رنگ برنگ لوگ !

میں دن میں کئی مرتبہ اپنے ملنے والوں سے رسماً پوچھتا ہوں کیا حال ہے اور وہ رسماً جواب دیتےہیں اللہ کا شکر ہے۔ نہ حال پوچھنے والے کو اس شخص کے حال سے کوئی خاص دلچسپی ہوتی ہے اور نہ عموماً حال بتانے والے کا حال اتنا اچھا ہوتا ہے جتنا اس کے جواب سے ظاہر ہوتا ہے۔ بس ایک رسمِ دنیا ہے جو چلی آ رہی ہے، مگر کچھ سادہ لوح ایسے بھی ہیں کہ جن سے آپ حال پوچھ بیٹھیں تو وہ اپنی صحت کے حوالے سے پورا بلیٹن جاری فرما دیتے ہیں’’ کھڑے کھڑے چکر آتے ہیں، بلڈ پریشر نارمل نہیں ہو رہا، کل میں سودا سلف لینے بازار گیا تو دکان پر میں گر پڑا اور ایک ہمسایہ اٹھا کر گھر لایا‘‘۔ آپ اس کے جواب میں تاسف کا اظہار کرتے ہیں اور یہ تلقین بھی کہ اپنی صحت کا خیال رکھیں اور پھر جانے کے لئے اجازت طلب کرتے ہیں مگر سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ وہ اب آپ کو جانے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں، آپ حال جو پوچھ بیٹھے ہیں، چنانچہ وہ باقی ماندہ حال بھی سنانا شروع کردیتے ہیں۔ ’’چھوٹے بچے کو خسرہ نکلا ہوا ہے، بڑا بیٹا کل موٹر سائیکل کھمبے میں مار بیٹھا، ابھی موٹر سائیکل کی قسطیں بھی رہتی تھیں، چلو اللہ کا شکر ہے جان تو بچ گئی‘‘۔

د ل میں ہم لوگ کتنی بار اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں لیکن دل کی گہرائیوں سے یہ شکر صرف اس وقت ادا ہوتا ہے جب کسی بڑے حادثے میں کوئی ہڈی پسلی تڑوا بیٹھے اور کہے اللہ کا شکر ہے موٹر سائیکل صحیح سلامت ہے۔ کچھ لوگ تو اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ’’خالو جان کار کے حادثے میں فوت ہوگئے مگر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آنکھیں بچ گئیں۔‘‘ انسان بھی اللہ کی عجیب مخلوق ہے، خوشی کے موقع پر رسماً اور غمی کے موقع پر اللہ کا دلی شکریہ ادا کرتا ہے، لگتا ہے اسے حسنِ سلوک کچھ زیادہ راس نہیں آتا۔ کچھ لوگوں کا معاملہ حال پوچھنے کے سلسلے میں قدرے مختلف بھی ہے۔ ان سے پوچھیں ’’کیا حال ہے؟‘‘،وہ جواب دیتےہیں ’’اب ٹھیک ہے۔‘‘ گویا پوچھنے سے پہلے ان کے ساتھ کافی حادثات گزر چکے ہیں جو میرے علم میں نہیں حالانکہ یہ حادثے میرےعلم میں ہوتے ہیں اور نہ ان پہ گزرے ہوتے ہیں، بلکہ اب ٹھیک ہوں، ان کاتکیۂ کلام ہوتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود ایسے لوگوں سے یہ کبھی نہیں پوچھنا چاہئے کہ ’’خیریت تو ہے کیا ہوا تھا‘‘ کیوں کہ اس کے جواب میں پھر ایک لمبی گفتگو بہرحال سننا پڑے گی۔

اصلی یا نقلی بیماریوں اور حادثوں کا ذکر چھڑا ہے تو یہاں ان لوگوں کا ذکر بھی ضروری ہے جو بیمار کی عیادت عبادت سمجھ کر کرتے ہیں مگر نوجوانوں میں ایک طبقہ ایسا ہے جو بیمار کی عیادت صرف اس صورت میں کرتا ہے اور دن میں دو دو تین تین بار کرتا ہے اگر بیمار کسی اسپتال میں داخل ہو، بیمار سے ان کی محبت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ بار بار نرس کے پاس جاتے ہیں اور بیمار کی صحت کے بارے میں سوالات کرتے ہیں، وہ نرس کو مسیحا تصور کرتے ہیں، بعض اوقات انہیں یہ سوالات بہت مہنگے پڑتے ہیں کیونکہ اس مسیحا سے بالآخر ان کی شادی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح کچھ لوگوں کو میں نے سوگ پر بہت فعال ہوتے دیکھا ہے۔ یہ نماز جنازہ پر باآواز بلند صفیں سیدھی کراتے ہیں،آٹھ صفیں ہوں تو نو پر اصرار کرتے ہیں، دس ہوں تو گیارہ بنا کر چھوڑتے ہیں۔ مرحوم کو دفناتے وقت بھی ان کا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے۔ یہ اینٹ روڑے سے ہر سوراخ بند کردیتے ہیں ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اگر اتفاق سے مرحوم زندہ ہوبھی جائے تو کوشش کے باوجود قبر سے نہ نکل سکے، ان کی دلیری کا یہ عالم ہے کہ قبر کا سائز چیک کرنے کے لئے قبر میں لیٹ جاتے ہیں حالانکہ سو دشمن سو سجن ہوتے ہیں۔ ایسا رِسک نہیں لینا چاہئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے