امریکہ اپنی معیشت کو جنگی جنوں میں مبتلا کر کے خود کو نقصانات سے دوچار کریگا۔

دنیا بھر کے ممالک آج ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں، معاشی ترقی اور زرائع آمدنی کو یقینی بناتے ہوئے COVID-19 کے مسائل سے ہر ملک نبر آزما ہے۔
تاہم، عالمی استحکام اور زرائع معاش کے خدشات کو نظر انداز کرتے ہوئے، امریکہ نے روس کے خلاف یکطرفہ پابندیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا اور دوسرے ممالک کو ثانوی پابندیوں کے خطرے سے دوچار کر کے ان ممالک کو اطاعت کرنے پر مجبور کیا ۔ امریکہ نے اپنی معیشت کو جنگی جنوں کیساتھ معیشت، اقتصادی تسلط اور مالیاتی دہشت گردی بطور ہتھیار کے استعمال کرنے کے مختلف طریقوں سے بین الاقوامی معاشرے کے بیشتر خطرات اور خدشات سے دوچار کیا ہے اور ان تمام امریکی عوامل کو اقدامات کو دنیا بھر کے بہت سے ممالک نے ان کی مذمت کی ہے۔
یوکرین-روس تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے، امریکہ نے براہ راست فوجی مشغولیت سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ تاہم یوکرین کے لیے بڑے پیمانے پر فوجی امداد فراہم کر کے اور روس پر پابندیاں عائد کر کے امریکہ نے روس کے خلاف ہائبرڈ جنگ شروع کر دی ہے۔
امریکہ نے نہ صرف روسی حکومت کے اہلکاروں پر پابندیاں عائد کیں بلکہ متعدد روسی بینکوں کو SWIFT (سوسائٹی فار ورلڈ وائیڈ انٹربینک فنانشل ٹیلی کمیونیکیشن) کے پیغام رسانی کے نظام سے بھی خارج کر دیا، جو کہ عالمی مالیاتی لین دین کا بنیادی نظام ہے۔ اس کے علاوہ، اس نے روس کے مرکزی بینک کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں،
روسی اداروں اور کاروباری اداروں پر قرض اور ایکویٹی کی نئی حدیں لگا دی گئی ہیں، روس کو اپنی ہائی ٹیک مصنوعات کی نصف سے زیادہ برآمدات پر پابندی لگا دی ہے، اور پیٹرولیم اور قدرتی گیس کی خریداری پر پابندی لگا دی ہے۔
درج بالا پابندیوں سے متعلق حقائق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے ان بے مثال پابندیوں کا ہدف جنگ بندی نہیں ہے، بلکہ روس کی عسکری اور اقتصادی تباہی ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان 29 مارچ کو ہونے والے مذاکرات کے نئے دور سے مثبت اشارے ملنے کے بعد بھی، امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اب بھی کہا ہے کہ وہ روس پر پابندیاں مزید سخت کرتے رہیں گے۔ اس تمام پیرائے میں یہ کہنا مناسب ہے کہ یوکرائن کے بحران نے ایک بار پھر "پابندیوں کی سپر پاور” کے حقیقی نیت کو عیاں کر دیا ہے – اپنی بالادستی کو کسی بھی طریقے سے یا غلط طریقے سے اور دنیا کے تمام لوگوں کے مفادات کی قیمت پر محفوظ رکھنے کے لیے
معاشی تسلط پسندی کی وجہ سے، امریکہ نے جامع اور اندھا دھند پابندیاں نافذ کیں، جن کے سبب عالمی معیشت جمود کا شکار ہو رہی ہے اور لوگوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے نوٹ کیا کہ یوکرین میں جنگ اور روس کے خلاف بڑے پیمانے پر پابندیوں نے عالمی تجارت میں جمود اور پھیلاؤ کو سکیڑ کر رکھ دیا ہے، خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور آئی ایم ایف کو اپنی عالمی ترقی کی پیشن گوئی کو کم کرنے پر مجبور کیا ہے۔ آکسفورڈ اکنامکس کے مطابق، روس کے خلاف پابندیاں 2023 کے اختتام سے پہلے یورو زون میں جی ڈی پی میں 0.5 فیصد کمی لا سکتی ہیں۔
یہ تمام عوامل سے یہ واضح ہے کہ اگر امریکہ اپنی پابندیوں کو مزید بڑھاتا ہے تو ایک بڑا بحران عالمی تجارت، مالیات، توانائی، خوراک اور صنعتی اور سپلائی چین کو متاثر کر سکتا ہے، جو پہلے سے سست عالمی معیشت کو تباہ کر سکتا ہے۔
مالیاتی دہشت گردی سے دنیا کو لوٹتے ہوئے، امریکہ نے عالمی غربت اور عدم مساوات کو بڑھانے کا سبب پیدا کیا ہے۔ لاطینی امریکی ممالک میں درمیانی آمدنی کا جال، جاپانی معاشی بحران اور جنوب مشرقی ایشیائی معاشی بحران سب کا تعلق امریکی مالیاتی تسلط سے تھا۔ گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران امریکہ کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کی تعداد میں دس گنا اضافہ ہوا ہے۔ اقتصادی اور مالی پابندیاں وہ ہیں جن کا امریکہ دیگر ممالک ہر دباؤ بڑھانے کے لیے مسلسل سہارا لیتا ہے۔
حال ہی میں، وائٹ ہاؤس نے امریکی بینکوں میں موجود 7 بلین ڈالر کے افغان فنڈز کو منجمد اور قابو کر لیے، جس سے پورے افغانستان میں کئی مقامات پر احتجاج شروع ہوا۔ ایسے عمل کو ننگی ڈکیتی کہا جاتا تھا۔ آج، روس کے مرکزی بینک کے اثاثے منجمد کرتے ہوئے، امریکہ ایک بار پھر بین الاقوامی مالیات کے قوانین کو دوسروں کو لوٹنے کا ذریعہ بنا رہا ہے۔
معاشی تسلط اور مالی دہشت گردی کو برقرار رکھتے ہوئے امریکہ یقینی طور پر خود کو نقصان پہنچائے گا۔ یورو پیسیفک کیپیٹل کے چیف اکانومسٹ پیٹر شِف کا خیال ہے کہ پابندیوں کے ساتھ امریکی ڈالر کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے طویل مدتی نتائج بھگتنا پڑیں گے، جس سے ممالک کو یہ فکر لاحق ہو گی کہ آیا یہ ہتھیار ایک دن ان کے خلاف استعمال ہو گا۔ آئی ایم ایف کی چیف اکنامسٹ گیتا گوپی ناتھ نے کہا کہ دنیا امریکی ڈالر کو غیر ملکی زرمبادلہ کے طور پر لینے کے تحفظ کا از سر نو جائزہ لے گی۔ یو ایس ڈپارٹمنٹ آف دی ٹریژری کے سینئر ایڈوائزر زولٹن پوزسر نے نوٹ کیا کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے روس کے مرکزی بینک کے اثاثے منجمد کر کے موجودہ بین الاقوامی مالیاتی نظام کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔
یہاں تک کہ امریکہ کے اتحادی بھی امریکی پابندیوں کے نقصان دہ نتائج کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک اقتصادی ماہر نے نشاندہی کی کہ مالیاتی نظام میں دراڑ پیدا ہو رہی ہے جس سے امریکہ طویل عرصے سے فائدہ اٹھا رہا ہے، اور یوکرین کا بحران اس عمل کو مزید تیز کر دے گا۔ امریکہ کے لیے نام نہاد "قواعد” کی آڑ میں بین الاقوامی نظم کو کمزور کرنا اور معاشی اور مالی بالادستی کے ساتھ تصادم کو ہوا دینا نہ تو ذمہ دارانہ امر ہے اور نہ ہی اخلاقی طور پر جائز ہے۔ امریکہ کو فوری طور پر سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کر دینا چاہیے۔ اسے بالادستی اور نجی فائدے کے بجائے مشترکہ مفادات کو یقینی بناتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، تاکہ دنیا کے طویل مدتی استحکام اور پائیدار ترقی کے تحفظ کے لیے تمام متعلقہ فریقین کے ساتھ مل کر کام کیا جا سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے