پاکستان اس وقت متعدد سیاسی، سماجی، لسانی، صنفی اورفرقہ وارانہ مسائل سے دوچارہے، قوم گروہوں میں تقسیم ہے جن میں اتفاق و اتحاد، تحمل وبرداشت، رواداری اورفہم وفراست کافقدان ہے اور ملک میں لسانی، سیاسی اور مذہبی ومسلکی بنیاد پرافراتفری عروج پرہے،میڈیا کو معاشرے میں ایک بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہے،میڈیا کے معاشرے پر بے پناہ اثرات کی وجہ سے ہی آج کے دور کو ذرائع ابلاغ کا دور قرار دیا جاتا ہے،حکومتیں ، ادارے، تنظیمیں اور مختلف افراد میڈیا کو اپنے پیغامات کی اشاعت ، نظریات کے فروغ ، سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں، سوسائٹی کی تعمیر اور تخریب میں میڈیا کے اہم کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا، ابلاغ اگرسچ پر مبنی ہوگا تو معاشرے میں اچھی اقدار کو فروغ اور استحکام ملے گا اور معاشرہ ایک مثبت سمت میں آگے بڑھتا جائے گا،اگر ابلاغ میں جھوٹ،نفرت انگیزی اور انتہاپسندی کا عنصر ہوگا تو معاشرے میں ہر طرف نفرت، انتشار، بے چینی اور پریشانی کا ماحول پیدا ہوگا۔
میڈیا اگر شہریوں کو شعور دے تو عام شہری بھی باشعور ہوں گے، اگر شہریوں کو معاشرتی خرابیوں سے آگاہ کرے گا تو عام لوگ ان معاشرتی برائیوں سے اجتناب کریں گے، اگر شہریوں کو تعلیم کی طرف راغب کرے گا تو شہری تعلیم یافتہ اور مہذب ہوں گے، اسی طرح اگر میڈیا منفی کردار ادا کرے گاتو معاشرے میں نفرت انگیزی ، انتہاپسندی اورانتشارپھیلے گا۔میڈیا کی سب سے بڑی ذمہ داری معاشرے کی ترقی اور اصلاح ہے، معاشرتی اور انسانی اقدار کا تحفظ اور ان کا شعور دینا میڈیا کی ذمہ داری ہے،باالفاظ دیگر معاشرے میں جو ذمہ داری ایک فرد کی ہے، وہ اجتماعی صورت میں میڈیا کی ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں بعض مواقع پر میڈیا کئی اخلاقی قدروں سے تجاوزاختیارکرجاتاہے جس کے معاشرے پر بدترین اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ بعض مذہبی وتنظیمی پس منظرکے اخبارات،جرائد یا ویب ٹی وی بھی بلاروک ٹوک یا پابندی کے نفرت انگیز، فرقہ واریت اورانتہاپسندانہ نظریات کاکھل کراظہارکرتے ہیں اور یک طرفہ رپورٹس،خبریں یا مضامین کی صورت میں اپنے نظریات کو فروغ دیتے ہیں جومعاشرے میں فرقہ وارانہ کشیدگی،نفرت انگیزی اورانتہا پسندی کا باعث بن جاتے ہیں۔
اس حوالے سے صحافتی اوراشاعتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ذمہ دارانہ صحافتی رویہ اختیارکرے اوراس طرح کی نفرت انگیزصحافت کی حوصلہ شکنی کرے تاکہ معاشرے سے عدم برداشت پر مبنی ا نتہا پسندانہ اور فرقہ وارانہ سوچ کو ختم کیاجاسکے اور معاشرے کو امن، رحمت، وفاداری، تحمل، بردباری، برداشت، اور توسط و اعتدال کا معاشرہ بنایاجاسکے اوراخلاق،محبت، الفت، برداشت، امن، تحمل کا درس دیا جائے،پاکستان کو فرقہ واریت، مذہبی،سیاسی، سماجی انتہا پسندی سے نکالنے اوربین المذاہب وبین المسالک ہم آہنگی کیلئے مکالمہ کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر چہ2015 میں نیشنل ایکشن پلان کی منظوری کے بعد نفرت انگیز مواد سے متعلقہ قوانین کے اطلاق وتنفیذ میں سختی دیکھنے میں آئی ہے جس کے نتیجے میں ان مواد کی اشاعت میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ اسی سلسلے میں وائس میڈیا نیٹ ورک ان امورپرلکھنے والے لکھاریوں اورمذہبی جرائد ورسائل سے وابستہ مدیران کے لیے تربیتی ورکشاپس کا اہتمام کررہا ہے جس کا بنیادی مقصد ان لکھاریوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اوراستعداد کار میں اضافے کے ساتھ ساتھ مذہبی رواداری کے فروغ اور نفرت انگیزمواد کی روک تھام کے لیے ان کی خدمات کو مزید موثر بنایا جا سکے۔