اب نئے انتخابات کا انعقاد ہی واحد راستہ ہے

اعصاب شکن انتظار کے بعد منگل کی شام سپریم کورٹ نے چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا جائز بنیادوں پر منتخب ہوا وزیر اعلیٰ قرار دے دیا ہے۔ مذکورہ فیصلے نے شاذہی کسی شخص کو حیران کیا ہوگا۔ فل کورٹ بنائے جانے کی استدعا رد ہوجانے کے بعد ایسا ہی فیصلہ متوقع تھا۔یہ توقع نہ ہوتی تو تحریک انصاف کے چند رہ نما اورکارکن سپریم کورٹ کے احاطے میں امید بھرے جوش کے ساتھ جمع ہونا شروع نہ ہوجاتے۔ چند شواہد کی بنیاد پر میں یہ دعویٰ بھی کرسکتا ہوں کہ اتحادی حکمران میں شامل وزراء کی اکثریت کو بھی ایسے ہی فیصلے کی توقع تھی۔

سیاسی معاملات میں کلیدی کردار قانونی موشگافیاں نہیں برسرزمین حقائق ادا کرتے ہیں۔تحریک انصاف سے باغی ہوکر جن اراکین نے حمزہ شہباز شریف کی حمایت میں ووٹ دیا تھا عدالتوں سے ’’لوٹے‘‘ قرار پاکر اپنی نشستوں سے محروم ہوگئے۔ ان سے خالی کروائی 20نشستوں پر جو ضمنی انتخاب ہوئے وہ تحریک انصاف کی پنجاب میں گج وج کر واپسی کا باعث ہوئے ۔مسلم لیگ (نون)کا ’’لاڑکانہ‘‘ تصور ہوتے شہر لہور میں 4میں سے تین نشستیں تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدواروں نے جیت لیں۔

ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں ضمنی انتخابات کے نتائج آجانے کے بعد یہ سوچنے کو مجبور ہوا کہ حمزہ شہباز شریف کو پرخلوص پیش قدمی دکھاتے ہوئے وزارت اعلیٰ کے منصب سے ازخود مستعفی ہوجانا چاہیے تھا۔چودھری شجاعت سے آصف علی زرداری کے ترلے منتوں کے ذریعے لکھوائے خط کی بنیاد پر چودھری پرویز الٰہی کے انتخاب میں ’’گند‘‘ ڈالنے کا ناٹک نہیں رچانا چاہیے تھا۔ وہ مگر ڈٹے رہے اور سپریم کورٹ کے آرٹیکل 63-Aکی بابت دئیے ایک حالیہ فیصلے کی بنیاد پر ہی اپنی حکمت عملی تیارکرتے رہے۔

’’جماعتی سربراہ‘‘ اور ’’پارلیمانی پارٹی‘‘ کے مابین فرق کو سپریم کورٹ کے اولین فیصلوں نے واضح انداز میں بیان نہیں کیا تھا۔ قانون کی ’’تشریح‘‘ کی بنیاد پر اٹھائے سوالات مگر سیاست میں کام نہیں آتے۔ عام پاکستانی کوکلیدی پیغام یہ مل چکا تھا کہ پنجاب کے ووٹروں نے تحریک انصاف کے ’’لوٹوں‘‘ کورد کردیا ہے۔وہ مسلم لیگ (نون) کی ٹکٹ پر منتخب ہونے کے قابل بھی نہیں رہے۔حمزہ شہباز اور ان کی جماعت کو اس کلیدی پیغام پر توجہ دیتے ہوئے نئی حکمت عملی تشکیل دینا چایے تھی۔چودھری شجاعت سے لکھوائے خط پر کامل انحصار نے مگر ان کا ’’چھابہ‘‘ پنجابی محاورے کے مطابق ’’خالی‘‘ دکھایا۔

اخبار کے لئے لکھے کالم میں ’’متوازی عدالت‘‘ لگانے کا میں عادی نہیں۔اس کے باوجود بصد احترام یہ لکھنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کو فل کورٹ کی استدعا قبول کرلینا چاہیے تھی۔اس کی بدولت آئین کے 63-Aوالی شق کی ہمیشہ کے لئے ایک مستند تعبیر میسر ہوجاتی۔اس ضمن میں بیانوں اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے سپریم کورٹ پر دبائو بڑھانا بھی لیکن ایک ناقص حکمت عملی تھی۔و ہ سیاسی میدان میں کا م نہیں آئی ہے۔

مسلم لیگ (نون) کو پنجاب کے ضمنی انتخابات کے دوران جس حیران کن شکست کا سامنا کرنا پڑا متعدد محققین کی جانب سے ہوئے سرویز نے ’’مہنگائی‘‘ کو اس کا بنیادی سبب ٹھہرایا ہے۔ قابل بھروسہ ذرائع سے مجھے اطلاع یہ بھی ملی ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی ایسا ہی ایک سروے وصول ہوا ہے۔وہ اسے اپنی جماعت کے تمام سرکردہ اراکین سے مگر شیئر نہیں کررہے۔ان کے قریب ترین وفا داروں ہی کو اس کا علم ہے۔

’’مہنگائی‘‘ اگر مسلم لیگ (نون) کے ووٹ بینک پر حملہ آور ہوچکی ہے تو شہبازشریف اور ان کے وزراء کو اس کے تدارک کے لئے ٹھوس اقدامات لیتے ہوئے نظر آنا چاہیے تھا۔منگل کی صبح ہوتے ہی لیکن بجلی کے وزیر خرم دستگیر خان گیس کے انچاج وزیر مصدق ملک کے ہمراہ ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوگئے۔عوام کہ یہ ’’خبر‘‘ سنانے کہ نومبر کے آغاز تک بجلی کے ایک یونٹ کے نرخوں میں بتدریج آٹھ روپے تک اضافہ ہوجائے گا۔ ایسی ’’بری خبر‘‘ سنانے کے لئے ڈھٹائی والا حوصلہ درکار تھا۔

یہ حقیقت تسلیم کرنے سے انتہائی متعصب شخص ہی انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان کو دیوالیہ سے بچاتی آئی ایم ایف کی رقم کے حصول کے لئے مذکورہ اضافہ ضروری تھا۔ بھان متی کا کنبہ دِکھتی سیاسی حکومتیں مگر ایسے غیر مقبول فیصلے لینے کی متحمل ہونہیں سکتیں۔حکمران اتحاد اگر اگست 2023ء تک حکومت میں رہنے کو بضد رہے گا تو مزید کئی ایسے فیصلے لینے کو مجبور ہوگا۔عام شہریوں کی بے پناہ اکثریت ’’دیوالیہ‘‘ کے اسباب اور عواقب سے کامل بے خبر ہے۔وہ کسی حکومت کارکردگی فقط اپنی روزمرہّ زندگی کے حقائق سے جانتی ہے اور بے تحاشہ پاکستانی اس گماں میں مبتلا ہیں کہ رواں برس کے اپریل تک ’’ستے خیراں‘‘ کی فضا تھی۔ عمرن خان صاحب کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے ’’محلاتی سازشوں‘‘ کے ذریعے فارغ کردیا گیا تو لوڈشیڈنگ کے طویل دورانیے نمودارہونا شروع ہوگئے۔پیٹرول اور ڈیزل کے نرخ آسمان کو چھونے لگے ۔بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ شروع ہوگیا۔اپنی مشکلات کا واحد ذمہ دار وہ حکومتی اتحاد کو ٹھہرارہے ہیں۔

ایسے عالم میں حکمران اتحاد کے پاس واحد حکمت عملی یہ بچی ہے کہ وزیر اعظم قومی اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کرتے ہوئے نئے انتخاب کو آمادہ ہوجائیں۔نئے انتخابات کی نگرانی کے لئے جو عبوری حکومت قائم ہوگی وہ ’’ٹیکنوکریٹس‘‘ پر انحصار کو مجبور ہوگی۔آئی ایم ایف کو ہر صورت رام کرنا اس کی بھی مجبوری رہے گا۔انتخابی مہم کے دوران عمران خان صاحب اور ان کے مخالفین کے لئے لازمی ہوجائے گا کہ وہ اقتدار میں آنے کے لئے عوام کووضاحت سے بتائیں کہ حکومت سنبھالنے کے بعد وہ کونسے اقدامات متعارف کروائیں گے جو مہنگائی کے سیلاب کے آگے طاقت ور بند باندھنے کے بعد وطن عزیز کے بازاروں کی رونق لوٹانے کو یقینی بنائیں گے۔اگر یہ ممکن نہیں تو سچ بیان کرتے ہوئے بھی عوام کو مشکل میں ساتھ دینے کو مائل کیا جاسکتا ہے۔نئے انتخاب کے انعقاد کے علاوہ جو بھی راہ اختیار کی جائے وہ محض عمران خان صاحب کے اقتدار میں لوٹنے کو ٹال تو سکتی ہے مگر اسے ناممکن نہیں بنائے گی۔

بشکریہ نوائے وقت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے