میں نے زندگی میں مسلسل اِس قدر شدید گرمی کی لہر کبھی نہیں دیکھی ، میں نے اتنی بڑی تعداد میں جنگلات میں آگ لگنے کی خبریں پہلے نہیں سنیں اور میں نے گلیشئیرز کو یوں پگھلتےہوئے بھی کبھی نہیں دیکھا!
نیٹ فلیکس پر ایک فلم ہے ، Don’t Look Up، لیونارڈو ڈی کیپریو نےاُس میں ڈاکٹر رینڈل کامرکزی کردار ادا کیا ہے جو ایک ماہر فلکیات ہے۔اِس فلم کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں کچھ سائنس دان خلا کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ اِس دوران اچانک انہیں ایک دُمدار ستارہ نظر آتا ہےجو بہت تیزی سےزمین کی طرف آرہا ہے ، وہ دیکھتے ہیں کہ اِس ستارے کا حجم پانچ سے دس کلومیٹر کے برابرہے اور جس رفتار سے وہ زمین کی طرف بڑھ رہا ہے اُس سے پوری زمین تباہ ہو جائے گی ۔ وہ ناسا میں ایک سائنس دان سے رابطہ کرتے ہیں اور اسے بتاتے ہیں کہ یہ ستارہ چھ ماہ میں زمین سے ٹکرا کر اسے مکمل طور پر تباہ کردے گا۔شروع شروع میں کسی کوصورتحال کی نزاکت کا اندازہ نہیں ہو پاتا ، بڑی مشکل سے وہ امریکی صدر تک رسائی حاصل کرتےہیں ، وہ اِن سائنس دانوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتی بلکہ اُس کا سارا فوکس اپنی پسند کے بندے کو سپریم کورٹ کا جج لگوانے پر ہوتا ہے ۔
یہ سائنس دان ایک ٹی وی پروگرام میں بھی شرکت کرتے ہیں جہاں وہ بغیر کسی لگی لپٹی کے بتاتے ہیں کہ ایک ستارہ اگلے چھ ماہ میں زمین سے ٹکرا کر اسے پاش پاش کر دے گا مگر میزبان کو بھی اندازہ نہیں ہوپاتا کہ یہ کس قدر خطرناک صورتحال ہے ، وہ اپنے پروگرام کے مزاج کے مطابق ہلکے پھلکے انداز میں باتیں کرتا رہتا ہے،ستارے کو دریافت کرنے والی لڑکی میزبان کی غیر سنجیدگی دیکھ کر چلا اٹھتی ہے کہ کیا انہیں نظر نہیں آ رہا ہے کہ زمین ختم ہوجائے گی! میں فلم کی بقیہ کہانی لکھ کر آپ کا مزا کرکرا نہیں کرنا چاہتا، بس اتنا بتا دیتا ہوں کہ یہ فلم لوگوں کے مزاج اور اُن کی نفسیات کی بھرپور عکاسی کرتی ہے اور اِس میں بتایا گیا ہے کہ کیسے ہم اکثر اوقات ٹھوس حقائق سے منہ پھیر کر ’حالت انکار‘ میں چلے جاتے ہیں حتیٰ کہ یہ حالت انکار ہمیں تباہ کردیتی ہے۔بقول جون ایلیا: ’میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس، خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں ۔‘
ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں ہم اسی قسم کے حالت انکار میں ہیں ۔ آپ اپنی روز مرہ کی گفتگو سُن لیں، ٹی وی پروگرام دیکھ لیں ، اخبارات اٹھا لیں، سب کچھ سیاست سے لتھڑ ا ہوا ہے ، معمولی خبروں پر سیاسی تجزیہ کرنا توضروری سمجھا جاتا ہے مگر ماحولیاتی آلودگی پر پروگرام کرنا اہم نہیں سمجھا جاتا ۔ہماری آنکھوں کے سامنے زمین کایہ ٹکڑا تباہ ہورہا ہے اور ہمیں کوئی پروا نہیں ۔بلوچستان کے ضلع شیرانی میں چلغوزے کے جنگلات میں گزشتہ کئی دنوں سے آگ لگی ہوئی ہے ، اقوام متحد ہ کی ٹیم نے جائزہ لے کر بتایا ہے کہ وہاں تیس فیصد جنگل آگ سے متاثر ہوچکا ہے جبکہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس تین فیصد جنگل بھی نہیں بچا اور اب چلغوزے کے اِس جنگل کو کارآمد ہونے کے لیے سو سال لگیں گے۔ صرف مئی کے مہینے میں پاکستان میں جنگلات میں آگ لگنے کے تین سو واقعات ہو چکے ہیں۔
یہ تو ہوا جنگل ، اب شہر میں آ جائیں۔جس گھر میں میری رہائش ہے میں یہاں قریباً بارہ سال پہلے منتقل ہوا تھا ، مجھے آج بھی یاد ہے کہ موسم کی پہلی بارش اِس قدر موسلا دھار تھی کہ پانی صحن سے چڑھ کر میرے اسٹڈی روم میں آگیا تھا ۔ اب مدت ہوئی ایسی بارش نہیں دیکھی ۔گرمی پہلے بھی پڑتی تھی ، درجہ حرارت چالیس بیالیس ہوجاتا تھا مگر ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ مسلسل کئی ہفتے گزر جائیں اور درجہ حرارت پینتالیس چھیالیس سے نیچے نہ آئے اور درمیان میں بارش کا ایک چھینٹا بھی نہ پڑے ۔یہ پہلی گرمیاں ہیں جن میں ’ہیٹ ویو‘ ختم ہونے کو ہی نہیں آ رہی۔ رات گئے تک نلکوں میں پانی گرم رہتا ہے ، لوگوں نے پانی کی ٹنکی کے گرد انسولین کی تہہ چڑھانی شروع کردی ہے ۔جن دنوں موٹر وے نہیں بنی تھی اُن دنوں ہم جی ٹی روڈ سے سفر کرتے تھے ، راوی کے پُل سے گزرتے تو اُس کا پانی دیکھ کر مچل جاتے ، کشتی میں سیر کرنے کو دل چاہتا ،مگر پھر آہستہ آہستہ راوی کا پانی سکڑتا چلاگیا اور اب یہ حال ہے کہ موٹر وے پر راوی کے پُل کا صرف نشان رہ گیاہے ، دریاغائب ہو چکاہے۔ادھر گلگت بلتستان میں گلیشئر خطرناک حد تک پگھل رہے ہیں ، جھیلوں میں طغیانی سے تباہی آرہی ہے ،پنجاب کی فصلیں ہلکان ہو رہی ہیں ، شیر دریا سندھ میں پانی کا بہاؤ کم ہو رہا ہے ،لوگوں کی زندگیاں تباہ ہو رہی ہیں اور ہم حالتِ انکار میں ہیں ۔
یہ سب باتیں قبل از مسیح کی نہیں بلکہ ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہوئی ہیں ۔ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں ہمارا رویہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے اُس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ تباہی سر پر منڈلا رہی ہے اور ہم نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں ۔ہمارا خیال ہے کہ گرمی کی یہ شدت وقتی ہے ، پانی کی بھی کوئی دِقّت نہیں ،وقت پڑنے پرسمندر کاپانی قابلِ استعمال بنا لیا جائے گا ،طوفان وغیرہ تو خیر پہلے بھی آتے تھے کوئی نئی بات نہیں اور رہی جنگل کی آگ تووہ سدا نہیں لگی رہے گی آخر بجھ ہی جائے گی ۔اگر کوئی بندہ یہ خیالات رکھتا ہے تو یقین کریں کہ مجھے خوشی ہوگی کہ کم از کم اُس بندے سے حقائق پر بات تو ہوسکے گی، اسے قائل تو کیا جا سکے گا کہ ماحولیاتی آلودگی یہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو۔ مگر افسوس کہ کوئی اِس بارے میں سوچ ہی نہیں رہا۔
مجھے مایوسی پھیلانے اور مایوس ہونے سے سخت چِڑ ہےلیکن نہ جانے کیوں مجھے لگ رہا ہے کہ میں خود بھی کچھ کچھ قنوطی ہو گیا ہوں۔میں ہر گز اُن لوگوں میں اپنا نام نہیں لکھوانا چاہتا جو عوام کو بری خبریں پہنچانے پر مامور ہیں لیکن اِس کے باوجود یہ لکھنے سے بھی خود کو باز نہیں رکھ سکتا کہ ہماری زندگی میں زمین کا یہ ٹکڑا اب بد سے بدتر ہوتا چلاجائے گا الّا کہ معجزاتی طورپر ماحول بہتر ہوجائے یا کوئی ایسی ایجاد یا دریافت ہوجائے جو ماحولیاتی آلودگی کو ڈرامائی انداز میں کم کردے ۔ویسے تو یہ سب کیا دھرا سائنس کا ہے، دیکھیے اب مداوا سائنس کرتی ہے یا قدرت!