عمران خان کی اپوزیشن کے ساتھ گیم

وہ ساری پی ٹی آئی جو مہنگائی مایوسی اور بیڈ گورننس کے بوجھ تلے دبی پڑی تھی اسے ملک کی نہایت تجربہ کار سیاسی مذھبی جماعتوں نے اپنی حماقت بھری سیاست سے نہ صرف جگا کر یکجا کردیا بلکہ پارٹی کے کھرے کھوٹے الگ بھی کرکے دے دئیے جبھی پی ٹی آئی والے حکومت جانے کے باوجود جشن مناتے پھر رہے ہیں اور جن کا مقصد عمران خان کو گھر بھیجنا تھا انکے چہرے سوجے پڑے ہیں .

عمران خان کو مزیدار سبق الیکٹبلز اور دوسری جماعتوں سے آئے لوگوں سے بھی ملا جو مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ گئے حالانکہ یہ وہی لوگ ہیں جنہیں پارٹی کے مخلص ورکرز کو نظر انداز کرکے ٹکٹس دئیے گئے اور انہوں نے ہی خان کو دھوکہ دیا البتہ پی ٹی آئی کا اپنا ورکر جو پارٹی ٹکٹ پہ جیت کر اسمبلی آیا وہ اختلافات یا ناراضی کے باوجود عمران خان کیساتھ مشکل مرحلے میں کھڑا رہا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اب الیکشن میں عمران خان مہنگائی یا بیڈ گورننس کی صفائیاں دینے کے بجائے بتائیگا کہ کیسے اپوزیشن نے امریکہ کے کہنے پہ سازش میں شامل ہوکر اسکی حکومت گرائی کروڑوں روپے میں اراکین خریدے ان چند روز میں عمران خان نے ایک دن میں دو دو تین تین خطاب بھی کئیے اور اپنا مقدمہ عوام کے سامنے رکھا یہاں تک کہ شہباز شریف جیسا جغادری سیاست دان مخصمے میں پڑ کر کہنے پہ مجبور ہوا کہ عمران خط دکھائے اگر اصلی ہوا تو ساتھ دوں گا اور جب حکومت نے خط دکھانے بلایا تو اپوزیشن نے یوٹرن لے لیا .

ویسے اپوزیشن کیا انتخابی مہم چلائے گی ؟ کیونکہ الیکشن تو سب نے ایک دوسرے کیخلاف ہی لڑنا ہوتا ہے یہ تو عارضی انتظام یا اتحاد ہے جس کا مقصد عمران حکومت کو چلتا کرنا تھا اور وہ مقصد بڑی حد تک حاصل ہوچکا ہے اب حل یہی ہے کہ ساری اپوزیشن متحد ہوکر کسی ایک قیادت کے نیچے الیکشن لڑے کیونکہ الگ الگ لڑنے میں فائدہ پھر عمران خان کا ہی ہے اور اپوزیشن کا دکھ یہ نہیں کہ آئینی بحران پیدا ہوگیا وہ تو سپریم کورٹ ویسے بھی کوئی راستہ نکال لے گی معاملہ یہ ہے کہ عدم اعتماد کے بعد اپوزیشن نے مختصر مدت کی حکومت میں سب سے پہلے نیب کامکو ٹھپنا تھا اسکے بعد نواز شریف کی واپسی و نااہلی سمیت کئی ایک چیزوں کو طے اور اداروں میں اصلاحات کرنی تھیں تاکہ الیکشن میں اس سے مدد مل سکے وہ فی الحال رہ گیا ہے ممکن ہے کہ سپریم کورٹ دوبارہ عدم اعتماد کراکے یہی سیٹ اپ بنائے جو اپوزیشن آئین کیمطابق چاھتی تھی یا پھر الیکشن کیطرف جائے جیسا کہ عمران خان کی خواہش ہے .

اپوزیشن جب اتنا بڑا کھڑاک کرنے جارہی تھی تو ان سے سنگین غلطی پہلے اسپیکر کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک نہ لانا تھی وہی انکے گلے پڑی
آخری مگر سب سے اہم بات ، پاکستان جیسے کمزور نیم جمہوری نیم مارشل لائی ممالک میں آئینی راستہ ہونے کے باوجود وقت سے پہلے وزرائے اعظم کی تبدیلی کسی طور مناسب نہیں یہ حرکتیں مضبوط معاشی اور سیاسی نظام رکھنے والوں کو زیب دیتی ہیں جیسا کہ جاپان یا اس رائیل وغیرہ جہاں سال میں تین حکومتوں کی تبدیلی سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا عمران خان حکومت کی بدترین کارکردگی کندھوں پہ اٹھائے الیکشن کیطرف اپنے ٹائم پہ جارہا تھا لیکن اس دوران بلاول مولانا اور شریفوں نے وہ بوجھ ڈھونے میں خان کی خوب مدد کی اور اب ایک بحران کھڑا ہے نظام چلتے رھنے دیتے سال سوا سال بعد حکومت مدت پوری کرتی اور عوام نے فیصلہ کرلینا تھا کہ وہ کس کے ساتھ ہیں یہی نظام کی مضبوطی کا راستہ تھا جسے اپوزیشن کی عجلت پسندی نے کھوٹا کردیا ہے .

آج ذوالفقار علی بھٹو شہید کی برسی ہے یہی ایک پھانسی ابھی تک پاکستانی سیاست کے گرد گھوم رہی ہے اسوقت بھٹو اور اپوزیشن کوئی بہتر رستے پہ متفق ہوتے تو شاید ہم دائروں کے اس سفر سے نکل جاتے جس سے بیالیس برس گزرنے کے باوجود نہیں نکل پارہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے