قوموں کی زندگی میں آئیں و قانون کی اہمیت

قوموں کی زندگی میں آئین اور قانون کی کیا اہمیت ہوتی ہے اس کا ادارک بد قسمتی سےہمارے سماج میں نہیں پایا جاتا۔ یہ احساس پیدا کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی ۔قوم کے مختلف دھڑے صرف اسی وقت پر امن طریقے سے رہ سکتے ہیں جب ہر طبقہ ملکی قانون اور آئین کا احترام خود پر واجب کر لے۔ ورنہ شکایتیں کا ازالہ نہیں ہوسکتا اور ملک انارکی کا شکار ہو جاتاہے۔

دنیائے انسانیت نے ہزاروں برس کی خون خرابی کے بعد پر امن انتقال اقتدار اور تقسیم اختیار کا طریقہ آئین کی صورت میں وضع کیا ہے۔جس سے قوموں نے غیر یقنیت اور عدم تحفظ سے نجات حاصل کی ۔آئین و قانون سے پہلے کی دنیا طالع آزماؤں کی من مانی کی خون چکاں داستان ہے۔ جس میں عام آدمی پس کر رہ جاتا تھا۔

ملک عزیز میں متفقہ آئین بڑی مشکل سے وجود پذیر ہوا ۔ اس کے تقدس کو لیکن کئی بار پامال کیا گیا۔ نتیجہ سیاسی عدم استحکام کی صورت میں نکلا جس نے سماج اور قومی مزاج دونوں کو برباد کیا۔ طاقت سکہ رائج الوقت قرار پایا۔ قانون طاقت ور کی لونڈی قرار پایا۔

ملک میں یہ پہلی بار ہوا کہ آئین شکنی کو بجا طور پر ملک سے غداری قرار دے کر جنرل مشرف جیسے بے قابو ڈکٹیٹرکو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ قانون کی طاقت کا یہ مظاہرہ دیکھا گیا کہ کس طرح عدالت عالیہ کے ججوں کو کئ ماہ ان کے گھروںمیں نظر بند کر کے رکھنے والا مطلق العنان حاکم عدالت سے بھاگ کر ہسپتال اور پھر وہاں سے فرار ہو کر بیرون ملک چلا گیا۔ اس سے بڑی توقع پیدا ہوئی کہ آئندہ آئین کا تقدس برقرار رہے گا۔ جنرل مشرف کے مارشل لا کو ملک کا آخری مارشل قرار دیا گیا۔

یہ آئین لیکن ایک بار پھر ایک سویلین کے ہاتھوں پامال ہوگیا جس کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ اور ملک اس وقت آئینی بحران اور غیر یقینی صورت حال میں مبتلا ہے۔

عمران خان ایک شخص ہے، آج ہے، کل نہیں ہوگا مگر یہ ملک،اور اس میں ہماری نسلیں موجود رہیں گی، اور یہ آئین کے احترام کے بغیر یہ پرامن ملک نہیں بن سکتا۔ مگر ملک اور اس کا مستقبل ایک شخص کی انا کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے اس کااندازہ نہیں کیا جارہا۔

عمران خان کی آزاد منش طبیعت پہلے بھی کسی قاعدہ قانون کو تسلیم نہیں کرتی تھی۔ دھرنے کے دوران میں قانون کے رکھوالوں کو براہ راست دھمکیاں اور اس کے پیروکاروں کا پولیس پر تشدد صاف بتا رہا تھا کہ ملک قانون شکنوں کے ہاتھوں میں جا رہا تھا۔ عمران خان خود بھی اپنے ساتھیوں کی ہتھ چھٹ کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کرتا رہا ہے۔

عمران خان کے پیروکار زیادہ ترنوجوان طبقہ ہے جس نے کل ملک کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے۔ عمران خان کی شعلے اگلتی زبان نے انھیں قانون شکنی کی تربیت دی ہے۔ یہ اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے کسی سماجی اور سیاسی اقدار کی پروا نہیں کرتے۔ان حالات میں ملک کا مستقبل خاصا بھیانک نظر آتا ہے۔

سپریم کورٹ سے آخری امید ہے کہ وہ ملک کے حقیقی مفاد میں آئین اور قانون کے مطابق ایسا فیصلہ دے جس سے آئین کا تقدس بحال ہو اور آئین شکی کی حوصلہ شکنی ہو۔ جو زخم لگ گیا ہے اس کا بھرپور اندمال ہوسکے۔ ایسا اگر نہ ہوا، تو یہ ملک کے ساتھ بہت بڑا المیہ ہوگا۔ جس سیاسی اور جمہوری کلچر کی آب یاری کے لیے طویل عرصے سے جمہوریت اور قانون پسند طبقات کوشش کر رہے ہیں، اس راہ میں اپنی جانوں کی قربانی دے رہے ہیں، ان کی کوششوں پر پانی پھر جائے گا۔

ملک و قوم اور اس کے مستقبل کو ایک شخص کی انا کی بھینٹ نہیں چڑھایاجا سکتا۔وہ اگر اکثریت کا اعتماد کھو چکا ہے تو آئین اور اخلاق کا تقاضا یہی ہے کہ وہ راستے ہٹ جائے۔ یہی جمہوریت ہے، جس کے نام پر عمران اپنی حکومت قائم کی۔ اسی اصول پر اسے پر امن طریقے سے عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے