
جنوری 2020 میں ہنرمند نوجوان پروگرام کا افتتاح کیا گیا اس مقصد کے لیے 30 ارب روپے رکھے گے۔
بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے 8 ارب 50 کروڑ کے ایک اور پروگرام کا افتتاح بھی اس عرصے میں ہوا۔
ساڑھے تین سال میں ریکارڈ قانون سازی ہوئی کم وبیش 54 نئے قوانین بنائے گے ۔
کرپشن کے بڑے مگر مچھوں سے 519 ارب روپے کی تین سال میں ریکوری ہوئی جبکہ اس سے قبل 2000 سے 2018 تک 18 سال میں صرف 90 ارب روپے کی ریکوری ہوئی۔
اس قدر زبردست انقلابی اقدامات کے باوجود مسائل کا ڈھیر آج بھی اپنی جگہ موجود ہے ۔ مہنگائی قرضوں میں اضافہ آج بھی چیلنج ہے۔
مسئلہ ہے کیا؟
وسائل کی غیر منصفانہ تقسیمِ کرپشن اربابِ اختیار کا شاہانہ طرز زندگی کی وجہ سے آج آزادی کے 75 سال بعد 55 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے ہے ۔ 98 فیصد وسائل پر چند ہزار لوگ قابض ہیں، 80 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ، تعلیم کا بجٹ جی ڈی پی کا اڑھائی فیصد ہے ۔ صحت کے اخراجات پر جی ڈی پی کا ایک اعشاریہ بیس فیصد خرچ ہوتا ہے ۔
21-2020 کی ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کی شرح 9.50 فیصد ہے،اس طرح 22 کروڑ آبادی میں سے 2 کروڑ 10 لاکھ لوگ بےروزگار ہیں۔
2008 میں پاکستان پر مجموعی قرضہ ساڑھے چھ ہزار ارب تھا ۔2010میں جب پی پی کی حکومت ختم ہوئی تو قرضہ ساڑھے 13 ہزار ارب تک پہنچ گیا ۔ 2013 میں ن لیگ حکومت قائم ہوئی ۔ 2018 میں جب ن لیگ کا عرصہ اقتدار ختم ہوا تو ملک پر مجموعی قرضہ 24 ہزار ارب تک جا پہنچا۔ یوں قرض اور اس پر سودکی ادائیگی کی وجہ سے مزید قرض لینا پڑا ۔
موجودہ حکومت نے بھی اگست 2018 سے دسمبر 2021 تک 3 ہزار ارب قرضہ لیا ، اس طرح گزشتہ سال کے اختتام پر مجموعی قرضہ 130 ارب ڈالر ہوگیا۔ مالی سال 22_2021 کو 8400 ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش کیا گیا جس میں سے 2750 ارب روپے قرضوں کی ادائیگی کیلئے رکھے گے جبکہ ٹیکس وصول کا ہدف 5800 ارب روپے رکھا گیا ۔ دلچسپ بات یہ کہ ترقیاتی بجٹ 900 ارب جبکہ سود کی ادائیگی کیلئے 2750 ارب یعنی تین گنا زیادہ .. جس ملک میں ٹیکس وصولی کا نصف قرضوں کی ادائیگی کیلئے ہو وہاں لوگوں کی حالت کیسے بہتر ہو سکتی ہے۔
قرضوں کی تاریخ کیا ہے؟
1970 میں پاکستان پر کل قرضہ 30 ارب روپے تھا 1977 میں جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم ہوئی تو یہ قرضہ 97 ارب روپے تک پہنچ گیا،ضیاء الحق کے دور حکومت کے اختتام پر قرضہ 426 ارب تھا، بعدازاں پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی 1990 میں جب پی پی کی حکومت برطرف ہوئی تو ملکی قرضہ 711 ارب روپے تھا، بے نظیر بھٹو کے بعد نواز شریف اقتدار میں آئے تو 422 ارب روپے مزید قرضہ چڑھ گیا اس طرح مجموعی حجم میں 1135 ارب روپے ہوگیا۔
بے نظیر بھٹو کا دوسرا دور حکومت 1996 میں ختم ہوا تو قرضہ 1704 ارب تک پہنچ گیا تھا۔ 1996 میں نواز شریف دوبارہ اقتدار میں آئے اکتوبر 1999 میں جب نواز لیگ کی حکومت ختم ہوئی تو قرضہ 2946 ارب تک پہنچ گیا تھا۔
نوازشریف کے دوسرے دور حکومت میں 1242 ارب روپے قرضہ لیا گیا۔نواز شریف کے بعد پرویز مشرف اقتدار میں آئے ، مشرف دور حکومت کے اختتام تک قرضہ6127 ارب تک پہنچ گیا، اس طرح مشرف کے 9 سال کے عرصہ میں 3181 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
2008 میں پی پی نے اقتدار سنبھالا پانچ سال بعد 2013 میں جب پی پی کا عرصہ اقتدار ختم ہوا تو 8000 ارب روپے مزید اضافے کے ساتھ مجموعی حجم 14 ہزار 20 ارب روپے تک جا پہنچا۔ 2013 میں نواز لیگ اقتدار میں آئی تو 10 ہزار ارب روپے کا ملک مزید مقروض ہوا اور حجم 24 ہزار ارب تک جا پہنچا۔
یوں 1970 سے 2018 تک 48 سال میں 23 ہزار 970 ارب قرضہ لیا گیا ۔ایک طرف تو ہر دور آنے والی حکومت نے پہلے سے زیادہ قرضہ لیا
دوسری طرف کوئی ایک شعبہ ایسا نہیں جس میں ہم نے ترقی کی ہو اور ہم دنیا کومثال دے سکیں کہ آو ہم اس شعبہ میں معراج پر ہیں ہماری تقلید کرو۔
زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم باہر سے منگوائی جاتی ہے۔ توانائی کے بحران کا ایک عرصہ سامنا رہا۔ تعلیم کو دیکھا جائے 13 کروڑ آبادی کے ملک جاپان میں 795 یونیورسٹیز ہیں جبکہ 22 کروڑ لوگوں پر مشتمل پاکستان میں 183 یونیورسٹیز ہیں۔2022 کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا کی ٹاپ پانچ سو یونیورسٹیز میں ہماری 11 یونیورسٹیاں شامل ہیں۔
ایک ہزار پیدا ہونیوالے بچوں میں سے 55 بچے فوت ہو جاتے ہیں۔2020 کے اعداد وشمار کے مطابق 2کروڑ 28 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔یوں اسکول جانے والی عمر کے حساب سے یہ شرح 32 فیصد بنتی ہے۔ نظام انصاف کی یہ حالت ہے کہ عدالتوں میں 22 لاکھ کیسز التوا کا شکار ہیں۔

اب ایک نظر آزاد کشمیر پر
یہاں 75 سال سے چند قبائل کی اجارہ داری ہے ۔ سیاست کے ایوانوں سے لےکر اعلیٰ بیوروکریسی تک عملاً قبائلی لارڈز اس خطے کو کنٹرول کررہے ہیں۔ لوگوں کے درمیان علاقائی اور قبیلائی نفرتوں کو محض اپنے اقتدار کیلئے فروغ دیا گیا،جوابدہی کا عمل ختم ہو گیا انصاف فراہم کرنے والے ادارے نام کی حدتک رہ گئے،احتساب کا عمل سیاسی ضرورت کی بھینٹ چڑھا، ادارے تباہ ہو کررہ گئے،سفارش کی بنیاد پر بھرتی کرنے کا تسلسل برقرار ہے اور آج ہماری سرکاری ملازمتوں میں یہ صورتحال ہے کہ ہر گزیٹیڈ آفیسر کیلئے کم وبیش گریڈ ایک سے چار تک کے 2 ملازمین موجود ہیں۔
اعلیٰ بیوروکریسی کے لیے لگژری گاڑیاں دفاتر اور رہائش گاہیں اب استحقاق سمجھا جاتا ہے ۔ سرکاری ملازمین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں لیکن گریڈ 18 سے 22 تک بیوروکریسی کی ایک معقول تعداد کے دفاتر میں 72 انچ کی ایل ای ڈیز لگی ہوئی ہیں ۔ڈویلپمنٹ سیکٹر میں شاہرات اور عمارتوں کی کنسٹرکشن کا عمل سیاسی ضرورت کے تابع ہے،چند ٹھیکیدار تمام حکومتوں کے خاص ہوتے ہیں اُنہی کو ٹھیکے ملتے ہیں اور وہ اپنی مرضی کے بندے حکومت میں لانے کیلئے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
اب تو یہ لوگ سیاست میں بھی آگئے ہیں۔ بیروزگاری کی شرح 15 فیصد ہے جو 40 لاکھ آبادی کے حساب سے 6 لاکھ بنتی ہے جبکہ دستیاب سٹریکچر میں پہلے سے 37 فیصد ملازم زائد ہیں۔
یہاں اقتدار ہمیشہ چند خاندانوں کے ارد گرد گھومتا رہا ۔1947 سے آج تک زیادہ تر مسلم کانفرنس اس خطے میں سیاہ وسفید کی مالک رہی ۔پیپلز پارٹی نے مختلف ادوار میں 14 سال حکومت کی ۔ 2010 میں مسلم کانفرنس کے ایک بڑے دھڑے نے الگ ہو کر ن لیگ آزاد کشمیر کی بنیاد رکھی ۔
2016 کے عام انتخابات میں ن لیگ آزاد کشمیر کو حکومت ملی۔ نواز لیگ آذاد کشمیر کا دھڑ گرچہ لیگی تھا لیکن اس کی روح مسلم کانفرنسی ہی تھی۔ اس حکومت میں 90 فیصد وہی لوگ شامل تھے جو ماضی میں مسلم کانفرنس کا حصہ رہے ۔
75 سال کا ریکارڈ گواہ ہے اس خطے میں تین چار قبائل سے سیاست کبھی آزاد نہیں ہو سکی۔ ان قبائل کے سرکردہ لوگ سیاسی موسم کے تیور دیکھ کر قبل از وقت اقتدار کی صف بندی کرلیتے ہیں۔
جس طرح پاکستان میں چند خاندانوں کی باریاں لگی ہوئی تھیں بالکل وہی صورتحال آزاد کشمیر میں ہے۔
جب پی ٹی آئی پاکستان میں حقیقی سیاسی قوت کے لیے جدوجہد کر رہی تھی اور آزاد کشمیر میں اس کا نام تک نہیں تھ،ا تب میں نے اور میرے دوستوں پر مشتمل ٹیم نے پی ٹی آئی کا جھنڈا تھاما ،عمران خان کے ویژن کو اپنے سینے سے لگایا۔ شہروں ، دیہاتوں، وادیوں اور بلند پہاڑوں کی چوٹیوں میں بسنے والوں تک منشور پہنچا۔ مجھے پی ٹی آئی آزاد کشمیر کا صدر بنایا گیا۔
لیکن پھر نظریہ ضرورت کی سیاست آ گئی ۔ پیرا شوٹر اترتے گئے اور بنیادی کارکن پچھلی صفوں سے بھی باہر کر دیے گئے ۔
آج آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت تو بن چکی ہے لیکن اس میں پی ٹی آئی کی روح نہیں ۔
وہی کچھ ہو رہا ہے جس کے خلاف پی ٹی آئی کے حقیقی کارکنوں نے طویل جدوجہد کی۔
کسی کرپٹ اور بوسیدہ نظام کے خلاف جب کوئی بھی شخصیت میدان عمل میں اترتی ہے تو تبدیلی کے خواہشمند لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کی فالور بن جاتی ہے، اسے آئیڈیلائز کرتی ہے، اسے اپنا رہبر تسلیم کرتے ہوئے اس کی ہر آواز پر لبیک کہتی ہے۔
بالکل اسی طرح ہم نے عمران خان کو اپنا قائد تسلیم کیا ،بعض فیصلوں پر تحفظات ہونے کے باوجود پارٹی چھوڑی نہ نظریہ چھوڑا اور نہ اپنا قائد تبدیل کیا، اس لیے کہ ہمارا یقین کامل ہے کہ تبدیلی عمران خان کی قیادت میں ہی ممکن ہے اور جو لوگ نظام کے مفاداتی ہیں. وہ اس راستے کے آگے ہزاروں دیواریں کھڑی کریں گے، کبھی ہماری صفوں میں گھس کر کبھی سازشیں کرکے اور کبھی مدمقابل آ کر .

سو حقیقی تبدیلی کے لیے حقیقی کارکنوں پر انحصار کرنا ہو گا۔ تلخ سچ یہ ہے الیکٹ ایبلز کی سیاست میں ٹریڈ نام بدلتا ہے ، کچھ چہرے بھی بدلتے ہیں، لیکن نظام نہیں بدلتا۔
(نوٹ: مضمون مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے. اس پر قارئین کی رائے کا خیر مقدم کیا جائے گا)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے