چین میں گزرے 14 برس کا قصہ : روداد سفر (حصہ ششم )

ایڈیٹر نوٹ

شاکر ظہیر صاحب ، علمی اور ادبی ذوق کے مالک ایک کاروباری شخصیت ہیں . انہوں نے اپنی زندگی کے 14 برس چین میں گذارے . اس دوران انہوں نے چینی معاشرے ، نظام حکومت ، ثقافت سمیت پوری تہذیب کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے . اس سیریز میں انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات لکھے ہیں . ان کے مضامین روزانہ صبح گیارہ بجے (پاکستانی وقت کے مطابق ) آئی بی سی اردو پر شائع ہوں گے . آپ کمنٹ باکس میں ان سے سوال بھی کر سکتے ہیں اور اپنا فیڈ بیک بھی دے سکتے ہیں .

سبوخ سید : ایڈیٹر آئی بی سی اردو ڈاٹ کوم

جو مرحلہ قربت و دوری سے گزر جائے
سنتے ہیں کہ وہ جذب نہاں اور ہی کچھ ہے
یا درد کے نغموں میں وہی ہے تیری آواز
یا پردہ ساز رگ جاں ،اور ہی کچھ ہے
وہ نیا مکان جس میں ہم شفٹ ہوئے وہ ریٹائرڈ لوگوں کی ایسی آبادی تھی ، جہاں ہر وقت خاموشی ہی چھائی رہتی ۔ یہاں کے لوگ بالعموم شور شرابے کو زیادہ پسند نہیں کرتے ۔ اس مکان کی پہلی منزل پر ڈرائنگ روم ، کچن اور واش روم تھے جبکہ اوپر والی منزل پر آمنے سامنے دو کمرے اور ایک چھوٹا سا ٹیرس بنا ہوا تھا ۔ ہم نے ایک پرانا سا موٹر سائیکل لے لیا جو فیکٹری کی مالکہ کی بہن کے گھر میں کافی عرصے سے بے کار پڑا ہوا تھا ، شفٹنگ اور موٹرسائیکل کے حصول کے بعد ہم کام کی تلاش میں نکلے اور ایک نئی کالونی جا پہنچے جہاں تعمیراتی کام جاری تھے ۔ ایک ٹھیکیدار سے کام کے حوالے سے بات ہوئی تو اس نے آمادگی ظاہر کی ۔ جس دن کام کا آغاز ہوا ، اس دن ٹھیکیدار نے تمام ورکرز کو جمع کیا اور کچھ اگربتیاں جلائیں اور پٹاخے چھوڑے ۔ یہ ان کی مذہبی رسومات کا حصہ ہیں ، ان کا عقیدہ ہے کہ ان رسومات سے بدروحوں کے شر سے محفوظ رہا جا سکتا ہے ۔

ہمارے ساتھ کام کرنے والوں میں ایک مسیحی جوڑا بھی تھا ۔ ایک مرتبہ چھٹی کے دن میں ان کے ساتھ چرچ چلا گیا اور وہاں ان کی عبادت کا طریقہ کار دیکھتا رہا ۔ میرا یہ چرچ جانے کا پہلا موقعہ تھا اس لیے ان کی رسوم و عبادات میرے لیے زیادہ دلچسپی کا باعث تھیں ۔ پادری صاحب نے خطبہ دیا ، جس میں انہوں نے مسیح علیہ السلام کی قربانی کا ذکر کیا کہ انہوں نے صلیب پر چڑھ کر انسانیت کے گناہوں کو دھو دیا ۔ اس کے بعد کچھ جوان لڑکیوں نے سازوں کے ساتھ خدا کی کبریائی کے گیت لے کے ساتھ گائے ۔ اس موقع پر کچھ لوگوں نے مجھ سے تعارف بھی لیا ۔ تائیوانی اپنے الگ رسوم ورواج رکھتے ہیں ، عقائد یا صرف نام کی حد تک ہی مسیحیت کے پیروکار ہیں ۔ بہت سے لوگ چرچ جاتے ہیں اور دعا میں بھی شریک ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ پادری نے کچھ بنیادی اخلاقیات پر بھی بات کی کہ دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور جس حد تک ممکن ہو دوسروں کی مدد کی جائے ۔

ان کام کرنے والوں میں ایک اور جوڑا بھی تھا جو قبائلی بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتا تھا ۔ ایک مرتبہ چھٹی والے دن وہ ہمیں اپنے ساتھ گھر لے گئے ۔ ان کے دو بچے تھے اور ماں باپ بھی ان کے ساتھ ہی رہتے تھے ۔ ان کی ماں قبائلی اور والد چائینیز تھے جو Mao انقلاب میں چائنا سے یہاں منتقل ہوئے تھے اور ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کر رہے تھے ۔ وہ صبح اپنا موٹر سائیکل لے کر نکل جاتے اور جہاں کہیں سے بھی کسی کی مسترد کی ہوئی خراب واشنگ مشین ، جوسر بلینڈر یا ٹی وی ملتا تھا اپنے موٹر سائیکل پر باندھ کر لے آتے اور اسے ٹھیک کرنے میں مصروف رہتے ۔ وہ بہت پیار کرنے والے لوگ تھے ۔ ان کی والدہ کو ہم ماما کہہ کر بلاتے تھے اور وہ ہمیں اشاروں میں چائنیز زبان سیکھاتی تھیں کیونکہ انہیں انگریزی نہیں آتی تھی۔

کچھ عرصہ بعد ماما کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ فوت ہوگئیں۔چائنیز مذہب کے مطابق ان کے مذہبی پیشوا کو بلایا گیا اور اس نے فال نکال کر بتایا کہ انہیں سات دن بعد دفنایا جائے ۔ ان کی میت (ڈیڈ باڈی) کو میک اپ کے ساتھ ریفریجریٹر تابوت میں بند کیا گیا جس میں چہرے والے حصے پر شیشہ لگا ہوا تھا ۔ ماما کو دفنائے جانے تک اس گھر کے لوگ کسی اور گھر نہیں گئے اور نہ ہی کسی خریداری کے لیے کسی دوکان میں داخل ہوتے ۔ سوگ کی نشانی کے طور پر سروں پر سب نے سفید کپڑے کی پٹی باندھے رکھی ۔ سارے دوست احباب روزانہ ان کے گھر تعزیت کےلیے جاتے اور کچھ وقت وہاں بیٹھ کر چلے جاتے ۔ فال کے مطابق مقررہ وقت پر میت گاڑی میں انہیں (ماما کو) قبرستان پہنچایا گیا ۔میت کے ساتھ جانے والوں میں کچھ لوگ بینڈ پر سوگ کی دھن بھی بجا رہے تھے ۔ قبرستان ایک پہاڑی علاقے میں تھا ، جہاں قبر کھود کر تابوت سمیت ماما کو دفنایا گیا ۔ قبر میں ان کے ساتھ ان کے تمام کپڑے اور جوتے بھی ڈال دیے گئے اور قبر پر مٹی ڈال کر ایک طرف صلیب بھی لگا دی گئی ۔

جس رات انہیں دفنایا گیا ، تمام رات گھر کے دروازے کھڑکیاں کھلی اور تمام لائٹیں روشن رکھی گئیں ، تاکہ ان کی روح اگر رات کو آئے تو اپنے گھر کو پہنچان سکے ۔ یہ لوگ اپنے آبائی و علاقائی رسوم و رواج کے پیرو تھے اور ساتھ میں مسیحت کا تڑکا بھی لگا دیتے تھے ۔ یہ عجیب بات تھی کہ مسیحیت کے ماننے والے اپنے سابقہ عقائد بھی ساتھ لے کر چل رہے تھے ۔ دوسری اہم بات کہ کسی اعلی ہستی کو یہ بھی مانتے تھے جو زمین سے اوپر بادلوں میں رہتی اور انہیں دیکھتی رہتی ہے اور پکارنے سے ان کی مدد کو آ جاتی ہے ۔ یہ عقیدہ بھی ہے کہ مرنے کے بعد روحیں اس اعلیٰ ہستی کے پاس واپس چلی جاتی ہیں ۔ نیک روحیں عیش و آرام سے اس ہستی کے پاس رہتی ہیں اور برے لوگوں کی روحوں کو وہ ہستی قبول ہی نہیں کرتی اور وہ زمین پر ہی بھٹکتی پھرتی ہیں ۔ یعنی یہ لوگ بھی موت کے بعد کی زندگی کی کسی نہ کسی صورت پر یقین ضرور رکھتے تھے، جس کا آرام و سکون اس موجودہ زندگی کے اچھے یا برے اعمال پر منحصر ہوتا ہے ۔انہیں یہ تصور کہاں سے ملا ؟ کیا یہ تصور انسان کی فطرت میں خدا نے ودیعت کیا ہے کہ اس کے بعد بھی ایک زندگی ہے ؟ یا انسان فنا کو پسند نہیں کرتا اس لیے اس نے اپنے تخیل سے ایک دوسری زندگی کا تصور خود قائم کر لیا ہے؟

ماما کی تدفین کے کچھ ہی روز بعد ماما کی قبر پر باقاعدہ چھت ڈال دی گئی، پاس بیٹھنے کےلیے دونوں اطراف دو سٹول بھی بنائے گئے اور اگربتی جلانے اور کھانے کی چیزیں رکھنے کےلیے ایک میز بنائی گئی ۔ اس موقع پر کاغذی کرنسی نوٹ بھی جلائے گئے جو بعد میں معلوم ہوا کہ ان کی روح کو بھیجے گئے ہیں جو انہیں اس دوسری دنیا میں کام آئیں گے ۔ مختلف مواقع اور خاص طور پر چائنیز کا اپنے عزیزوں کے مقبرے صاف کرنے اور ان کا وزٹ کرنے کا سال میں تین دن کا تہوار ہوتا ہے ۔ اس دن مقبرے پر کھانے کی چیزیں رکھی جاتی ہیں اور خوب صفائی کی جاتی ہے ، کاغذ کے کرنسی نوٹ بھی جلائے جاتے اور قبر کے پاس بیٹھ کر میت سے باتیں بھی کی جاتی ہیں ۔ یعنی صاحب قبر کو اپنے حالات سنائے جاتے ہیں اور انہیں تسلی دی جاتی ہے کہ وہ ان کی طرف سے بے فکر رہیں اور پریشان نہ ہوں ۔

ان کے گھر میں بھی تاؤ ازم کا بت رکھا ہوا تھا اور ساتھ میں صلیب بھی پڑی ہوئی تھی، ان کے سامنے یہ اگربتیاں جلاتے تھے ۔ میرے خیال کے مطابق یہ لوگ مذہب کے بارے میں سخت کنفیوژن کا شکار تھے ۔ بس ایک خالق کا تصور ہی ہے جو خدا نے ہم انسانوں کی فطرت میں ودیعت کیا ہے، یہ لوگ بس اسی خلاء کو پر کرنے کی کوشش ہی کرتے تھے ۔ شاید یہ انسان کی مجبوری ہے کہ وہ خالق کے تصور کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا ۔
اسی عرصے میں ایک اور گھر میں بھی ہمارا آنا جانا ہوا ۔ ایک دن ہم نے دیکھا کہ اس گھر کی مالکہ اپنے گھر میں موجود بت کے سامنے ٹیپ ریکارڈر پر بجھن لگا کر ناچ رہی تھی ۔ اس بت کے سامنے مرغی کا گوشت اور کچھ فروٹ بھی رکھے گئے تھے۔ وہ خود تو بت پرست تھی لیکن اس کی بیٹیاں کہتی تھیں کہ وہ کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتی ہیں ۔ یعنی ایک ہی گھر میں، سب کے اپنے اپنے عقائد تھے ۔ اس گھر کی ایک بیٹی کے ساتھ ایک سات آٹھ برس کا بچہ بھی تھا ، جو پوچھنے پر معلوم ہوا کہ کسی جاپانی امیرزادے کا ہے جو اس کی بیٹی کا بوائے فرینڈ ہے۔ وہ جاپان میں ہی رہتا ہے اور باقاعدگی سے اپنے اس بچے کےلیے خرچہ بھی بھیجواتا اور کبھی ملنے بھی آجاتا ہے ۔ یعنی یہ اس جاپانی بوائے فرینڈ کی خفیہ اولاد تھی ۔

ایک مرتبہ میں اپنے ایک تائیوانی دوست کے ساتھ تاؤ ازم کے مندر چلا گیا ۔ مندر کے باہر صحن کے دونوں کونوں میں بھیڑیے کی شکل کے دو بت رکھے ہوئے تھے جو بہت غصے میں نظر آ رہے تھے ۔ مندر میں داخل ہوئے تو ماحول بہت پرسرار سا تھا اور کسی حد تک اندھیرا تھا ۔ مندر کے وسط میں لمبی داڑھی اورلمبے بالوں والے ایک شخص کا بت تھا جس نے ہاتھ میں ایک برچھی پکڑ رکھی تھی اور جس کی آنکھیں غصے سے باہر نکل رہی تھیں۔ میں دروازے پر کھڑا یہ منظر دیکھتا رہا ۔ میرے دوست نے اس بت کے سامنے اگربتی جلا کر رکھی ، سجدہ کیا اور باہر آ گیا ۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ جب کبھی ذہنی بے سکونی کا شکار ہوتا ہے تو یہاں کچھ دیر سکون کے حصول کےلیے آتا ہے۔ میرے خیال میں ایک اعلی ہستی کا تصور ہی ہے جو انسان کو امید اور حوصلہ دے سکتا ہے ۔ مندر کے پجاری اور بھکشو لمبے نارنجی رنگ کے چوغے اور گلے میں تسبیح مالا پہنے ہوئے تھے ۔ سروں سے گنجے تھے اور ہاتھ جوڑ کر سلام کرتے تھے ۔ یعنی ان کا مذہب بدھ مت ، ہندومت ، تاؤ ازم اور کچھ ارواح کی پرستش کا مکسچر تھا ۔

ایک بات واضح ہے کوئی بھی شخص مجھے اپنے عقائد کی تفصیل نہیں بتا سکا اور نہ ہی اپنے ان عقائد کا کوئی ماخذ بتا سکا ۔ دوسرے لفظوں میں یہ سب لوگ آبا کے دین و رسومات کی اندھی پیروی کررہے تھے ۔ میں سوچتا رہا کہ انسان اپنی فطرت میں موجود حقائق کے اظہار کےلیے کیسے کیسے عقائد تخلیق کرتا ہے ، ان عقائد کے اظہار کےلیے کیسی کیسی رسومات ایجاد کرتا ہے ، اور پھر ان میں خود کو کیسے باندھتا چلا جاتا ہے ۔ کتنا بےبس ہے یہ انسان کہ اپنی فطرت میں خالق کے تصور سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے