نائیجیرین کرائم، لوگ کروڑوں روپوں سے ہاتھ دھو بیٹھے

وجاہت علی کا تعلق گلگت کے خوبصورت وادی بگروٹ سے ہے، جو آن لائن کمائی کے چکر میں بیس ہزار سے زائد رقم کھو بیٹھے ہیں۔ وجاہت علی کہتے ہیں کہ ہر طرف شور تھا کہ لوگوں نے آن لائن پیسے لگاکر لاکھوں روپے کمائے ہیں، محض بیس ہزار روپے لگاکر مختصر وقت میں لاکھ روپے کمانا کوئی معمولی بات نہیں تھی اور اسی کو دیکھتے ہوئے میں نے بھی ای ٹور نامی ایپلیکیشن میں پیسے لگائے، شروع کے کچھ دنوں تک یہ معمول چلتا رہا اور ایک مختلف ٹاسک کے بدلے میں اچھی رقم دیتے تھے جو اس ویب سائٹ یا ایپلیکیشن میں میرے ذاتی اکاؤنٹ میں نظر آتے تھے، کچھ دنوں تک میں بھی اس کام کو کرتا رہا، پھر اچانک ایک روز میں نے اس کو اوپن کیا اور اپنے پیسے نکالنے کی کوشش کی تو اس میں ایرر نظر آیا۔

جو بندہ مجھے اس ایپلیکیشن یا ویب سائٹ تک لیکر آیا تھا اس سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ سب کے ساتھ یہی مسئلہ پیش آرہا ہے اور صارفین کی تعداد ہزاروں میں ہے، اور سارے پریشان ہیں۔ وجاہت علی کہتے ہیں کہ اس ایپلیکیشن اور ویب سائٹ کے جو زمہ داران ہم یا ہمیں یہاں پر لانے والوں کے ساتھ رابطے میں تھے ان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے پہلے صبر کی تلقین کی اور بعد میں بتایا کہ اپنے پیسے نکالنے کے لئے مزید پیسے آپ نے جمع کرانے ہیں، جس پر ہم نے جمع کرانے سے انکار کیا۔ جن لوگوں کے ساتھ ہم رابطے میں تھے وہ محض وٹس ایپ میں ایک چینی لڑکی کی تصویر لگایا ہوا نمبر تھا باقی کوئی ایسا بندہ نہیں ملا جس نے ان سے کبھی بات کی ہو۔ ہم نے مزید پیسے لگانے سے انکار کردیا لیکن بعض لوگوں کی طرف سے اطلاع ملی کہ انہوں نے مزید پیسے جمع کرائے تھے تاہم وہ بھی ڈوب گئے ہیں۔

وجاہت علی کہتے ہیں کہ ایف آئی اے والوں سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ہماری درخواست تو آن لائن وصول کرلی لیکن بیان لیتے وقت انہوں نے بتایا کہ چونکہ یہ سارا معاملہ کرپٹو کرنسی کا ہے اور پاکستان میں کرپٹو کرنسی بذات خود قانونی عمل نہیں ہے تو اس کی تحقیقات کیسے کریں؟ اس کی تحقیقات کرنے میں ہمیں مسائل کا سامنا ہے۔

ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ڈائریکٹر امان یوگوی نے اس حوالے سے ایک تقریب سے خطاب کے دوران بتایا کہ ہمارے پاس سب سے زیادہ اسی طرح کے مالی فراڈ اور دھوکہ دہی کے کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں اور جو بھی کیس کرپٹو کرنسی کا ہے اس کی ایف آئی آر کاٹنا ممکن نہیں ہے تاہم حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ متاثرہ افراد کی کسی بھی طرح دلجوئی کرسکیں۔

اس حوالے سے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ گلگت کے ایک تفتیشی آفیسر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے نام نہ لینے کی شرط پر بتایا کہ ویب سائٹس یا ایپلیکیشنز کے زریعے لالچ سے دھوکہ دہی تو بالکل عارضی سی اور کم مالیت کی بات ہے، اصل جو چیلنج درپیش ہے وہ نائیجیرین کرائم ہے، انہوں نے نائیجیرین کرائم کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ فیس بک پر انجان لڑکیوں کی جعلی آئی ڈیز کے زریعے سادہ لوح لوگوں سے رابطہ کیا جاتا ہے اور انہیں طرح طرح کے لالچ دیتے ہیں جیسے کہ ّمیرا والد فوت ہوا ہے اور اس کے جانشینی کے لئے ایک بندے کی ضرورت ہے، جانشینی کی صورت میں لاکھوں ڈالرز یا اربوں روپے ملیں گے لیکن اس کی فیس ہےٗ۔ جو لوگ سوشل میڈیا کی حساسیت سے وابستہ ہیں وہ پہلے ہی رپورٹ کرتے ہیں تاہم جو لوگ لالچ میں یا دھوکے میں آتے ہیں وہ اپنے پیسے گنواکر پھر ہمارے پاس آتے ہیں۔

تتیشی آفیسر نے بتایا کہ گلگت شہر کے اندر ہی ایک گروہ نے مل کر ساڑھے 4 کروڑ روپے ایک ایسی فیک آئی ڈی کو بھجوادئے ہیں جس کے بعد ان کو بلاک کردیا گیا ہے، ہم اپنے دستیاب وسائل میں ان کی تحقیقات اور تفتیش کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایسی جعلی آئی ڈیز اور خوبصورت لڑکیوں کی تصویر والے پروفائل کے پیچھے سارے نائیجیرین شہری ہیں جو مختلف جگہوں میں بیٹھ کر لوگوں میں اس طرح کی مارکیٹنگ کرتے ہیں اور لوگوں سے پیسے لوٹتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے اندر ہی اسی طرح کے متعدد نائیجیرین شہریوں کو تفتیش و تحقیق کے بعد گرفتار کیا گیا ہے یا پھر ان سے پیسے واپس لئے گئے ہیں۔

انہوں نے فیس بک و دیگر سوشل میڈیا صارفین سے اپیل کی ہے کہ کسی بھی بندے کی کسی بھی قسم کی لالچ میں نہیں آئیں بلکہ ایسی پیشکش سامنے آنے پر ہی رپورٹ کریں۔ کرپٹو کرنسی بھی پاکستان میں غیر قانونی ہے اس سے جڑے کسی بھی ایپلیکیشن میں پیسے مت جمع کرائیں، کرپٹو کرنسی میں ہونے والے رقوم کی ترسیل میں قانونی پیچیدگیاں بہت ہیں لہٰذا، ای ٹور جیسے کسی ایپلیکیشن میں پیسے جمع نہ کرائیں کیونکہ انہوں نے بہت جلد ہی بھاگ جانا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے