مدینہ میں ہلڑبازی اور عشقِ رسولؐ کے تقاضے

عشقِ رسولؐ کے تقاضے
محمدؐ ہی میرا ایمان محمدؐہی عبادت ہے
جو سچ کہہ دوں تو دینِ رب محمدؐسے عبارت ہے

گذشتہ دنوں حرمِ نبوی ؐ میں وزیراعظم پاکستان جب اپنے وفد کے ہمراہ روضہء رسول پر حاضری دینے آئے۔ تو کچھ پاکستانیوں نے ابو جہل کی یاد تازہ کرتے ہوئے وزیر اعظم اور اسکے وفد سے اپنی نفرت اور بغض کا اظہار کچھ اس انداز میں کیا کہ عشق رسول کی نام لیوا پاکستانی قوم اور محمدؐ عربی کا ادنی سے ادنی امتی بھی سکتے کے عالم میں ندامت اور شرمندگی کی تصویر بن گیا۔۔

جو طوفانِ بدتمیزی صرف اپنے مخالفین کو رسواء کرنے کے لئے بپا کیا گیا۔ اسکو دیکھ کر چشمِ فلک ابھی بھی پُر نم ہے۔۔

مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ جن لوگوں کو ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی وہ کون تھے اور کیا وہ اسکے حقدار تھے یا نہیں۔مجھے اس بحث میں بھی نہیں جانا۔ کہ جن لوگوں نے حرمَِ نبوی کے تقدس کو پامال کیا۔ کیاوہ ایک سوچھے سمجھے منصوبہ بندی کے ساتھ آئے تھے؟؟؟ یا پھر یہ انکا خالصتاََ شخصی عمل تھا۔۔۔میرے لئے یہ بحث بھی ثانوی حیثیت کی ہے کہ غضبناک ٹولہ ملک و قوم کی خدمت کر رہا تھا یا اپنے ملک اور وہاں لاکھوں پاکستانیوں کے لئے رسوائی کا سامان اکٹھا کر رہا تھا۔اور نہ میں اس تفصیل میں جانا چاہتا ہوں کہ ہنگامہ کرنے والے جس جماعت کے نمائندے تھے وہ جماعت اپنے جنونی ورکروں کے اس فعل پرکس حد تک شرمندہ ہے۔ اور نہ ہی ان لوگوں کے ردِ عمل کو سوچتا ہوں کہ جنکی رسوائی اور بے عزتی کی گئی۔

میرے سامنے جو چیز پریشان کن ہے۔ جس کو سوچ کر میری روح بے چین اور میرے جذبات مجھے ندامت کے آنسو بہانے پر مجبور کرتے ہیں۔ وہ ہے ہماری قوم کے اندر دین کے لبادے میں پروان چڑھنے والی وہ جنونی، مخصوس اور خطرناک سوچ جسکے نتیجے میں قوم جذباتی فکر اور نعروں کی بنیاد پر دین سے دور ہوکر ددین ہی کی بنیادیں کھو کھلی کرنے پر تلی ہوئی ہے اور حرمِ نبوی کا واقعہ اس مخصوص سوچ اور ذہنیت کی ایک تازہ مثال ہے جسنے عشق رسول کے تقاضوں کو کچھ اس انداز میں روندا کہ جیسے وہ مسلمانوں کے دین کے اساس پر حملہ آور ہوں
قطع نظر اس سے کہ کسکی بے عزتی ہوئی اور کس نے بے عزتی کی یاکن کے ایماء پر یہ کام ہوا۔ایک بات اٹل ہے کہ ہمارے جنونی سوچ اور نام نہاد انقلابی جاہلانہ روئے سے اب حرمِ نبوی بھی محفوظ نہیں۔
اس یزیدی کردار کے حامل لوگوں کو شاید انکی قیادت یہ سمجھانے میں قطعا ناکام رہی کہ یہ ادب کا وہ مقام ہے جہاں جبرائیل بھی بڑی عاجزی سے حاضر ہوتا تھا۔یہ وہ مقام ہے کہ جہاں دنیا کی ساری بادشاہتیں گداگر بن کر کھڑی ہوتی ہیں۔ ان بدبختوں کو کسی نے یہ نہیں بتایا۔ کہ جس مقام پر آپ محمد ؐکے در پر آنے والے مہمانوں کی بے توقیری صرف اپنے سیاسی دشمنی کا بھڑاس نکالنے کے لئے کر رہے ہو۔۔یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں سے اللہ تعالی نے پوری دنیا کی ہدایت رہنمائی اور اصلاح کا آغاز اپنے حبیبؐ کے ذریعے کیا۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب آپ اپنے ورکر کو نظریہ اور تربیت دینے کی بجائے صرف نعرے اور جذبہ دیتے ہو تو نتائج ایسے ہی خطرناک نکلتے ہیں۔۔

ندامت اور پشیمانی اس سے بڑھ کر یہ کہ یہ سب اس جماعت کے نمائندہ لوگ تھے جو پاکستان میں محمدؐ کی محبت اور انکی ریاستِ مدینہ کے دعویدار جماعت تھی انکی نیت پر شک کوئی نہیں۔ لیکن عمل میں اتنی جاہلیت؟؟ کردار اتنا جاہلانہ؟؟؟ یزیدیت اور ابو جہل کا عمل اتنا سر چڑھ کر بولا۔ کہ اپنے مخالفین کو روندنے کے چکر میں، ان کو بے عزت کرنے کے چکر میں وہ حرمِ نبوی کی عزت کو بھی پامال کر بیٹھے؟؟؟ یہ واقعہ اس مخصوص طبقے کے جنونی طرزِ فکر کی عکاس سے۔۔۔ سورہ حجرات کی آیت تو اللہ کا حکم ہے جسکی صریحاََ حکم عدولی ہوئی لیکن میں ان لوگوں کے رہنماوں سے مخاطب ہوں کہ ایک لمحے کے لئے بھی تمھیں اس جاہلانہ فعل کے لئے توجیہات اور تاویلات پیش کرنے کی بجائے یہ توفیق نہ ہوئی کہ حرمتِ رسول پر اپنے سیاسی مقاصد قربان کردو۔حضرتِ ؑعمر ؓ کا واقعہ مثال کے طور پر پیش کرنے والے پہلے عمرؓ کے کردار کا عشرِ عشیر تو اپنا لیں پہلے وہ ماحول اور فضاء تو پیدا کردیں پھر انکے واقعات کا حوالہ دیں لیکن کیا اس واقت بھی آداب و تکریم کے سارے حدود کی دھجیاں بکھیر دء گئی تھیں؟؟؟ (نعوذبا اللہ)۔۔ یا صرف اپنے پیادوں کے یزیدی عمل کوجایز قرار دینے کے لئے عمر فاروقؓ کے نام کو بھی نہیں بخشا جا رہا؟؟؟؟؟

ریاستِ مدینہ بنانے والوں کے لئے پہلا سبق عشق رسول ہے۔ اور اگر عشقِ رسول کی مثالیں ڈھونڈنی ہیں تو تاریخ بھری پڑی ہے۔بانیء دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی مدینہ جاتے ہوئے میلوں دور اپنی جوتیاں اتار کر ننگے پاوں سفر کرتے اس سوچ کے ساتھ کہ کہیں یہاں میرے نبی کا نقشِ پا آ ئے ہوں تو یہ بڑی بے ادبی ہوگی کہ نانوتوی کا جوتا حضورؐ کے نقشِ پا پر آجائے۔۔

خلافتِ عثمانیہ کے آخری طاقتور اور بے مثال خلیفہ سلطان عبد الحمید ثانی رحمہ اللہ جب مدینہ کے لئے ٹرین کا منصوبہ شروع کرتے ہیں۔ تومنصوبے کے کرتا دھرتاوں کو حکم دیتے ہیں کہ مدینہ سے ۰۲ میل دور پتھر کوٹتے ہوئے اپنے مزدوروں کو حکم دیں کہ وہ اپنے ہتھوڑوں پر کپڑا لپیٹ لیں۔ کہ انکے پتھر کوٹنے کے شور سے مدینے میں میرے سرکار ؐکے راحت و آرام میں کوئی خلل نہ آئے۔ کہ وہاں میرے آقا آرام فرما رہے ہیں۔

آ ج بے شرمی کی انتہاء ہے کہ ہم اس قبیح فعل کے لئے جواز ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہم عشقِ رسول کے تقاضے بھی بھول گئے؟؟؟۔ ھم سرکارِ مدینہ کا عزت و وقار اور ادب کرنا بھی بھول گئے؟؟میں زیادہ کچھ نہیں کہوں گا۔صرف اتنا کہ محترم عمران خان کے گھر کے اندر آئے ہوئے اسکے مہمانوں پر اسکی موجودگی میں کوئی آوارہ گروہ آکر اسطرح بدزبانی،بد تہذیبی اور بدکلامی کرے صرف اسلئے کہ مہمان انکی نظر میں چور ہیں اور وہ نام نہاد بے عمل انقلابی جنکی زندگی کی ساری کتاب ملک و قوم کے لئے کئے گئے کسی عمل سے خالی۔۔۔ تو اس وقت محترم عمران خان اور اسکے چاھنے والوں کا کیا ردِ عمل ہوگا۔۔۔ کیا عمران خان اپنے گھر آئے ہوئے مہمانوں کو یہ کہہ دیں گے کہ تم اس عمل کے حقدار تھے لہذا مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا؟؟ کہ میرے گھر کے اندر یہ تمھیں بے عزت کریں یا مار پیٹھ کریں۔۔ میں خاموش رہوں گا۔۔ یا پھر خان کے چاہنے والوں کا کیا ردِ عمل ہوگا؟؟؟؟

یہاں تو معاملہ اس ہستی کے گھر اور مسکن کا ہے جسکی وجہ سے اس کائنات میں اللہ نے رنگ بھر دئے جسکے ہاں کو اللہ نے حلال کہا جسکے نہیں کو اللہ نے حرام کہا۔ اسکے گھر میں اسکے مہمانوں کی بے عزتی۔؟؟ وہ جو بھی تھے اس سے اختلاف نہیں۔ دلیل یا بات مانی جا سکتی ہے۔۔ لیکن وہ جس جگہ پر تھے قابل غور یہ بات ہے۔

سوچیں‌اگر آپ کے لئے عمران کے گھر میں اسکے مہمانوں کی بے توقیری برداشت نہیں۔۔ تو آقائے دو جہان کے مسکن اور حرم میں اسکے در پر آئے ہوئے گنہ گارامتیوں کی بے توقیری کے عمل کو کیسے محمدؐ کے چاھنے والے سندِ قبولیت دے سکتے ہیں۔
ریاستِ مدینہ، انقلاب کی باتیں اور حضرت ؑعمر ؓ کی مثالیں دینے کا شوق ہے تو ؑعمرؓ کے کردار کا عشرِ عشیر پہلے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں

سیاسی وابستگتیوں سے قطع نظر ہمیں اس جاہلانہ اور گستاخانہ عمل کی نہ صرف کھلے عام مذمت کرنی ہے بلکہ اسطرح کے اعمال کو غلط انداز میں پیش کرکے جسطرح دین اسلام کے اساس سے ہمیں دور کیا جا رہا ہے۔۔میں سمجھتا ہوں۔۔کہ علماء فقہاء اور ملک کے لئے درد دل رکھنے والے طبقے پر یہ فرض ہے کہ وہ اس سوچ کا راستہ روکنے میدانِ عمل میں آئیں۔ کیونکہ ہم سیاست کی بھینٹ اپنے دین کو اسطرح نہیں چڑھا سکتے کہ کوئی بھی اپنے کسی مخالف کو زیر کرنے اُٹھے اور دین کا لبادہ اوڑھ کر اپنے مقاصد کے لئے دین کی بے توقیری کرے۔ میری نظر میں دین اکبری کے خلاف جو مجدد الف ثانی اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔ شاید فتنوں کے اس دور میں ہمیں پھر ایک مجدد الف ثانی کی ضرورت ہے۔

سیاست میں اگر دین محمدیؐ کی بات کوئی کرتا ہے تو قابل تحسین ہے چاہے وہ عمران خان صاحب ہی کیوں نہ ہوں۔۔ لیکن اسکے لئے تربیت اور تعلیمات مسجدِ نبوی اور حلقہ رسول سے لینی ہونگی۔۔ اور میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں۔ کہ ریاستِ مدینہ کے اس سانچے میں جسکا محور مسجدِ نبوی اور تعلیماتِ محمدی ہوں۔میں اس فعل قبیح کی کوئی گنجائش نہیں۔ لہذا اپنے ورکرز کی تربیت قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئندہ ایسے قبیح اعمال میں ملوث ہو کر اپنی جماعت ملک اورمسلمانوں کے لئے شرمندگی کا باعث نہ بنیں۔۔۔ اللہ ہم سب کو عشقِ رسول کے تقاے سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے