خیبر پختون خواہ کے پہاڑوں پر آتشزدگی کے واقعات, اس کے اثرات اور تدارک

اس سال خیبر پختون خواہ کے پہاڑوں پر آگ کے واقعات کے بارے میں جان کر ہر کوئی پریشان ہے. اور ہر ایک اپنی ایک رائے رکھتا ہے کہ آخر اس کے پیچھے کیا محرکات ہو سکتے ہیں. اس تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ تاریخ کے تناظر میں اس کو دیکھا جائے کہ آیا یہ پہلی دفعہ ہوا ہے یا ماضی قریب میں بھی ایسا ہوتا رہا. اس مقصد کیلئے ملاکنڈ ڈویژن, خاص کر وادی سوات میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات کا جائزہ لیا گیا ہے. جس کا مقصد موجودہ قانون سازی اور مقامی لوگوں کے کردار کی نشاندہی کرنا ہے, اور موسمی حالات کا جائزہ شامل ہے۔ مختصر الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ جنگلی آتشزدگی پائیدار ترقی اور موسمیاتی تغیرات کو کم کرنے کے راستے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے.

جنگل کی آتشزدگی دو طرح کی ہے. ایک کو سرفیس یعنی سطحی آتشزدگی کہتے ہیں اور دوسرے کو کرواں فائر یعنی درختوں کی آتشزدگی کہتے ہیں. جنگلی آتشزدگی کی شروعات سطحی آگ سے شروع ہوتی ہے. جنگل میں اگر خشک گھاس زیادہ ہو تو اتشزدگی پودوں اور درختوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے. جس کی وجہ سے آگ کو قابو کرنا مشکل ہو جاتا ہے. ایسی آتشزدگی جنگلاتی وسائل کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ 1993 سے 2000 تک مینگورہ میں ڈویژنل فارسٹ آفس کی طرف سے آگ لگنے کے کل 20 واقعات ریکارڈ کیے گئے، جن میں 2000 میں آگ لگنے کے چار بڑے واقعات بھی شامل ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دوران تمام آگ مقامی باشندوں نے لگائی، اور مقامی انتظامیہ یعنی پولیس، تحصیلدار یا مقامی لوگوں نے محکمہ جنگلات کے دفتر کو خبر پہنچائی تھی. آگاہ کیا گیا۔ آدھے کیسیز ایسے پائے گئے جس میں دانستہ طور پر آگ لگائی گئی. آتشزدگی کے آٹھ واقعات کے ملزمان کے نام معلوم تھے لیکن صرف ایک ملزم کو سزا دی گئی۔ بقیہ حادثاتی آگ مقامی کسانوں کے ذریعہ گھاس کی افزائش کو فروغ دینے کے لیے معمول کے مطابق جلانے سے پیدا ہوئی۔ خطے میں آتشزدگی کے واقعات کو کم کرنے کے لیے متعارف کرائی گئی قانون سازی جنگل کی آگ پر قابو پانے میں غیر موثر ہیں. 2002 میں کی گئی تحقیق کے مطابق محکمہ جنگلات کے پاس جنگل کی آگ سے بچاؤ یا علاج کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ آگ کے خطرے پر قابو پانے کے لیے معلومات کا کوئی نظام بھی موجود نہیں ہے، حالانکہ ایسا نظام ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا 2002 کے بعد جنگلات سے متعلق قانون میں آگ سے متعلق کوئی ترمیم کی گئی ہے؟ اس کے علاوہ, کیا بجٹ میں آگ بجانے کیلئے باقاعدہ طور پر کو رقم مختص کی جاتی ہے؟ اگر ان سوالات کا جواب نہیں میں ہے, تو پھر حکومت کے متعلقہ اداروں کو اس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا.

[pullquote]تعارف[/pullquote]

جنگل کی آگ زیادہ تر انسانوں کی وجہ سے لگتی ہے۔ ماضی قریب میں تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ شمالی امریکہ میں تقریباً 97% جنگلات میں آگ لگانے کی ذمہ داری انسانوں پر عائد ہوتی ہے. جنگل کی آگ کا لگنا اور پھیلنا ایندھن کی نمی کی سطح، موسمی حالات، ایندھن کی اقسام اور ٹپوگرافی پر منحصر ہے. وہ ممالک جہاں جنگلات وافر رقبے پر ہیں, ان کیلئے ایسے آتشزدگی کے واقعات شاید اتنی بڑی بات نہ ہو. لیکن پاکستان میں جنگلی آتشزدگی بہت بڑی معنی رکھتی ہے. کیوں کہ پاکستان کا صرف 4.5% رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے، اور اسے جنگلات کی سنگین کمی کا سامنا ہے. دیہی ایندھن کی ضروریات کا 50% آگ کی لکڑی ہے۔ گھریلو اور صنعتی استعمال کے لیے لکڑی، ایندھن کی لکڑی اور مویشیوں کے لیے چارے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جنگلات کی پیداوار ناکافی ہیں. سننے میں آیاہے اور مشاہدہ بھی یہی ہے کہ جنگل میں آگ، تعلیم کی کمی، آبادی میں اضافہ اور ایندھن کی لکڑی پر انحصار، تجارتی پیمانے پر استحصال، چراگاہوں کی ناقص دیکھ بال، غیر قانونی کٹائی اور اسمگلنگ, یہ سب جنگلات کی احتصال میں معاون ہیں. اگرچہ پاکستان میں جنگلات سے متعلق تحقیق میں آگ کے خطرے کا تذکرہ تو ملتا ہے، لیکن اس کی وجوہات اور کنٹرول کی نشاندہی کرنے کے لیے اس کا جائزہ نہیں لیا گیا ہے. جنگلی آگ کو قابو کرنے کیلئے مختلف اقدامات میں لوگوں کی آگہی، آگ کے خطرے کے بارے میں بروقت معلومات فراہم کرنے کے لیے کمیونٹی کی شمولیت اور آگ بجھانے اور قانون سازی کے استعمال میں ان کی شرکت شامل ہے۔

[pullquote]پس منظر[/pullquote]

پاکستان نے 1947 میں جنگلات کا ایکٹ 1927 اپنایا جو 1974 میں سوات، مالاکنڈ اور دیر کے علاقوں پر بھی لاگو کیا گیا۔ ایکٹ کا سیکشن 26 کسی جنگل میں آگ لگانے سے منع کرتا ہے، ۔اگر کوئی کسی جنگل میں جان بوجھ کر یا لاپرواہی سے آگ لگائے تو حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی جنگل میں تمام حقوق کو غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر سکتا ہے. اس کے علاوہ خیبر پختون خواہ کے وائلڈ تحفظ ایکٹ 1975 کے سیکشن 15 کے مطابق، کسی بھی شخص کو جنگل میں آگ لگانے کی اجازت نہیں ہے.

جنگلات سے متعلق مختلف پالیسیوں کا جائزہ لینے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر پالیسی اقدامات درختوں کے تحفظ کے لیے ہیں اور مقامی لوگوں کے ذریعہ معاش کے انتظامات کو نظر انداز کیا گیا تھا۔ تاہم، جنگلات میں آگ پر قابو پانے کے عمل کو کبھی بھی مؤثر طریقے سے نافذ نہیں کیا گیا کیونکہ منصوبہ بندی اور جنگلات کے انتظام میں لوگوں کی شرکت پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی اور جنگلات کے انتظام کے سماجی اور ثقافتی پہلوؤں کو نظر انداز کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے لوگ جنگلات کو نہ اپنا سمجھتے ہیں اور نہ اس کو آگ سے بچانے کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کی آگ بجانے کے عمل میں شرکت نہ ہونے کے برابر ہے۔

اس طرح 2001 کے میں کی گی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں جنگلات کی قانون سازی ریگولیٹری اور تعزیری نوعیت کے ہیں۔ درحقیقت، جنگلات کا قانون جنگلات کے عملے کے پاس ایک ایسے شکل میں ہونا چاہیئے کہ جنگلات سے زیادہ ان لوگوں کی خدمت ہے جو جنگلات کے آس پاس رہتے ہیں. تاکہ قومی جنگلات منسلک لوگوں کے عقلی رویوں کو مثبت رخ دے کر ان کے ہاتھوں اس کی بچاؤ کو ممکن اور یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے برعکس قانون کو طاقت کے طور پر استعمال کرنا ہی حکمت عملی کے طور پر جنگلات کے بچاؤ کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے. فاریسٹ سیکٹر پلان 1992 کے تحت، فاریسٹ آفیسر جنگل کے تحفظ کا ذمہ دار ہے، بشمول زراعت، چرانے، اور جنگل میں آگ اور شکار کے لیے جنگل کو صاف کرنا۔ یہ ایکٹ ملزمان کو سزا دینے کے اختیارات دیتا ہے لیکن جنگلات کے انتظام کے فقدان کی وجہ سے اس پر صحیح طریقے سے عمل درآمد نہیں ہوتا ہے. اس مطالعہ میں درختوں کے نقصان اور جنگل میں آگ لگنے سے متعلق قانون سازی کی تاثیر کے لحاظ سے جنگل میں آگ لگنے کے مختلف واقعات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے، اور جنگل کی آگ کی وجوہات کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ تخفیف کے اقدامات اور مطالعہ کے علاقے میں جنگل کی آگ کے واقعات کی تعدد کو کم سے کم کیا جا سکے۔

[pullquote]علاقائی پس منظر [/pullquote]

وادی سوات مالاکنڈ ڈویژن کا حصہ ہے، جو پاکستان کے خیبر پختون خواہ صوبے کا سب سے بڑا ڈویژن ہے، اور تین اہم اضلاع (ایک ذیلی انتظامی یونٹ) یعنی ملاکنڈ، دیر اور سوات پر محیط ہے۔ یہ علاقہ، جو زیادہ تر پہاڑی ہے، پروٹیکٹیڈ جنگلات پر مشتمل ہے، جو ریاست (پاکستان) کی ملکیت ہے اور صرف حکومت یا مجاز ٹھیکیدار ہی درخت کاٹ سکتے ہیں۔ جنگل کو آمدنی پیدا کرنے کے ذریعہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جس کا 60-80٪ رائلٹی کے طور پر کمیونٹی کو واپس دیا جاتا ہے. مقامی کمیونٹی کو مال مویشی کے چرنے اور خشک لکڑیاں جمع کرنے کے حقوق حاصل ہیں، جو کہ آمدنی کا ایک ذریعہ ہے، اور وہ وہ جگہ جو ہموار ہے, زراعت کیلئے استعمال کرتے ہیں۔

ماحولیاتی لحاظ سے وادی سوات کو تین زونز میں تقسیم کیا جا سکتا ہے – زیریں سوات، درمیانی سوات اور بالائی سوات۔

بالائی سوات کی آب و ہوا معتدل ہے۔ گرمیوں میں یہ معتدل رہتا ہے اور سردیوں میں بھاری ٹھنڈ اور برف باری کے ساتھ انتہائی سردی ہوتی ہے۔ وسطی سوات گرمیوں میں گرم اور مرطوب اور سردیوں میں ٹھنڈا اور کبھی کبھار برف باری بھی ہوتی ہے۔ زیریں سوات گرمیوں میں گرم اور مرطوب ہوتا ہے اور سردیوں میں ٹھنڈا ہوتا ہے لیکن برف نہیں ہوتی.

وادی سوات بحیرہ روم سے آنے والے مون سون سرحدوں پر واقع ہے۔ موسم گرما کی بارشیں جنوب مغربی مون سون کے ذریعے لائی جاتی ہیں، جو مالاکنڈ کے متوازی واقع ہزارہ ڈویژن کے رقبے کو بھی احاطہ کرتی ہے، جیسا کہ مالاکنڈ ڈویژن کے دیگر حصوں کی طرح ہوگی۔ موسم سرما کی بارش موسم سرما کی طوفانی ڈپریشن سے ہوتی ہے جسے ‘مغربی خلل’ کہا جاتا ہے، جو بحیرہ روم سے شروع ہوتا ہے۔ گرمیوں کے دوران ماہانہ درجہ حرارت اپریل میں 14.81 C سے 31.39 C سے اگست میں 15.63 C سے 31.48 C کے درمیان ہوتا ہے۔ سردیوں کا مطلب ماہانہ درجہ حرارت ہے۔ اکتوبر میں 8.7C سے 23.7C اور دسمبر میں 2.6C سے 17.1C تک ریکارڈ ہوا ہے۔ اس درجہ حرارت پر خود بخود آگ نہیں لگ سکتی.

اس سال گرمی کی لہر وقت سے پہلے آیا اور ساتھ بارشیں بھی نہیں ہوئی. جس کی وجہ سے پہاڑوں پر اگی ہوئی گھاس زیادہ خشک ہوئی. جس کی وجہ سے یہ نہ صرف جلدی آگ پکڑ لیتی ہے, بلکہ آگ تیزی سے پھیل بھی جاتی ہے.

سال 2007 میں سوات کے علاقے میں ایک سروے کی گئی تھی. جس میں کل 20 واقعات ریکارڈ کا ریکارڈ چیک کیا گیا تھا۔ ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ چار واقعات کو قصداً فائر قرار دیا گیا تھا. جن میں سے دو کا اندراج ہوا تھا، اور صرف ایک کیس میں ملزم کو سزا دی گئی تھی، جس کوایک ہفتہ قید کے ساتھ چار ہزار روپے جرمانہ لگایاگیا تھا۔ دیگر دو مقدمات میں ملزمان کی شناخت نہیں ہو سکی۔

سات آگ جنگل کے منیجمنٹ کے حوالے سے لگائی گئی تھی. چونکہ ایسے آگ کی باقاعدہ نگرانی کی جا رہی تھی, اس لئے زیادہ نقصان نہیں ہوا تھا۔ صرف دو آتشزدگی کے واقعات کو خطرناک تھے. جس سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دانستہ طور پر لگائی گئی تھی اور کو سیاحی سرگرمیوں کے ساتھ لنک نہیں کیا جا سکتا. سیاح اکثر اتنی انچائی پر یا وہ جگہ جہاں درجہ حرارت زیادہ ہو, جاتے ہی نہیں. اس لئے سیاحی سرگرمیوں کو ان آگ کے واقعات کو نہیں جڑا جا سکتا.

ملاکنڈ دویژن میں گرمیوں کے موسم کے درجہ حرارت کو دیکھتے ہوئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ آگ خود بخود بھڑک اٹھے گی. لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر آگ لگ جائے تو موسم گرما کا درجہ حرارت آگ کو پھیلانے میں مددگار ہو سکتی ہے۔ محکمہ جنگلات کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں نے جان بوجھ کر یا غیر ارادی طور پر آگ لگاتے ہیں۔

چونکہ جنگل کو چرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اور درختوں کی شاخوں اور پتوں کو اکٹھا کرنے کے لیے پیکنگ مواد کے طور پر ایندھن کی لکڑی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اس لیے زمین عام طور پر صاف ہوتی ہے، اس لیے زمینی آگ کی اطلاع نہیں ملی۔ کراؤن فائر 1994 اور 1995 میں دو بار نمودار ہوئی ہے۔ 1995 کی آگ لگ بھگ ایک ہفتہ تک جاری رہی۔ آگ کے زیادہ تر واقعات کو سطحی آگ کے طور پر رپورٹ کیا جاتا ہے۔

ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر آگ لگانے والے کون ہیں اور ان کا اس کے پیچھے کیا مقصد ہو سکتا ہے. آگ کی پوزیشن کو اگر دیکھا جائے تو زیادہ تر آگ آبادی سے دور ہیں. اس لئے کہنا مشکل ہے کہ آبادی میں کسی کی غفلت کی وجہ سے آگ لگی ہے. دوسری بات یہ ہے کہ اکثر کیسیز میں آتشزدگی پہاڑ کے درمیان یا اوپر والے حصے میں شروع ہوئی. جہاں عام آدمی کا یا سیاح کا جانا مشکل ہے. اس صورت میں ٹورزم سے متعلق ایکٹیویٹی کو بھی الزام دینا درست نہیں.

اس وقت تک دو تین جگہوں سے کچھ لوگ ہراست میں لئے گئے ہیں. لیکن ان کا موقف ابھی تک سامنے نہیں آیا. جب ان کا موقف سامنے آجائے تو پھر کچھ کہا جا سکتا ہے.

تیسری بات یہ ہے کہ سوات, بنیر, شانگلہ اور ملاکنڈ میں زمین کے تنازعات میں موجود ہیں. زرعی زمین تو تقسیم ہے اور کسی نہ کسی فرد کی ذاتی جائیداد ہے. لیکن ان علاقوں میں ایسے علاقے بھی موجود ہیں. جو سارے گاؤں کے مشترکہ ہوتے ہیں. ایسے زمین کو شاملات کہتے ہیں. کچھ زمینیں ایسی بھی ہیں جو کا اونرشپ حکومت کے پاس ہے. جنگلات کا زیادہ تر حصہ حکومت کی ملکیت ہے. ایسی زمینیں عموماً شاملات کے ساتھ لگی ہوئی ہے. ایک خیال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ کہیں آتشزدگی اسطرح کے زمینی تقسیم سے لنک ہو. اگر یہ بات سامنے آئی ہے تو زمینوں کی تقسیم کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ضروری ہے.

[pullquote]جنگلی حیات پر اثرات[/pullquote]

آگ کا سب سے بڑا خطرہ زیریں سوات میں پایا گیا. جب گرمی میں شدت آجاتی ہے تو پھر وسطی سوات میں بھی پہاڑوں پر آگ لگنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ دو ہزار کے دہائی میں جنگلات میں آگ لگنے کے سولہ واقعات موسم گرما کے دوران اور چار موسم سرما کے دوران دیکھے گئے. موسم گرما زیادہ تر جنگلی حیات کی نسلوں کے لیے افزائش کا موسم ہے اور مقامی حیوانات کے لیے آگ کا سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اگرچہ جنگل میں آگ لگنے سے جنگلی حیات کو ہونے والے نقصانات کی کوئی خاص ریکارڈ دستیاب نہیں ہے لیکن یہ بت واضح ہے کہ آتشزدگی پودوں اور جانوروں کے لیے یکساں طور پر نقصان دہ ہے. پاکستان میں پرندوں کی کل 668 اقسام کی شناخت کی گئی ہے. جن میں سے 25 کو خطرہ لاحق ہے۔ ان میں سے زیادہ تر پاکستان کے شمالی علاقوں میں پائے جاتے ہیں. موسم سرما کے دوران مختلف نقل مکانی کرنے والے پرندے بشمول سٹارلنگ اور بطخوں کے جو پاکستان کا دورہ کرتے ہیں، خاص طور پر وادی کے درمیانی اور نچلے حصے میں زیادہ پائے جاتے ہیں، جنہیں آگ سے نقصان کا خطرہ ہوتا ہے۔ کیونکہ زیادہ تر آگ زمینی آگ ہے، یہ رینگنے والے جانوروں اور دیگر جانوروں کے لیے خطرناک ہے۔ رینگنے والے جانوروں کی 177 انواع میں سے چھ کو آگ سمیت رہائش گاہوں کی خرابی کا خطرہ لاحق ہے۔ حیاتیاتی تنوع کے نقصان سے نمٹنے کے لیے، پاکستان نے بائیو ڈائیورسٹی ایکشن پلان 1999 (وزارت ماحولیات، مقامی حکومت اور دیہی ترقی، 1999) تیار کیا ہت. حالانکہ خاص طور پر اس منصوبے میں جنگل کی آگ کا ذکر نہیں ہے، یہ ایک سنگین کمی ہے.

[pullquote]جنگل کی آگ کے بارے میں عام لوگوں کے خیالات[/pullquote]

انٹرویو کے سروے کے مطابق کل 80 افراد نے جنگل کی آگ پر تشویش کا اظہار کیا اور اسے ایک ظالمانہ فعل قرار دیا۔ تقریباً 53 فیصد لوگوں نے مقامی لوگوں اور محکمہ جنگلات دونوں کو آگ لگنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ 47 فیصد لوگوں نے کہا کہ اس کا الزام محکمہ جنگلات پر عائد کیا جانا چاہئے اور اسے اپنی طرف سے بدانتظامی قرار دیا۔ جب محکمہ جنگلات سے پوچھا گیا تو انہوں نے مناسب نگرانی اور کنٹرول کی سہولیات کی عدم دستیابی کا بہانہ بنا کر یہ الزام قبول کیا۔ تقریباً 80% لوگوں نے محکمہ جنگلات کو فون کے ذریعے مطلع کرنے پر آمادگی ظاہر کی، بشرطیکہ وہ ٹیلی فون نمبر جانتے ہوں۔ 20% نے اس خوف کی وجہ سے ناپسندیدگی ظاہر کی کہ وہ وقت کے ضیاع کے ساتھ تفتیش کا حصہ بن سکتے ہیں۔ تقریباً 65% اپنے گھروں کے قریب لگی آگ بجھانے کے لیے محکمہ جنگلات کی مدد کرنے کے لیے تیار تھے، 25% اگر مناسب معاوضہ ادا کرنے پر راضی تھے، جب کہ 10% کا خیال تھا کہ آگ پر قابو پانا محکمہ جنگلات والوں کی ذمہ داری ہے۔

[pullquote]انسانوں پر اثرات[/pullquote]

سطحی آگ عام طور پر گھاس کے درست طور پر اگانے اور کوالٹی میں بہتری لانے کیلئے لگائی جاتی ہے. لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ آگ درختوں کو بھی متاثر کرے. جس کو عرف عام کراؤن فائر کہتے ہیں۔ اسطرح کے آگ کو بجھانا مشکل ہو جاتا ہے.

مقامی باشندے گھروں کی مرمت کے لیے جنگل سے درخت کاٹنے کیلئے باقاعدہ اجازت لیتے ہیں. کروان فائر کی صورت میں پھر ان کو درخت کاٹنے کی اجازت نہیں ملتی. اس لئے وہ کوشش کرتے ہیں کہ بڑے سکیل پر آگ نہ لگے. اور اگر آگ لگ جائے تو پھر ان کو درخت کاٹنے کی پرمٹ لینے کیلئے کئی سال لگ جاتے ہیں. اس صورت میں مقامی لوگ غیر قانونی طور پر درخت کاٹنے کی طرف راغب ہو جاتے ہیں. بڑے پیمانے پر آتشزدگی سے یہ نقصان بھی ہے کہ کمانے کے مختلف اور ذرائع بھی ختم ہو جاتے ہیں. جس میں چیڑ کے درختوں کے پتے اکھٹے کرنا, جو کہ فروٹ کے پیکنگ میں استعمال ہوتے ہیں. اس طرح بہت سے لوگ جڑی بوٹیاں اکھٹے کرتے ہیں, تو یہ روزگار بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے.

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملاکنڈ ڈیژن بالعموم اور وادی سوات بالخصوص, دونوں موسم, گرما اور سرما میں جنگلات میں آگ کے واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی, کسی نہ کسی شکل میں آگ لگانے والا موجود ہوتا ہے.

دوسری بات یہ ہے کہ قانون میں اس کے حل کیلئے یا تدارک کیلئے کوئی خاطر خواہ حل موجود نہیں ، موجود قانون میں آگ لگانے سے منع کرتا ہے، لیکن جنگل پر آگ لگنے کی صورت میں اس کو روکنے یا اس سے لڑنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی اور سہولیات موجود نہیں ہیں۔

آگ موسمی حالات اور محکمہ جنگلات کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے ساتھ ساتھ سروے کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ آگ کے تمام واقعات انسان کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ اور اگر اس کے لئے کوئی باقاعدہ حکمت عملی تیار نہیں کی گئی تو مستقبل میں ان واقعات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے. جب بھی آگ لگتی ہے تو صرف درختوں کو اعداد و شمار میں لایا جاتا ہے. جنگلی حیات اور حیوانات سے متعلق بہت کم اعداد و شمار ملتے ہیں. مقامی لوگوں کو اعتماد میں میں لیا جائے تاکہ آگ لگنے کی اطلاع کی صورت میں یہ لوگ آگ بجھانے میں محکمہ جنگلات کی مدد کرے۔

[pullquote]مستقبل کیلئے لائحہ عمل[/pullquote]

چونکہ موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے پیشن گوئی یہ ہے کہ انے والے سالوں میں گرمی کی شدت میں مزید تیزی آئے گی اور ساتھ ساتھ گرمی کی لہروں میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے. اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ جنگلات آتشزدگی کو اور اس کے کنٹرول اپنے ترجیحات میں شامل کرے. قانون میں ایسی تبدیلیاں کرے کہ آتشزدگی سے متعلق سزا سخت سے سخت کی جائے. جنگل میں یا جنگل کے آس پاس لوگوں کے حقوق اور بنیادی ضروریات کا خیال رکھا جائے. ان کے ساتھ تواتر کے ساتھ باقاعدہ طور پر آتشزدگی سے متعلق مشاورت کی جائے. اور ان کو منیجمنٹ کا حصہ بنایا جائے.

اس کے علاوہ بجٹ میں آگ بجانے کیلئے خاص مختص کی جائے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے. اس کے علاوہ باقاعدہ طور پر اگاہی مہم چلائی جائے. جس میں سکول, کالج اور مساجد کو فوکس کی جائے. اس ساتھ ساتھ سکول کے سلیبس کا حصہ بنایا جائے.

آبادی کے نزدیک والے پہاڑوں سے خشک گھاس وقفے وقفے سے اکھٹے کیا جائے. تاکہ آگ لگنے کے امکانات کم سے کم ہو.

گرمیوں کے موسم میں خاص ٹیلی فون کے نمبر لوگوں کو دیئے جائیں جس پر آگ لگنے کی صورت میں متعلقہ دفتر سے رجوع ممکن ہو. اس کے علاوہ وٹس ایپ اور فیس بک گروپ بنایا جائے جس پر لو آتشزدگی سے متعلق اپڈیٹس دینا ممکن ہو.

جہاں پر سیاحت اور سیر و تفریح کیلئے لوگ جاتے ہوں وہاں پر کھانا پکھانے اور آگ جلانے کیلئے مخصوص جگہیں ہوں. خاص کر جہاں پر چشمہ, ندی یا دریا بہتا ہو, صرف ان جگہوں پر اس طرح کے عوامل کیلئے اجازت دی جائے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے