عمران ،شہباز اور شرلی بے بنیاد

شہباز شریف جب سے عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیج کر وزیراعظم بنے ہیں۔انہیں خود بھی یقین نہیں آرہا کہ وہ سچ مچ وزیراعظم بن چکے ہیں ۔انہیں اپنے بڑے بھائی نوازشریف کی مرکز میں موجودگی کے گھنے سائے تلے پنجاب میں وزارت اعلی کا تجربہ ہے اور تجربہ بھی خوب ہے ۔پہلے ایک مثال سے سمجھاتا ہوں۔ہمارے وائس چانسلر گزرے ہیں ، ان کے ساتھ ہمارے ہاں وی سی بننے سے پہلے کی بےتکلفی تھی ۔جب وائس چانسلر بنے تو ایک ملاقات میں میں نے انہیں بتانے کی کوشش کی کہ ہماری یونیورسٹی دیگر یونیورسٹیوں سے کچھ مختلف ہے اور پھر یہاں جو انواع و اقسام کے منظم گروپس متحرک ہیں ،ان کے بارے میں علم ہونا ضروری ہے ۔کہنے لگے بالکل بالکل ، میں جب فلاں ادارے سے فلاں ادارے میں اعلی پوسٹ پر گیا تھا تو کچھ پریشان تھا کہ اتنے بڑے ادارے کو کیسے سنبھالوں گا۔تو مجھے میرے مرشد نے گر بتا دیا تھا کہ جس بھی ادارے میں اعلی پوزیشن پر جاو تو جاتے ہی سب سے پہلے اس ادارے میں موجود اپنے پی اے کو ساتھ ملا لو، اعتماد میں لے لو۔ہر پی اے دفتر اور ادارے کے کام کو خوب سمجھتا ہے۔

پھر انہوں نے ایک معصوم سا قہقہہ لگاتے ہوے کہا میں نے اپنے پی اے کو ساتھ ملا لیا ہے۔اسی طرح ایک اور وائس چانسلر نے پی اے سے کہہ رکھا تھا کہ ہر فائل پر کچی پنسل سے کمنٹس لکھ دیا کرے ، تحریر طویل تو علحدہ کاغذ پر لکھ کر ساتھ رکھ دیا کرو ۔پھر وہ سبز پن سے فائل پر وہ تحریر لکھتے تھے ، اور ربڑ سے کچی پنسل کی تحریر کو مٹاتے تھے۔سچ ہے وہ بڑی محنت کرتے تھے۔آج کل کالم نگاری کر رہے ہیں اور کسی نئی پوزیشن کی تاک میں ہیں ۔ شریف برادران کا طریقہ واردات بھی اسی طرح کا ہے۔البتہ یہ کرتے اس طرح سے ہیں کہ ٹاپ بیوروکریٹس کو ایک طرف کر کے جونیئر بیوروکریٹ اوپر لے کر آتے ہیں۔

اس طرح وہ جونیئر بیوروکریٹ اپنے سینیئرز سے بھی آگے نکل کر سرکارکی بجائے خانوادہ شریفاں کے ذاتی ملازم بن جاتے ہیں۔نواز شریف نے بھی پنجاب میں بیوروکریسی کی بزرگ کمر توڑ کر جونیئر بیوروکریٹس کے ذریعے حکومت کی ۔شہباز شریف نے بھی یہی طریقہ دیگر سلیقے سے استعمال کیا، سنا ہے کہ ان کے اطراف موجود اور منتظر التفات بعض جونیئر بیوروکریٹس کی بیگمات تک خود کو خطرے میں محسوس کرتی تھیں۔اس وقت بھی بطور وزیراعظم انہوں نے پنجاب ہی سے اپنے اعتماد کا بیوروکریٹ منگوا رکھا ہے ۔یہ کاروباری لوگ ہیں ۔یہ اپنے مفادات لاہوری پنجابی میں اپنے سیکرٹری کو سمجھا دیتے ہیں ،پھر وہ ان مفادات کے گرد قانون ضابطے کا فریم بنا کر تعمیل کر دیتے ہیں۔

مجھے اندازہ نہیں تھا کہ عمران خان کو اپوزیشن میں آکر شہباز شریف سے خوف آنے لگے گا۔شائد اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ چونکہ عمران خان کو ہٹا کر وزیراعظم بنے ہیں تو اس لیے برے لگتے ہوں۔ایک عامل کامل کے کہنے پر عمران خان نے اپنے اندرونی خوف پر قابو پانے کے لیے جلسوں میں شہباز شریف کو چیری بلاسم اور بوٹ پالشیہ کہنا شروع کر دیا. ستم ظریف کہتا ہے کہ اس سب کو سیاست بازی نہیں ،سوتن گیری خیال کرنا چاہیئے۔جن کو علم اور تجربہ ہو کہ فلاں کے بوٹ پالش کر کے ثواب ہوتا ہے ،وہ سیدھے باغ بہشت یعنی وزارت اعظمی کی کرسی پر جا بیٹھتے ہیں۔پھر جب وہاں سے نکال دئیے جائیں اور کسی اور کو بٹھا دیا جائے تو محروم التفات سوتن سوائے طعنے اور بددعائیں دینے کے اور کر بھی کیا سکتی ہے یا سکتا ہے۔

پھر کچھ بیچ بچولے متحرک ہوئے اور پیا کے ساتھ ایک ملاقات کا اہتمام کیا گیا ۔سنا ہے زیادہ گفتگو آنکھوں سے اور خاموشی کی زبان سے ہوئی۔پیا نے کچھ سمجھانے کی کوشش کی ،کچھ نرمی کا بھی وعدہ کیا ۔لیکن دیا دلایا کچھ نہیں ۔اب اس ملاقات کے بعد لب و لہجے اور زیر استعمال الفاظ میں نمایاں تبدیلی نظر آرہی ہے ۔وہ جو پہلے چیری بلاسم اور بوٹ پالش ہوا کرتا تھا ،اب اسے آئن شٹائن سمجھا جانے والا کہہ دیا گیا ہے۔عمران خان نے اپنے حالیہ گھریلو خطاب میں کہا ہے کہ وہ جو لوگ شہبار شریف کو آئن شٹائن سمجھ رہے تھے کہ وہ جب آئے گا تو سارا کچھ ٹھیک کردے گا۔اب صورتحال یہ ہے کہ مہنگائی ساری حدیں پار کر چکی ہے ،اور معیشت ٹھیک کرنے کے ان ماہروں کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں ہے۔ستم ظریف کی مدلل تحقیق کے مطابق عمران خان کے اس شکوے کا رخ شہباز شریف کی طرف نہیں ، پیا جانی کی طرف ہے۔

عمران خان نے شہباز شریف کے اپنے مخاطب کے جسم انسانی کو بار بار چھونے والی عادت ہر بھی اعتراض اٹھایا ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ شہبازشریف نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل توانتونیو گوتریس کا بازو تختہ مشق بنائے رکھا ، کبھی پکڑ لیتے ،کبھی چھوڑ کر کمر پر ہاتھ جما دیتے۔عمران خان کو شائد علم نہیں کہ باہم ملاقات میں مخاطب کو بار بار چھو کر گفتگو کرنے والا دراصل اپنے احساس کمتری پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔

ادھر سمرقند میں جاری شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہان مملکت کی کونسل کے اجلاس کے موقع پر شہباز شریف اپنے نت نئے سوٹ اور پہلے سے چمکدار بوٹ پہن کر اجلاس کے خوشگوار ماحول میں چہکتے پھر رہے ہیں۔کیا صدر شی جن پنگ ،کیا ولادیمیر پوٹن اور کیا طیبب اردگان ہر طرف سربراہان مملکت کا ہجوم ہے ،کسی کے ساتھ بھی تصویر بنوائی جا سکتی ہے ۔ شہباز شریف نے روس کے صدر پوٹن سے بھی ملاقات کی اور تصویر بنوائی ،ان کے خبر نگاروں نے وہی عمران خان کے دور کی باتیں چلا دیں ،تعاون کریں گے سستی گیس لیں گے ۔

صدر پوٹن روسی گیس کی ونڈو شاپنگ کے شوقین پاکستانیوں کو کھلے دل سے گیس فراہم کرنے کی پیش کش کر دیتے ہیں ۔وہ پیشگی طور پر جانتے ہیں کہ یہ سارے چسکا پارٹی ہیں،بھاو پوچھ کر غائب ہو جائیں گے۔وزیر اعظم کے اس دورے کی بڑی معنی خیز قسم کی تصویریں سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں ۔ایک تصویر میں سارے صدور مفرحات سے سجی میزوں کے گرد جمع ہیں ، ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوغان محو گفتگو ہیں، اور صدر پوٹن سمیت متعدد صدور ہمہ تن گوش ہیں ۔شرلی بے بنیاد نے یہ تصویر سامنے رکھ کر وہاں ہونے والی گفتگو کا ایک اندازہ سا قائم کیا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ صدر اردوغان کہہ رہے ہیں کہ میں نے شہباز شریف سے کہاکہ اب آپ بات نہ بھی کریں تو لگتا ایسے ہی ہے جیسے پیسے مانگ رہے ہوں۔ وہ تھوڑی دیر پہلے میرے ساتھ چلتے چلتے ہوئے بار بار میری جیب میں ہاتھ ڈال لیتے تھے ۔تنگ آ کر میں نے ان کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا۔

ڈیئر ولادمیر پیوٹن ! آپ کا تجربہ کیسا رہا؟

پوٹن: وہ میرے ساتھ عربی بولنے کی کوشش کر رہے تھے۔میری ٹرانسلیٹر نے منع کیا ،تو اس سے فون اور کچھ دیگر ضروری نمبر پوچھنے لگے۔ مجھے برا لگا ، لہذا پھر میں تو انہیں ایک الگ کمرے میں لے گیا اور کمانڈو تربیت کے دوران کان مروڑنے کے لیے سیکھے طریقے کے مطابق ان کے کان کھینچے۔جب تک روسی زبان میں معافی نہیں مانگی ،میں نے کان نہیں چھوڑے۔پھر ہم میٹنگ میں آ گئے۔وہاں دیکھا کہ وہ مسلسل اپنے کانوں کے ساتھ بہانے بہانے سے کھیل رہے تھے، میں نے انہیں ایک سخت اشارہ کیا کہ اگر اس نے کسی کو بتایا تو اب کی بار کان نہیں پکڑوں گا ۔ویسے مجموعی طور پر اچھے اور دلچسپ آدمی ہیں۔

شرلی چونکہ ہے ہی بے بنیاد ،لہذا اس کی کسی بات پر غصہ کرنا یا اسے ڈانٹنا چھوڑ رکھا ہے ۔پھر بھی میں نے اسے نرمی سے سمجھایا ہے کہ اسے اس طرح کی مزاح نگاری کرتے وقت عالی رتبہ لوگوں کے منصب کا خیال ضرور کرنا چاہئیے ۔اور پھر یوں اپنے وزیر اعظم کو طنز کا عنوان بنانا کوئی اچھی بات تھوڑی ہے۔میری نرم ڈانٹ سن کر ستم ظریف ہنسنے لگا ۔پوچھا اس میں کھلکھلانے والی بات کون سی ہے؟ کہنے لگا کہ شرلی بے بنیاد نے ایک دوسری تصویر کہ ، جس میں سارے صدور ہمارے وزیراعظم صاحب کے گرد پروانہ وار جمع اور ہمہ تن گوش ہیں ، کا بھی ایک احوال رقم کیا ہے۔وہ کیا ہے بھئی؟ شرلی کہنے لگا کہ جی اس تصویر میں شہباز شریف صاحب اپنے اطراف جمع صدور سے اپنے مخصوص اور مشہور انداز میں کہہ رہے ہیں کہ
ہم آپ کے پاس چل کر آئے ہیں
تو آپ یہ مت سمجھیئے گا کہ
ہم کچھ مانگنے آئے ہیں
آپ اپنی مرضی اور گنجائش کے مطابق
جو سلوک بھی کریں گے
ہمیں قبول ہے
یہ مت سمجھیئے گا کہ ہم پیشہ ور بھکاری ہیں
ہم ترکی یا عرب جائیں تو وہ ویسے ہی جیب میں کچھ نہ کچھ ڈال دیتے ہیں
جس جس نے بھی ہمیں کچھ دیا ہے
آپ یقین مانیں اللہ نے ان سب کو بہت دیا ہے
ہم اپنے لیے نہیں مانگ رہے ہمارے پاس تو اللہ کا دیا سب کچھ ہے
ہم تو اپنے ملک کے لیے
جہاں سیلاب آیا ہوا ہے۔
بس یہی عرض کرنا چاہتا ہوں
اگر کسی کے پاس کھلے پیسے ہوں
پرانے کپڑے ہوں
زیورات یا دعوت سے بچا کھانا ہو
ہم لیتے ہوئے نہیں شرمائیں گے
آپ دیتے ہوئے نہ گبھرائیں
یاد رکھو بھائیوں
دعا فقیراں
تے رحم اللہ
اور اب میں آپ کوایک گانا سناؤں گا
بہت دکھ دیئے ہیں
ہمیں زندگی نے
ہمیں اور غم اب نہ تم دے کے جاو
نگاہوں سے سہمی ہوئی التجائیں
صدا دے رہی ہیں کہ
اب لوٹ آؤ
کرو یاد تم نے
یہ وعدہ کیا تھا
ہم اک دوسرے کا
سہارا بنیں گے
اکیلے نہ جانا،ہمیں چھوڑ کر تم

تالیاں، پھر وزیراعظم نے اپنا ہیٹ ،جو خواجہ آصف کی تحویل میں تھا ،سارے سربراہان کے سامنے کشادہ کیا ۔رات کو ہوٹل واپس آنے کے بعد سنا ہے کہ وزیراعظم اپنی دستیاب کابینہ کے ساتھ دیر تک ریز گاری گنتے رہے ۔
حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر جو یہ الزام لگاتے ہیں کہ شہباز شریف کو حکومت چلانی نہیں آتی ۔یاد رکھو نادان لوگو ! جو شخص کامیابی اور مکمل راز داری سے چکر چلا سکے، وہ حکومت بھی چلا سکتا ہے۔یہ سب پڑھ کر مجھے اندازہ ہو گیا کہ نہ تو عمران خان بدلنے والے ہیں ،نہ شہبازشریف اور نہ شرلی بے بنیاد۔اس ملک میں جو چل رہا ہے ،یونہی چلتا رہے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے