شادیوں پر دوستوں کو مفت کھانا کھلانے والے وزیر کا قصہ

اکثر لوگ ظاہری طور پر بڑے پڑھے لکھے لگتے ہیں لیکن ان کے عملی مظاہرے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ان میں اتنی معمولی سی سوچ سمجھ بھی نہیں پائی جاتی ۔ کئی بار یہ مشاہدہ ہوا کہ کسی نے کسی کو کھانے کی دعوت دی یا کسی تقریب میں مدعو کیا تو وہ اپنے ساتھ پورا ایک لاؤ لشکر لیکر آ گیا ۔ اب اگلے بندے نے اپنی چادر اور جگہ دیکھ کر مہمانوں کے لیے انتظام کیا ہوتا ہے لیکن انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

شادیوں کی تقریبات میں اگر تین سو لوگ مدعو ہیں تو تین سو بندہ ہر بندے کے ساتھ ویسے ہی شغل میلے میں پہنچ جاتا ہے۔ آپ عجیب کشمکش کا شکار ہو رہے ہوتے ہیں کہ یہ مخلوق خدا کہاں سے پیدا ہوگئی ہے ۔ اب اگلے بندے پر جو بوجھ پڑے گا ، جس کی بلا ، وہ ہی جانے ۔

بھائی صاحب ، شرم ہوتی ہے یا نہیں لیکن تھوڑی سی حیا بھی ہوتی ہے ۔ دعوت صرف آپ کو دی گئی ہے ، آپ پورا محلہ اکٹھا کر کے کس خوشی میں لے گئے ؟ اور ساتھ جانے والوں کو بھی شرم نہیں آتی کہ وہ جان نہ پہچان ، کس چکر میں ساتھ جا رہے ہیں ۔

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کو کسی نے اپنا ہم خیال سمجھ کر ، فکری طور پر آزاد خیال ، وسیع المشرب یا وسیع المشروب سمجھ کر دعوت دی ، آپ نے اپنے ساتھ ایک چیلہ پکڑا اور بغیر بتائے وہاں پہنچ گئے ۔ اب پوری مجلس درہم برہم ، جو بات کرنی تھی ، وہ تو گئی تیل لینے ، پورا ماحول انتشار کا شکار ہو گیا ۔ اب گفتگو کیا ہونی ہے ۔ لوگ جب کھل کر گفتگو نہیں کر پاتے تو مجلس باتوں کے بجائے بکواسات کی عملی تشریح بن جاتی ہے ۔

ایک معروف شخصیت جو پاکستان میں وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں ، وہ شادیوں پر اپنے دس پندرہ دوستوں کو ضرور ساتھ لے جاتے ۔ پانچ ہزار روپے دیکر وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ خود بھی اور اپنے دوستوں کو کھانا کھلاتے ، اس کے بعد ان کے چہرے پر کمینگی کے ڈورے دوڑنے لگ پڑتے۔ ایک بار انہوں نے مجھے ساتھ چلنے کا کہا تو میں نے انکار کر دیا ۔

کچھ عرصہ پہلے ہمارے ایک مہربان دوست نے ہمیں ایک جگہ ساتھ چلنے کو کہا ، بیرون ملک سے ایک دوست آئے ہوئے تھے ۔ میں ان سے وعدے کے باجود مل نہ سکا تھا اور اندازہ بھی نہیں تھا کہ وہاں کوئی پروگرام چل رہا ہے ۔ وہاں پہنچا تو انتہائی شرمندگی اور ندامت ، محفل میں تقریبا سبھی دوست ہی تھے لیکن میں مدعو نہیں تھا ۔ دروازے سے ہی نکلنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا ۔ خیر اب کیا ہو سکتا تھا ۔ سب نے بہت پرجوش انداز میں ویلکم کیا اور مجبورا بیٹھ گیا ۔ وہاں کچھ لوگوں سے نئی دوستیاں بھی ہوگئیں لیکن جب بھی ذہن میں خیال آتا ہے تو شرمساری پورے وجود پر سوار ہو جاتی ہے ۔

میں دیکھ رہا ہوں کہ کچھ عرصے سے یہ رویہ ہمارے معاشرے میں تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے ۔ خصوصا سیاسی (اس میں ہر طرح کی سیاست کرنے والے شامل ہیں ، وکیل ، صحافی بھی )اور مذہبی رہنماؤں میں یہ بڑھ رہا ہے ۔

براہ مہربانی اپنے رویوں کی اصلاح کریں ، خود شرمندہ ہوں اور ناہی دوسرے کو شرمندہ کریں ۔ آپ کے ساتھ اگر گارڈ اور ڈرائیور بھی ہے تو انہیں اپنی جیب سے باہر کھانا کھلائیں ۔ اسی میں سب کا بھلا اور سب کی خیر ہے ۔

سبوخ سید

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے