”رہ اقتدار“ قدم قدم تجھے یاد گار بنادیا

گاؤں کی خو برو دوشیزہ, رات کے پچھلے پہر، اپنے چاہنے والے نوجوان کے ساتھ پڑوس کے گاؤں چلی گئی۔ ماں آہ و زاری کرتی پنچائت پہنچی، سرپنچ نے پوچھا۔ "تم کیوں اسے واپس لانا چاہتی ہو۔ اس نے پسند کی شادی کر لی۔” بوڑھی ماں نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔ "جی یہ بات نہیں۔ وہ بےشک اس سے شادی کرے۔ جُگ جُگ کرے، میں تو بس یہ چاہتی ہوں کہ ایک بار وہ گھر آجائے۔ میں اُسکی مہندی لگاؤں، اُسکی سکھیاں سہیلیاں گیت گائیں، اسے دلہن بناؤں، اُسے زیور پہناؤں، اور ڈولی میں بٹھا کر اُسے دولہے کے ساتھ رخصت کر دوں۔” پنچائت نے فیصلہ اُسکے حق میں دے دیا۔

خان صاحب نے حالات کے تیور دیکھے تو یکایک رات کے اندھیرے میں ایوان اقتدار کو چھوڑ کر پتلی گلی سے بنی گالا کو نکل گئے اور قومی اسمبلی بھی زیور کی پوٹلی کی طرح باندھ کر ساتھ لے گئے۔ اپوزیشن روتی بسورتی سپریم کورٹ جا پہنچی۔ التجا کی کہ کسی طرح خان صاحب کو دوبارہ وزیراعظم بنا دو۔ عدالت نے پوچھا۔ "تم تو "گو گو” کے نعرے لگاتے تھے۔ وہ چلا گیا اب کیا چاہتے ہو؟” اپوزیشن نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ "مائی لارڈ ! ہم اُسے مہندی لگا کر، دلہن بنا کر، زیور سے لاد کر، ڈھولک بجاتے ہوئے، گیت گاتے ہوئے، باقاعدہ ڈولی میں بٹھا کر پیا دیس بھیجنا چاہتے ہیں۔” عدالت نے بات مان لی۔ اب ہفتہ ۹ اپریل کو رخصتی کی تقریب طے پائی ہے۔

اپنے نظریے پر پختہ یقین، استقامت روی، جبر کے نامہر باں موسموں سے پنجہ آزمائی اور دارورسن کی آزمائشوں کے حوالے سے فیض احمد فیض نے کہا تھا۔

جو رُکے تو کوہ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار بنا دیا
عصر حاضر میں جزوی ترمیم کے ساتھ دوسرا مصرع وزیراعظم عمران خان پر صادق آتا ہے، بلاشبہ حکمرانی کی ساعت اول سے دمِ واپسیں تک انہوں نے ”رہ اقتدار“کے قدم قدم کو یاد گار بنا دیا ہے۔ نہ کوئی اُن سا آیا، نہ آئے گا۔ پاکستان کی پچہتر(75)سالہ تاریخ میں کتنے ہی وزرائے اعظم آئے اور گئے۔ کم و بیش ہر ایک کی رخصتی کے ساتھ کوئی نہ کوئی کہانی جڑی ہے۔ لیکن خان صاحب کے طلوع و غروب کی طلسم ہوش ربا، برسوں زندہ رہے گی۔ ان کا آفتاب اقتدار آر۔ ٹی۔ ایس کی ناگہانی موت کی سیاہ رنگ قبا سے ابھرا اور تحریکِ عدم اعتماد کے اندھیروں میں غروب ہونے کو ہے۔ کامل ساڑھے تین برس تک یہ آفتاب، سوا نیزے پے کھڑا پوری آب وتاب سے چمکتا، دمکتا اور دہکتا رہا۔ بادل کے کسی آوارہ ٹکڑے کو بھی اُس کے قریب آنے کی جرات نہ ہوئی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے چاروں اور سے سرکش ہوائیں اُٹھیں، بادل اُمڈ اُمڈ کر آئے، آندھیوں نے سر اٹھایا، سورج کسمسایا، اپنے بکھرتے اجزاء کو سمیٹنے کی کوشش کی لیکن اُس کی اپنی شعاعیں بغاوت شعار ہواؤں اور گھٹاؤں سے جا ملیں۔سورج بہت تلملایا، بہت پینترے بدلے، لیکن کچھ بس نہ چلا، پيہم سکڑتا اور سنولاتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ ایک سیاہ رنگ شہاب ثاقب کی طرح زمیں پر آن گرا اور کرچیاں ہوگیا۔

اب اُن کہانیوں کی الف لیلیٰ کھلے گی جن کا آغاز ایک عالی مرتبت خاتون کے تذکرے سے ہوا۔ معروف انگریزی اخبار ”دی نیوز“کی ایک جامع رپورٹ کے مطابق اس خوش بخت خاتون کے اثاثے، پی۔ٹی۔آئی کے تین سالہ دور میں تئیس (23) کروڑ روپے سے ترانوے(93)کروڑ تک پہنچ گئے۔ اُس نے کالا دھن سفید کرنے والی سکیموں سے بھی فائدہ اٹھایا۔ یہ وہ اثاثے ہیں جو مقدر کی دھنی خاتون نے اپنے گوشواروں میں (اپنی جائیدادوں کی قیمت کا تعین خود کرتے ہوئے)ظاہر کئے۔ ان کی اصل قدرو قیمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ”آمدن سے زیادہ اثاثوں“پر آہنی ہاتھ ڈالنے والی ”ریاست مدینہ“کے ”اميرالمومنین“اسی لئے اسمبلی توڑ کر براہ راست انتخابات کی طرف جانا چاہتے تھے کہ اس کرپشن پر پردہ پڑا رہے جو ساڑھے تین برس تک نقاب اوڑھے، کُنج عافیت میں بیٹھی رہی۔یہ بیانیہ بھی زور وشور سے ابھرے گا کہ واقعی خان صاحب کے نامہ اعمال میں کوئی کار خیر ہے یا اُن کا دور ہمہ جہتی زوال و انحطاط کا دور تھا۔معیشت کی زبوں حالی، ڈالر کی اونچی اڑان، روپے کی مسلسل ناقدری، تاریخ کی سب سے خوں آشام مہنگائی، اعصاب کُش بےروزگاری، تیزی کے ساتھ غربت کی لکیر سے نیچے لڑھکتے عوام، پستا ہوا متوسط طبقہ، ہچکولے کھاتی سٹاک ایکسچینج، ملمع کاری کے باوجود سُست رو معاشی نُمو، ماہرین کی فیشن پریڈ کے باوجود جامد محصولات، نااہلیت اور بدانتظامی کے باعث کبھی گندم،کبھی چینی، کبھی ادویات، کبھی کھاد، کبھی ایل۔ این۔ جی سکینڈل، مفلوج ہوجانے والی بیرونی سرمایہ کاری، بروقت اقدامات نہ ہونے کے باعث بجلی کی پیداوار میں کمی،اذیت ناک لوڈ شیڈنگ کی واپسی، غیر جانبدار عالمی اداروں کے مطابق کرپشن میں اضافہ، ٹھپ کر دیئے جانے والے سی۔

پیک منصوبے، باون (52) نابغوں کی جہازی کابینہ، بےتکی درجنوں ٹاسک فورسز، اقربا پروری اور دوست نوازی کا چلن، رفقاء کے سنگیں جرائم سے چشم پوشی، سرکاری اداروں کو اپنی خوئے انتقام کی بھٹی میں جھونکنا، چودہ ارب بیس کروڑ روزانہ کے حساب سے (مسلم لیگ (ن)دور میں یہ شرح پانچ ارب ساٹھ کروڑ روزانہ تھی)قرضے تاریخ کی بلند ترین سطح، باون ہزار ارب روپے تک پہنچا دینا، خارجہ پالیسی کو بازیچہ اطفال بنا دینا، میڈیا کی مُشکیں کسنا، مخالفین کی پگڑیاں اچھالنا، من چاہےالزامات تھوپنا، اُن کے گھروں، قیام گاہوں اور دفتروں پر حملے کرنا، شائستگی کی ساری حدود توڑ کر ہر ”دہن“کو ”دہانہ“بنا دینا، معاشرے میں بدکلامی اور بدزبانی کا تعفن پھیلانا، قوم و ملک کی قسمت سنوارنے کیلئے دماغ سوزی کے بجائے ساری توانائیاں حریفوں پر مقدمات، ریفرنسز، سزاؤں، جیلوں، کھولیوں کے پنکھوں اور فرش پر بچھی دریوں پر مرکوز رکھتے ہوۓ عوام کے مسائل کو نظر انداز کر دینا اُن کے ساڑھے تین سالہ فردِعمل کے کارنامے ہیں۔ اس عرصے کے دوران انتہا درجے کی نرگیست خان صاحب کے دل و دماغ پر آکاش بیل کی طرح چھا گئی۔ وہ خود کو ”ریاست مدینہ“کا خلیفتہ المسلمین خیال کرنے لگے۔

"امربالمعرف“کے تازیانے لہراتے ہوئے اپوزیشن کو ”منکرین“گردانا اور ٹوٹ پڑے۔ اُن کے ” خطبات ”میں، مجھے، میرا، میرے اور عمران خان ”جیسے الفاظ سے چھلکنے لگے۔ پیغمبرانہ جلال و جمال کی ایسی ہی خود پرست رو میں انہوں نے خود کو ایک ”برانڈ“قرار دے دیا۔ تحریک ِعدم اعتماد جیسی آئینی جمہوری مشق اُن کے نزدیک حق وباطل کا معرکہ بن گئی۔ خان صاحب عملاً اپنے دعوے سے دست کش ہو گئے کہ ”مجھے اقتدار کا کوئی لالچ نہیں۔ میرے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔“ناکہ بندی کرنے کے باوجود منہ زور آندھی نہ تھمی۔ تحریک ِعدم اعتماد پھن پھیلاکر پھنکارنے لگی تو وزیراعظم کے اعصاب پر رعشہ طاری ہوگیا۔ پختہ اصولوں کا علمبردار، کسی سے بلیک میل نہ ہونے کا دعویدار، ”ریاست مدینہ کے خلفاء کی طرح اقتدار سے بے نیاز اور ہرگز کسی کے دباؤ میں نہ آنے والا”برانڈ“گرداب میں ہچکولے کھاتی کشتی کو سنبھالا دینے کیلئے، دور افتادہ گاؤں کی یونین کونسل کے چیئرمین کی سطح پر اترآیا۔ اُسے پنجاب اسمبلی میں اپنے 183 ارکان میں سے کوئی ایک بھی عثمان بزدار کا متبادل نظر نہ آیا۔ بیس سال تک دشت نوردی کرتا، اُس کا قافلہ سخت جاں، اصول پسندی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے پھریرے لہراتا ہوا، چوہدری پرویزالہٰی کی حویلی میں آن اترا۔ اس لئے کہ چوہدری صاحب کے پاس قومی اسمبلی میں پانچ قیمتی ووٹ تھے اور ووٹ، ہر نظریے اور اصول سے ماوری ہوتے ہیں کیونکہ انہی سے اقتدار کی غوطہ زن کشتی کو سنبھالا جا سکتا ہے۔

غیر ملکی سازش کا ڈراما بھی دھرا رہ گیا۔ دس لاکھ کا مجمع بھی نہ لگا۔ ایک لاکھ افراد نے اسمبلی کا گھیراؤ بھی نہ کیا۔ ایف-نائن پارک کے اجتجاجی مجمعے بھی خیالوں میں دھرے رہ گئے۔ بنی گالا کے سبزہ زار میں جھومر ڈالتے مور بھی غائب ہو گئے۔ طوطی ہزار بیاں، شیخ رشید احمد بھی لال حویلی میں طویل اعتکاف بیٹھ گئے۔

ہمیشہ شاداب کھرلیوں میں منہ مارنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ خان صاحب، کسی کے چھوڑنے کا غم دل سے نہ لگائیں، فرصت ملے تو یہ ضرور سوچیں کہ جاتے جاتے اُنہوں نے اپنی پوری سیاست کو رسوائی کی بھٹی میں کیوں جھونک دیا؟.

شاید آر -ٹی -ایس کی تاریکیوں سے طلوع ہونے والے اسی طرح غروب ہوتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے