گوتم بدھ اور گوتم ’’خود‘‘!

چاچا نور محمد میرابچپن کا دوست تھا ۔اللہ جانے چھوٹے بڑے سب اسے چاچا کیوں کہتے !سکول میں اس کے ٹیچر بھی اسے چاچا نور محمد کہتے تھے، اس سے چاچے کو یہ اندازہ ہوا کہ اس کے سامنے سب چھوٹے ہیں۔ تبھی تو بڑے بھی اسے چاچا کہتے ہیں، یہ احساس اس کے دل میں دن بدن پختہ ہوتا چلا گیا اور جب دسویں جماعت میں اس کے استاد نے اسے کلاس میں مانیٹر مقرر کر دیا ،اس کے بعد تو چاچا نور محمد راستے میں کہیں رکا ہی نہیں۔ اس نے بڑے بڑے دعوے کرنا شروع کر دیئے ،وہ کہتا تھا آئن اسٹائن وغیرہ اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ایک دن اس کے سامنے گوتم بدھ کی بات ہو رہی تھی تو اس نے کہا گوتم بدھ کو جتنا میں جانتا ہوں اتنا کوئی نہیں جانتا وہ تو تلخ حقائق کا سامنا کرنے کی بجائے دنیاوی کاموں سے کنارہ کش ہو گیا تھا اس کے مقابلے میں مجھے دیکھو ،میری زندگی دیکھو، میرے بلند عزائم دیکھو ،میں نئے زمانے کا گوتم بدھ ہوں۔ صدیوں پہلے کا گوتم بدھ آج اگر موجود ہوتا تو وہ خود اعلان کرتا کے گوتم بدھ میں نہیں چاچا نور محمد ہے۔
اس کے اس بیان کے بعد میں نے اسے چاچا نور محمد یا گوتم بدھ کہنے کی بجائے گوتم ’’خود‘‘ کہنا شروع کر دیا ،وہ اپنے اس نئے نام سے بہت خوش ہوا ،اس کے خیال میں اب اس کی شخصیت کو صحیح طور پر سمجھا گیا حتیٰ کہ اب وہ خود ہی اپنے آپ کو گوتم ’’خود‘‘ کہنے لگا تھا !
بس وہ دن اور آج کا دن اس نے زندگی کے ہر شعبے کے بڑے لوگوں پر ’’رندا‘‘پھیرنا شروع کر دیا ،اس نے عدلیہ کی ماں بہن ایک کر دی ،ہر ایک کو میر صادق اور میر جعفر کہنا شروع کر دیا ،اس کے علاوہ اس نے کئی ایسی باتیں بھی کیں جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کی تھیں ۔اس نے کہا سورج مشرق سے نہیں مغرب سے طلوع ہوتا ہے، زمین گردش میں نہیں ساکن ہے، ایک دن اس نے یہ بھی کہا کہ وہ پیغمبر تو نہیں لیکن ویسے ہی حالات سے گزرا ہے جن سے وہ گزرتے رہے ہیں اور پھر ان حالات کا مقابلہ کرنے کے بعد وہ اس مقام پر پہنچے جس مقام پر میں حالات کا مقابلہ کرنے کے بعد پہنچا ہوں ۔اب یہ مہاتما خود تمام علوم کے بارے میں اپنی رائے کو حتمی قرار دینے لگا اور اس کی کسی رائے سے انکار کرنے کو اس نے شرک قرار دیا ۔اس کی دلیل اس نے یہ دی کہ اللہ حق ہے اللہ سچ ہے چنانچہ جو بھی حق اور سچ کے مقابلے میں کسی اور رائے کا اظہار کرتا ہے وہ شرک کا مرتکب ہوتا ہے ۔
مہاتما خود کا یہ بھی خیال تھا کہ قبر میں فرشتے یہ سوال ضرور کریں گے کہ تم حق اور سچ کا ساتھ دینے کی بجائے چور اچکے ،کرپٹ، بدعنوان لوگوںکی باتوں پر یقین کرتے رہے اب اس کی سزا بھگتنے کے لئے تیار ہو جائو ۔میں اس کی باتوں کی تائید کرتا اور دل میں ہنستا جس سے شہ پاکر اس نے پبلک میں یہ باتیں کرنا شروع کر دیں اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اسے چاچا نور محمد کہنے والوں کی ایک بڑی تعداد اس کی ہاں میں ہاں ملانے لگی ، اب اسے کوئی چاچا نور محمد نہیں کہتا تھا جو کہتا اسے اس کے پیرو کار ماں بہن کی گندی گالیاں دیتے ،خود میرے محلے کے وہ سب لوگ جو سائیں کوڈے شاہ کے مرید تھے اور اس کے ساتھ بیٹھ کر ’’سردائی‘‘ پیا کرتے تھے وہ خود بھی گوتم خود کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گئے اور انہوں نے سائیں کوڈے شاہ سے بھی اس بشارت کا اعلان کروایا کہ امت مسلمہ ایک طویل عرصے سے جس روحانی شخصیت کے ا نتظار میں تھی اس کا ظہور ہو گیا ہے، شیدا پان فروش جس کے پان میں یہ خصوصیت تھی کہ منہ میں رکھتے ہی انسان جھولنے لگتا تھا اپنے تمام گاہکوں سمیت گوتم خود کا کلمہ پڑھنے لگ گیا۔
میرے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ گوتم خود کے ماننے والوں میں بہت پڑھے لکھے ،بہت سنجیدہ اور بہت قابل احترام لوگ بھی گوتم خود کو قوم کا نجات دہندہ سمجھنے لگے ۔اب گوتم خود بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کرنے لگا تھا اور اس کے جلسے میں جہاں قوم کے مختلف طبقوں کے افراد شریک ہوتے اور اس کی باتوں پر فدا ہوتے نظر آتے وہاں انتہائی ماڈرن لڑکیاں اس کی تقریر کے دوران اظہار یکجہتی کے لئے رقص کرتی بھی نظر آتیں چنانچہ میں نے بھی ان جلسوں میں جانا شروع کر دیا سبحان اللہ جلسہ کیا ہوتا تھا گوتم خود کے بہت سے انکشافات ، انتظامیہ کو دھمکیاں دینے، محترم شخصیات کے حوالے سے چٹخارے دار گالیاں دینے اور رقص کے مناظر، یہ جلسہ ورائٹی شو کی شکل اختیار کر جاتا مگر ہماری قوم نے کبھی گوہر نایاب کی قدر نہیں کی چنانچہ عوام کا ایک بڑا طبقہ گوتم خود کو ملک و قوم کے لئے خطرہ قرار دینے لگا ،میں ان جلسوں کی یکسانیت اور گوتم خود کی ایک ہی تقریر بار بار سننے کی وجہ سے اکتا گیا تھا چنانچہ میں نے نہ صرف یہ کہ ان جلسوں میں شرکت کرنا چھوڑ دی بلکہ اپنے پرانے دوست چاچا نور محمد جو اب گوتم خود بن گیا تھا کی صحبت سے بھی محروم ہو گیا ۔ایک بار آمنا سامنا ہوا مگر اس نے مجھے پہچانا ہی نہیں اور خدا کا شکر ہے کہ میں اسے پوری طرح پہچان چکا ہوں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے