میرا جسم، اُس کی مرضی

1969میں امریکی ریاست ٹیکساس میں ایک عورت نے مقدمہ دائر کیا کہ اسے اسقاط حمل کی اجازت دی جائے ، اُن دنوں ٹیکساس میں اسقاط حمل غیر قانونی تھا اور اُس کی اجازت صرف اُس صورت میں تھی جب ماں کی جان کو خطرہ لاحق ہو۔ اُس عورت نے عدالت میں استدعا کی کہ اُس کا ریپ ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ حاملہ ہوئی لہٰذا اِن حالات میں اسےاستثنٰی ملنا چاہیے ۔ ٹیکساس کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے اسقاط حمل کے حق کی مخالفت کی اور عدالت نے اُس سے اتفاق کرتے ہوئے مقدمے کا فیصلہ عورت کے خلاف سنا دیا۔ نتیجتاً عورت کو اُس بچے کو جنم دینا پڑا۔چار سال بعد اِس فیصلے کے خلاف اپیل کی شنوائی امریکی عدالت عظمیٰ میں ہوئی جہاں اِس مقدمے میں جارجیا کی ایک خاتون بھی فریق بن گئی ،انہوں نے عدالت کے سامنے دلائل دیےکہ ٹیکساس اور جارجیا میں اسقاط حمل کے قوانین خلاف آئین ہیں کیونکہ وہ عورت کے رازداری کے حق سے متصادم ہیں۔عدالت عظمی ٰ نے اِس حق کو تسلیم کرتے ہوئے اسقاط حمل کو قانونی قرار دیا اور کہا کہ عورت کواسقاط حمل کا حق امریکی آئین کے تحت حاصل ہےاور حکومت کے پاس عورتوں سے یہ حق چھیننے کا کوئی اختیار نہیں ۔

عدالت نے اسقاط حمل کی ایک ’ٹائم لائن‘ بھی مقرر کر دی جس کے تحت پہلے تین ماہ کے دوران عورت کو اسقاط حمل کا مکمل اختیار تھا ، اس کے بعد اگلے تین ماہ میں اسقاط حمل سے متعلق حکومتی ضابطوں کی پاسداری ضروری قرار پائی ۔تاہم عورت کو یہ اختیار حاصل رہا جبکہ آخری تین ماہ کے بارے میں عدالت عظمی ٰ نے فیصلہ دیا کہ ریاستی حکومتیں اسقاط حمل پر پابندی لگا سکتی ہیں کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بچہ ماں کے پیٹ سے باہر بھی زندہ رہ سکتا ہے ۔ عدالت نے کہا کہ اگر کسی ریاست نے اسقاط حمل پر مکمل پابندی بھی لگا رکھی ہوتو اُس صورت میں بھی عورت کو جان یا صحت کے بگڑنے سے بچانے کے لیے اسقاط حمل کی اجازت ہوگی تاہم یہ کسی ڈاکٹر کی ماہرانہ رائے کے بعد ہی کیا جا سکے گا۔ لیکن یہ قصہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ حال ہی میں امریکی عدالت عظمی ٰ نے اسقاط حمل کے خلاف فیصلہ دے کر امریکی ریاستوں کے لیے اس پر پابندی کے حق میں راہ ہموار کردی ہے ، اِس فیصلے کے نتیجے میں خواتین کےاسقاط حمل کے حق کو،جسے پہلے آئینی تحفظ حاصل تھا، عملاً ختم کردیا گیاہے ۔اِس فیصلے کے حق میں دلائل دینے والوں کا کہنا ہےکہ’ابارشن ‘ دراصل قتل کی ایک شکل ہے اور اِس فیصلے نےانسانی جان کے تقدس کو یقینی بنانے میں مدد کی ہے ۔

اسقاط حمل کا مسئلہ کافی پیچیدہ ہے ۔یہ اُس مسئلے کی طرح ہے جس میں کسی لا علاج شخص کی جان لینے کا فیصلہ اُس کے گھر والے کرتے ہیں کہ کب اُسے وینٹی لیٹر سے اتارا جائے اور کیا اُس مریض کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو ، چاہے وہ ماں ،باپ، بہن، بھائی ،اولاد، کوئی بھی ہو، یہ اختیار حاصل ہونا چاہیےکہ وہ اُس کی جان ختم کرنے کا فیصلہ کرے؟ اور اگر کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں تو پھر یہ انتظار کب اور کیسے ختم ہوگا کیونکہ وہ مریض تو محض تکنیکی اعتبار سے زندہ ہوگا ۔ اِس موضوع پر انڈیا نے ایک کمال کی مختصر فلم بنائی ہے ، نام ہے ’ادھین‘ ۔ایک ادھیڑ عمر شخص اپنی بیمار بیوی کے ساتھ سات سال سے ایک مکان میں رہ رہا ہے ، بیوی ہل جل نہیں سکتی اور اسے بستر پر ہی تیمار داری کرنی پڑتی ہے ، اُن کی اولاد جوان ہو چکی ہے، اب انہیں ملنے نہیں آتی ۔ ایک دن وہ شخص اپنے بچوں کو بلاتا ہے اور انہیں بتاتا ہے کہ اُس نے یہ مکان بیچ دیاہے ، اب وہ فیصلہ کرلیں کہ ماں کو کہاں اور کس کے پاس رکھنا ہے ۔ بیٹا اور بیٹی آپس میں بحث کرتے ہیں کہ کون ماں کو رکھے گا ۔اسی دوران اُن کا باپ کہتا ہے کہ اسے معلوم تھا کہ وہ یہ فیصلہ نہیں کر پائیں گے اِس لیے اُس نے اپنی مریض بیوی کی دوا میں زہر ملا دیا ہے تاکہ وہ اِس عذاب سے آزاد ہی ہوجائے ۔ دونوں باپ کی اِس حرکت پر شدید غصہ کرتے ہیں اور اسے خود غرض انسان قرار دیتے ہیں ، باپ سر جھکا کے سنتا رہتا ہے اور پھر انہیں کہتا ہے کہ اسے اندازہ تھاکہ بچے اُس کے بارے میں یہی سوچیں گے لہٰذا وہ اس زہر کا تریاق چھوڑ کر جا رہا ہے ،تم دونوں میں سے جو بھی اپنی ماں کو زندہ رکھنا چاہے وہ تریاق پلا کرماں کی ’جان بچا سکتا ہے۔

‘اسقاط حمل کا مقدمہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، جو لوگ اِس معاملے میں انسانی جان کے تقدس کی دلیل دیتے ہیں وہ نہ خود کسی تکلیف سے گزرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اِس ضمن میں کسی قسم کی ذمہ داری لینے کے روادار ہیں ۔ وہ اسقاط حمل پر پابندی کے حق میں تو بڑھ چڑھ کر باتیں کریں گے مگر اِس کے نتیجے میں جب کوئی بچہ پیدا ہوکر دنیا میں ’رُل‘ رہا ہوگا تو وہ کندھے اچکا کر آگے نکل جائیں گے ، اُن کا کام فقط انسانی جان کے تقدس کی دہائی دینا ہے ، جب وہ جان دنیا میں بچے کی شکل میں آجاتی ہے تو پھر ایسے لوگوں میں سے کوئی بھی اُس کا ذمہ لینے کو تیار نہیں ہوتا۔ اِس بارے میں رچرڈ ڈاکنز نے اپنی کتاب ’ The Selfish Gene‘ میں لکھا ہے کہ انسانی جنین (رحم مادر میں پلنے والے بچے کی ابتدائی شکل)، جس کے جذبات اور احساسات شاید امیبا سے زیادہ نہ ہوں ، ایک بن مانس کے مقابلے میں زیادہ تعظیم اور قانونی تحفظ کا مستحق سمجھاجاتا ہے…اوریہ محض اِس لیے ہے کہ وہ ہمارے قبیل سے تعلق رکھتا ہے ۔رچرڈ ڈاکنز کے اِس بیان سے یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ اسقاط حمل پر پابندی کے حق ہے ، مدعا فقط یہ ہے کہ انسانی جان کے تقدس کی دلیل کی آڑ میںکسی عورت سے اسقاط حمل کا حق واپس لینا اُس کے بنیادی انسانی حقوق اور اُس کی پرائیویسی کی شدید خلاف ورزی ہے ۔ امریکی سپریم کورٹ نے عورتوں سے یہ حق واپس لے کر انہیں کئی دہائیوں پیچھے دھکیل دیا ہے ۔گویا امریکہ جیسے ملک میں بھی اب ’میرا جسم میری مرضی ‘ نہیں رہی بلکہ یہ ’میرا جسم اور سپریم کورٹ کی مرضی ‘ بن گئی ہے۔ پاکستانی فیمنسٹس کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے !

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے