یوکرائن بحران کے سیاسی حل کے حوالے سے امریکی متضاد طرز عمل مشکلات کا سبب

نیٹو ممالک نے حال ہی میں ایک سربراہی اجلاس منعقد کیا ہے جب یوکرین کا بحران دوسرے مہینے میں داخل ہو چکا ہے۔

اس چیلنجنگ صورتحال میں جنگ بندی کے لیے امن اور مذاکرات کو فروغ دینے کے حوالے سے کسی بھی سطح پر اقدامات اور موثر کوششیں امریکی قیادت والے اس اتحاد کی ترجیحانہ کوشش ہونی چاہیے تھی۔ تاہم نیٹو ممالک کے اس سربراہی اجلاس کے حوالے سے بھیجے گئے پیغامات اور متعلقہ اقدامات انتہائی مایوس کن رہے۔

یوکرائن بحران کے آغاز سے ہی، امریکہ نے اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے کسی بھی ضمن سے خود کوئی جائزہ نہیں لیا اور نہ ہی جنگ کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کی کوئی کوشش کی۔

اس کے برعکس، امریکی قیادت نے اپنی زمہ داریوں سے بری الزمہ ہوتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ وہ یوکرین کو بڑے پیمانے پر ہتھیار فراہم کرے گا اور روس کے خلاف مزید پابندیاں عائد کرے گا۔
یہ ایسے ہی ہے گویا اپ بڑھکتےشعلوں پر تیل ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ اقدامات اور عوامل یوکرائن بحران کو سیاسی ذرائع سے حل کرنے میں بڑی رکاوٹیں کھڑی کرنے کا باعث بنے گی، اور عالمی اور علاقائی امن اور خوشحالی کے لیے بڑی مشکلات کا سبب ہونگیں۔

موجودہ بحران کے حوالے سے امریکہ نے جو کچھ کیا ہے وہ ان ذمہ داریوں سے قطعاً مماثلت نہیں رکھتا جو ایک بحرانی کیفیت میں ایک بڑے ملک کو دکھانا چاہئے۔ یہ تمام ا اقدامات خالصتاً ایک تسلط پسند ملک کی روایتی عادات سے مماثلت رکھتا ہے جو بحرانوں کے ذریعے اپنے بالادستی کے عزائم تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔

سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے ایک بار کہا تھا کہ امریکہ کا دشمن ہونا خطرناک ہو سکتا ہے لیکن دوست بننا بھی ایک مہلک امر ہے، اور یہ عوامل امریکہ کی جانب سے دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے بحرانوں سے بارہا درست ثابت ہو چکا ہے۔

اس تمام پس منظر میں حالیہ یوکرین کے بحران کو بغور دیکھا جائے تو تمام عوامل واضح کرتے ہیں کہ امریکہ نے یوکرین کو روس کے ساتھ محاذ آرائی میں پھنسانے کے لیے نیٹو ممالک کی رکنیت کا کھوکھلا وعدہ کیا، اور پھر امن کے تحفظ کا نعرہ لگاتے ہوئے یوکرین کو کروڑوں ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی گئی۔ اس طرح کے اقدامات نے دیکھا جائے تو صرف امریکہ کی منافقت کو پوری دنیا پر عیاں کر دیا ہے۔

یوکرین کا بحران جس سمت میں سازش کیس گیا ان تمام عوامل کا انحصار اس بات پر ہے کہ امریکہ کیا کرتا ہے اور کس طرح سے صورتحال کو اپنے مقاصد اور عزائم کیلئے استعمال کرتا ہے۔
امریکی کانگریس کی سابق رکن تلسی گبارڈ نے کہا کہ اگر امریکہ یوکرین کو نیٹو میں شمولیت کی اجازت نہ دینے کا وعدہ کرتا تو روس اور یوکرین کے درمیان جنگ سے بچا جا سکتا تھا۔
تاہم، یہ ایسا نہیں ہے جو امریکہ نے کیا۔ امریکی زیرقیادت فوجی اتحاد نے مشرق کی طرف پانچ بار توسیع پسندانہ اقدامات کئے، اور اپنی سٹریٹجک سرحد کو روس کے گیٹ وے تک منتقل کر دیا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کا روس اور یوکرین کے درمیان تنازعہ کو کم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے بلکہ وہ اسے مزید بڑھانا چاہتا ہے۔

اس تمام صورتحال کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ یوکرین کو اپنی جغرافیائی سیاسی شطرنج کی بساط پر ایک پیادے کے طور پر استعمال کر رہا ہے، تاکہ روس پر قابو پایا جا سکے، اور یورپ کی سٹریٹجک آزادی کا گلا گھونٹا جا سکے، اور یورپ میں اس کی گرتی ہوئی بالادستی کو کنارے لگایا جاسکے۔

امریکہ کے یورپی اتحادیوں کے لیے، وہ جنگ کی واضح قیمت ادا کر رہے ہیں، جیسے کہ روس-یوکرین تنازع ان کی دہلیز پر، مہاجرین کی آمد اور توانائی کی قلت جیسے عوامل کا سبب بنے گا۔
تاہم، امریکہ جو کہ گیس اور پیٹرولیم کے بھرپور وسائل پر فخر کرتا ہے اور بحر اوقیانوس کے دوسری طرف بیٹھا ہے، اس خطے میں جاری محاز آرائی سے خوب فائدہ اٹھا رہا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد، امریکہ نے ہمیشہ عالمی امن کا محافظ بننے کے حوالے سے خود کو ظاہر کرنے جا ارادہ کیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ایسے ملک کے طور پر اپنے ذاتی مفادات کا زیادہ محافظ ہے جو "سب سے پہلے امریکہ” کے نعرے جو جاری رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

اپنی بالادستی کو بچانے کے لیے دوسرے ممالک پر الزام لگانا امریکا کا معمول رہا ہے یوکرین کے بحران کے آغاز سے ہی امریکا نے چین پر الزام لگایا کہ وہ جنگ کو ناگزیر جانتے ہوئے نہیں روک رہا، یہ گویا ایک ایسی بیواقوفانہ سوچ ہے کہ جیسے روس نے چین سے فوجی مدد کی درخواست کی، اور منافقانہ طور پر چین سمیت تمام ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ بین الاقوامی امن کی حفاظت کریں۔
یوکرین کے معاملے پر چین نے منصفانہ انداز میں بات کو اجاگر کرتے ہوئے اس عزم کا ا اظہار کیا ہے کہ طویل مدتی وژن کے ساتھ امن کے لیے کوششوں کو جاری رکھا جائے۔

چین نے ہمیشہ سے تعمیری کردار ادا کیا ہے۔ یہ ان تمام کوششوں اور ممکنہ اقدامات کی حمایت کا بھی عزم کرتا ہے جو موجودہ حالات کی کشیدگی کو کم کرنے اور سیاسی تصفیہ کے لیے سازگار ہوں اور کسی بھی ایسے عمل کی مخالفت کرتا ہے جو سفارتی حل تک پہنچنے کے لیے نقصان دہ ہو یا یہاں تک کہ کشیدگی میں اضافہ ہو۔ چین کو بدنام کرنے اور الزامات کے زریعے سے امریکہ کا مقصد صرف دھونس دھمکی اور الزامات سے چین کو کسی بھی طرح سے دباؤ میں لانا ہے۔

امریکی طرز عمل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سرد جنگ کی ذہنیت کے تحت چلنے والا ملک ایک بالا دستی ذہنیت، ایک بدمعاش طرزِ عمل اور دنیا کے باس کی طرح کام کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ امریکہ کو سمجھنا چاہیے کہ یوکرین کے بحران کے حل کے لیے مذاکرات انتہائی ضروری اور ناگزیر ہیں۔ یکطرفہ معیار اور سوچ و فکر کے ساتھ "قواعد پر مبنی بین الاقوامی آرڈر” کی تعریف کیساتھ اور دوسرے ممالک کو ایک فریق چننے پر مجبور کرنا جیسی پالیسیز اور طرز عمل کبھی کام نہیں آئے گا۔

امریکہ کبھی بھی دنیا کے عمومی مفادات کی پرواہ نہیں کرتا کیونکہ وہ اپنی بالادستی کو جاری رکھے ہوئے ہے اور اپنے مفادات کو ہمیشہ فوقیت دیتا ہے۔

اس وقت دنیا بھر کے ممالک کو کووڈ-19 وبائی مرض سے نمٹنے اور معاشی ترقی اور معاش کو یقینی بنانے میں پہلے ہی مشکل کا سامنا ہے۔ تاہم، امریکہ عالمی استحکام اور دنیا بھر کے اربوں لوگوں کے کام اور زندگی کو نظر انداز کر رہا ہے، اور اس تمام صورتحال میں روس کے خلاف من مانی طور پر ہمہ جہت اور غیر امتیازی پابندیاں عائد کر رہا ہے۔ اس نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ اگر دوسرے ممالک پابندیوں پر اس کے ساتھ تعاون نہیں کرتے ہیں تو وہ جوابی اقدامات پر عمل درآمد کر سکتا ہے۔

پابندیوں کا اس طرح کا غلط استعمال امریکہ کا ایک عام رواج ہے گزشتہ 20 سالوں میں امریکی پابندیوں کی تعداد میں دس گنا اضافہ ہوا ہے۔ تاہم دیکھا جائے تو ان پابندیوں کی وجہ سے دنیا کچھ بہتر نہیں ہو رہی ہے۔

نیوز ویک کے ایک حالیہ مضمون میں نشاندہی کی گئی ہے کہ روس پر پابندیاں سفارت کاری کے بغیر ناکام ہو جائیں گی۔ وائٹ ہاؤس بھی اس نکتے کو جانتا ہے، لیکن وہ اب بھی پابندیاں لگانے کا خواہاں ہے، حالات کی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے یا جاری بحرانی کیفیت کو کنٹرول کرنے کے لیے نہیں بلکہ امریکہ طویل مدت کے لیے روس کو اقتصادی طور پر قابو میں رکھنے کے لیے پابندیوں کے عمل کو دہرا رہا ہے۔

تاریخ اور حقائق دونوں نے ثابت کیا ہے کہ پابندیوں کے نتیجے میں امن اور سلامتی نہیں ہو گی، بلکہ صرف ہارنے یا نہ جیتنے کے حالات ہوں گے۔ وہ صرف سست عالمی معیشت کو مزید بڑھا دیں گے اور علیحدگی اور تصادم کو مزید بڑھا دیں گے۔

موجودہ حالات میں امن اور سیاسی تصفیہ کے لیے ممکنہ گنجائش پیدا کرنا تمام ذمہ دار ممالک بالخصوص بڑے ممالک کی ذمہ داری ہونی چاہیے۔

اگر امریکہ واقعی یوکرین میں کشیدگی کو کم کرنا چاہتا ہے تو اسے آگ پر تیل ڈالنے سے گریز کرنا چاہئے، پابندیوں کی بڑی لاٹھی کو چلانے سے باز رہنا چاہئے، دوسرے ممالک پر بہتان تراشی اور الزامات سے گریز کرنا چاہئے اور انصاف اور امن کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے